اقبال کا پاکستان؟
اقبال کو رخصت ہوئے تقریبا تین چوتھائی صدی گزر چکی ہے- پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے بھی چھیاسٹھ برس گزرچکے-
ہمیں ناز اس بات پر ہے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے اس کی تعبیرکی- اس کے ساتھ ہی مجھے خیال آتا ہے کہ کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور کیا اگران کاخواب "آج" کا پاکستان ہوتا تو قائد اعظم واقعی اس کی "تعبیر" کیلئے کوشاں ہوتے؟
آج مجھے اقبال کی نظم "صدائے درد" یاد آرہی ہے- گرچہ یہ نظم اس دور کی تخلیق ہے جب نہ تو پاکستان کا تصور تھا اور شائد اس وقت اقبال نے یہ خواب دیکھا بھی نہ ہو (یہ نظم لگ بھگ 1905میں لکھی گئی تھی) لیکن آج کے پاکستان میں جسکی زمین تشدّد کے نتیجے میں بہنے والے خون سے سرخ ہو رہی ہے، فرقہ واریت کا سانپ ہمیں ڈس رہا ہے، بنیاد پرستی کے نتیجے میں تعصب کی ہوا چل رہی ہے، یہ نظم آج کے پاکستان پر حرف بحرف صادق آتی ہے آپ بھی سن لیجئے؛
جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آ ب گنگا تو مجھے سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل،کیسا، یاں تواک قرب فراق انگیز ہے بدلے یک رنگی کہ یہ ناآشنائی ہے غضب ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آتی نہیں اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں لذت قرب حقیقی پر مرا جاتا ہوں میں اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں دانۂ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں کب زباں کھولی ہماری لذّت گفتار نے ؟ پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ "آتش پیکار" سرزمین پاکستان کو داغ داغ کردینے کے درپے ہے- اقبال نے اپنی نظم "آفتاب صبح " میں کہا تھا؛
بستۂ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں
وہ انسانیت کے نغمہ خوان تھے اور ان کے قلم نے لکھاتھا؛ صدمہ آجائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر اشک بن کرمیری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر
یقیناً اقبال کی آنکھ آج خون کے آنسو رو رہی ہوگی- کیونکہ انہوں نے کہا تھا؛
سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو
اقبال کے فلسفہ کا دن رات کلمہ پڑھنے والے آج درد کا سبب کیوں بن رہے ہیں؟
اقبال کی ایک اور نظم "سید کی لوح تربت" کے چند شعر سنئے؛
وا نہ کرتا فرقہ بندی کیلئے اپنی زباں چھپ کہ ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
فرقہ واریت کے جن کو اقبال نے جن دنوں " ہنگامۂ محشر " کی وجہ قرار دیا تھا - آج یہی جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے - آج ہم کیوں اپنی قوتیں ، اپنے امکانات اس بوتل کے جن کو بند کرنے کیلئے استعمال کر نہیں پا رہے - اقبال نے ان دنوں بھی ارباب سیاست سے کہا تھا؛
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا عرض مطلب سے جھجھک جانا، نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
ایک اور نظم پڑھئیے "زہد اور رندی"- آپ نے انتخابی امیدواروں سے کئے جانے والے ریٹرننگ آفیسر کے سوالات پچھلے دنوں سنے ہونگے - ایک ٹاک شو میں جب ان سوالات کا ذکر ہوا تو وہاں موجود ایک مہمان نے بجا طور پرکہا، اگر قائد آعظم انتخابی امیدوار کی حیثیت سے ان ریٹرننگ آفیسروں کے سامنے پیش ہوتے تو غالباً ان کے کاغذات بھی مسترد کر دئے جاتے- اس پس منظر میں اقبال کے یہ اشعار پڑھئے؛
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا اقبال کہ ہے قمریء شمشاد و معانی پابندی احکام شریعت میں ہے کیسا ؟ گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ " اقبال " کو دیکھوں کی اسکی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی " اقبال " سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
کیا "تصویر درد" میں اقبال کا یہ شعر ہمارے آج کے پرخوں دور کی ترجمانی نہیں کرتا اور ہمیں خبردار نہیں کرتا؟
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
اور پھر؛ تعصب چھوڑ ناداں ، دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تونے زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطر قراں کو چلیپا کر دیا تونے ! زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل ! بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تونے
اقبال کا یہ کلام ان کی شاعری کے دور اولین سے تعلق رکھتا ہے اور بانگ درا میں شامل ہے- بیسویں صدی کے اوائل میں کہے گئے یہ اشعارآج اکیسویں صدی کے اوائل میں بھی یوں نظرآتے ہیں جیسے آج ہی کیلئے لکھے گئے ہوں- ہم اقبال کی وراثت کے دعویداروں نے نہ تو کل ان کی باتوں پر دھیان دیا تھا اور نہ ہی آج سمجھنے کے لئے تیار ہیں- کیا شاعر مشرق اور مفکر پاکستان کی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی؟












لائیو ٹی وی
تبصرے (3) بند ہیں