• KHI: Maghrib 6:52pm Isha 8:10pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:51pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 8:00pm
  • KHI: Maghrib 6:52pm Isha 8:10pm
  • LHR: Maghrib 6:27pm Isha 7:51pm
  • ISB: Maghrib 6:34pm Isha 8:00pm

کراچی: خوف و دہشت کی داستان

شائع April 16, 2013

fear-and-loathing-in-karachi 670
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کراچی میں تین روز تک جاری رہنے والے فسادات کے دوران 30 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ —. فوٹو پی پی آئی

ستائیس دسمبر 2007ء کو سورج غروب ہونے سے چند لمحے قبل ٹی وی چینلز پر سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر نشر ہوئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا سیاسی و جمہوری مستقبل تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی 8 جنوری کو ہونے والے الیکشن، آمریت کے خاتمے اور ملکی سالمیت و بقا پر سوالیہ نشان لگ گیا۔

ان سوالوں کے جواب گزرتے دنوں میں آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے۔ الیکشن کو 18 فروری تک ملتوی کر دیا گیا، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف مزید طاقتور ہو کر سامنے آئے اور آصف علی زرداری نے پارٹی معاملات ہاتھ میں لیتے ہوئے "پاکستان کھپّے" کا نعرہ بلند کر کے خطرات کے اندیشوں کو زائل کر دیا۔

لیکن سندھ میں اس واقعے کے بعد آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی گئی وہ آج تک ایک معمہ ہے۔ کیا یہ پاکستان کی دو مرتبہ منتخب ہونے والی وزیراعظم کے قتل کا ردّعمل تھا یا الیکشن ملتوی کرانے کی سازش؟

لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود ہم حقیقت سے لاعلم ہیں۔

fear-and-loathing-in-karachi1 670
۔ —. فوٹو پی پی آئی

اقتدار میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے ان پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے، اس کے مقاصد اور اس کے پیچھے موجود عناصر کا پتہ لگانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا، لیکن وہ کسی بھی سطح کی حقیقت کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہا۔

اس پر ستم یہ ہوا کہ کمیشن کو ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں بغیر کسی وضاحت کے تحلیل کر دیا گیا۔

اس تمام صورتحال میں ملک کا معاشی حب سب سے زیادہ متاثر ہوا اور شہر قائد پر ایک ہفتے تک خوف و دہشت کے سائے منڈلاتے رہے۔ اس دوران 30 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔

ان دونوں کے واقعات میں سفاکیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں چھ مزدور بھی شامل تھے جو روزانہ کی بنیاد پر روزی روٹی کما کر اپنے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔

fear-and-loathing-in-karachi2 670
۔ —. فوٹو پی پی آئی

مشتعل مظاہرین نے کورنگی کے علاقے میں واقع ایک انڈسٹری کو آگ لگادی جہاں یہ چھ بدقسمت زندہ جل کر کوئلہ بن گئے۔

بہرحال رفتہ رفتہ صورتحال معمول پر آنے لگی اور سیاسی جماعتوں نے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کیا، جو اس تمام صورتحال میں ماند پڑ گئی تھیں لیکن اب بھی خطرات اپنی جگہ موجود تھے۔

اٹھارہ فروری کو ہونے والے الیکشن میں تمام اہم جماعتوں نے شفاف انتخابات اور ووٹر لسٹوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ کراچی میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ووٹرز پولنگ کارڈ پر سنگین غلطیوں کا انکشاف بھی کر رہے تھے۔

fear-and-loathing-in-karachi3 670
۔ —. فوٹو پی پی آئی

انتخابات کے دن کا 44 فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ کے ساتھ پُرامن طریقے سے اختتام ہوا۔ ملک دونوں بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے زیادہ تر سیٹیں حاصل کیں جبکہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) نے اپنی تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان سیٹوں پر بھی کامیابی حاصل کی، جہاں سے 2002ء میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی ہوئی نظر آرہی تھی لیکن اس کے لیے اسے دوسری جماعتوں کی مدد درکار تھی۔ پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے کراچی کی سیٹوں پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا، جس سے ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد پر خدشات کے بادل منڈلانے لگے تھے۔

fear-and-loathing-in-karachi4 670
۔ —. فوٹو پی پی آئی

مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے ایک کولیگ کے ساتھ غیر ملکی ریڈیو کی نشریات سن رہا تھا، جس پر ضلع شرقی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار جنہیں مخالف امیدوار کے ہاتھوں اپنی ہار کا یقین نہیں تھا، اپنے شدید ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔

کراچی کے مجموعی انتخابی عمل پر ردعمل کے حوالے سے پانچ منٹ کی ریکارڈنگ مکمل ہونے کے بعد ریڈیو کے نمائندے نے ان سے شائستہ زبان استعمال کرنے کی گزارش کی کیونکہ جو الفاظ وہ استعمال کر رہے تھے انہیں ہرگز آن ایئر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

پیپلز پارٹی کے مذکورہ رہنما جو بعد میں سینیٹر بھی منتخب ہوئے، نے اس گزارش کو رد کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے دن کی حقیقت اس کے کہیں زیادہ تلخ ہے۔

fear-and-loathing-in-karachi5 670
۔ —. فوٹو پی پی آئی

اور پھر لوگوں نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات ختم ہوتے دیکھے اور دونوں پارٹیاں مرکز اور سندھ میں بڑے اتحادی کے طور پر اُبھر کر سامنے آئیں، ان دونوں کا یہ تعلق مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ پانچ سال تک جاری رہا لیکن اس کے باوجود 18 فروری کی شام کو پی پی رہنما کی جانب سے ادا کیے گئے یہ الفاظ آج تک میرے کانوں میں سرگوشی کر رہے ہیں۔

"آج جتنا کچھ ہو چکا ہے، اگر ہم اس کے باوجود محض اقتدار میں آنے کے لیے سمجھوتہ کرتے ہیں تو پھر یہ ہمارے آخری پانچ سال ہوں گے۔"

انہوں نے کہا کہ "پیپلز پارٹی ایک نظریے کا نام ہے اور پانچ سالہ حکومت کے لیے اپنی 50 سالہ تاریخ کو قربان نہیں کر سکتی کیونکہ پانچ سال بعد ہم اپنے ہی لوگوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔"

کارٹون

کارٹون : 9 اپریل 2025
کارٹون : 8 اپریل 2025