اقبال کا پاکستان؟

شائع April 21, 2013

 فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اقبال کو رخصت ہوئے تقریبا تین چوتھائی صدی گزر چکی ہے- پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے بھی چھیاسٹھ برس گزرچکے-

ہمیں ناز اس بات پر ہے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے اس کی تعبیرکی- اس کے ساتھ ہی مجھے خیال آتا ہے کہ کیا آج کا پاکستان وہی پاکستان ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور کیا اگران کاخواب "آج" کا پاکستان ہوتا تو قائد اعظم واقعی اس کی "تعبیر" کیلئے کوشاں ہوتے؟

آج مجھے اقبال کی نظم "صدائے درد" یاد آرہی ہے- گرچہ یہ نظم اس دور کی تخلیق ہے جب نہ تو پاکستان کا تصور تھا اور شائد اس وقت اقبال نے یہ خواب دیکھا بھی نہ ہو (یہ نظم لگ بھگ 1905میں لکھی گئی تھی) لیکن آج کے پاکستان میں جسکی زمین تشدّد کے نتیجے میں بہنے والے خون سے سرخ ہو رہی ہے، فرقہ واریت کا سانپ ہمیں ڈس رہا ہے، بنیاد پرستی کے نتیجے میں تعصب کی ہوا چل رہی ہے، یہ نظم آج کے پاکستان پر حرف بحرف صادق آتی ہے آپ بھی سن لیجئے؛

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آ ب گنگا تو مجھے سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل،کیسا، یاں تواک قرب فراق انگیز ہے بدلے یک رنگی کہ یہ ناآشنائی ہے غضب ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آتی نہیں اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں لذت قرب حقیقی پر مرا جاتا ہوں میں اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں دانۂ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں کب زباں کھولی ہماری لذّت گفتار نے ؟ پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے

چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ "آتش پیکار" سرزمین پاکستان کو داغ داغ کردینے کے درپے ہے- اقبال نے اپنی نظم "آفتاب صبح " میں کہا تھا؛

بستۂ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوع انساں قوم ہو میری ، وطن میرا جہاں

وہ انسانیت کے نغمہ خوان تھے اور ان کے قلم نے لکھاتھا؛ صدمہ آجائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر اشک بن کرمیری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر

یقیناً اقبال کی آنکھ آج خون کے آنسو رو رہی ہوگی- کیونکہ انہوں نے کہا تھا؛

سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو

اقبال کے فلسفہ کا دن رات کلمہ پڑھنے والے آج درد کا سبب کیوں بن رہے ہیں؟

اقبال کی ایک اور نظم "سید کی لوح تربت" کے چند شعر سنئے؛

وا نہ کرتا فرقہ بندی کیلئے اپنی زباں چھپ کہ ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ

فرقہ واریت کے جن کو اقبال نے جن دنوں " ہنگامۂ محشر " کی وجہ قرار دیا تھا - آج یہی جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے - آج ہم کیوں اپنی قوتیں ، اپنے امکانات اس بوتل کے جن کو بند کرنے کیلئے استعمال کر نہیں پا رہے - اقبال نے ان دنوں بھی ارباب سیاست سے کہا تھا؛

تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا عرض مطلب سے جھجھک جانا، نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے

ایک اور نظم پڑھئیے "زہد اور رندی"- آپ نے انتخابی امیدواروں سے کئے جانے والے ریٹرننگ آفیسر کے سوالات پچھلے دنوں سنے ہونگے - ایک ٹاک شو میں جب ان سوالات کا ذکر ہوا تو وہاں موجود ایک مہمان نے بجا طور پرکہا، اگر قائد آعظم انتخابی امیدوار کی حیثیت سے ان ریٹرننگ آفیسروں کے سامنے پیش ہوتے تو غالباً ان کے کاغذات بھی مسترد کر دئے جاتے- اس پس منظر میں اقبال کے یہ اشعار پڑھئے؛

تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا اقبال کہ ہے قمریء شمشاد و معانی پابندی احکام شریعت میں ہے کیسا ؟ گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ " اقبال " کو دیکھوں کی اسکی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی " اقبال " سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے

کیا "تصویر درد" میں اقبال کا یہ شعر ہمارے آج کے پرخوں دور کی ترجمانی نہیں کرتا اور ہمیں خبردار نہیں کرتا؟

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں

اور پھر؛ تعصب چھوڑ ناداں ، دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تونے زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطر قراں کو چلیپا کر دیا تونے ! زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل ! بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تونے

اقبال کا یہ کلام ان کی شاعری کے دور اولین سے تعلق رکھتا ہے اور بانگ درا میں شامل ہے- بیسویں صدی کے اوائل میں کہے گئے یہ اشعارآج اکیسویں صدی کے اوائل میں بھی یوں نظرآتے ہیں جیسے آج ہی کیلئے لکھے گئے ہوں- ہم اقبال کی وراثت کے دعویداروں نے نہ تو کل ان کی باتوں پر دھیان دیا تھا اور نہ ہی آج سمجھنے کے لئے تیار ہیں- کیا شاعر مشرق اور مفکر پاکستان کی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی؟

تبصرے (3) بند ہیں

نوشاد احمد Apr 21, 2013 08:34am
یقینا آج کا پاکستان وہی ہے جس کا خواب اقبال نے 1930 میں دیکھا تھا کیوں کہ اقبال کے اس تصور پاکستان میں بنگال اس وقت بھی شامل نہیں‌تھا اور آج کے پاکستان میں بھی بنگال شامل نہیں ہے الحمد اللہ قائد اعظم نے جو غلطی بنگال کو پاکستان بنا کر کی تھی ہم نے اقبال کی محبت میں 1971 میں وہ غلطی درست کرکے فکر اقبال کا پاکستان بنا لیا ہے .
saniip Apr 21, 2013 09:20am
iqbal didnt c pak dream
Tariq Apr 21, 2013 03:43pm
The Leader is purely decided by the acceptance of masses. And the qualities of real leader doesn't address masses, as he is a real Speaker and locates deficiencies among his own people. Such leaders get minimum acceptance. And the demagogues always arouse the masses on pride and provide feeding of past greats from them. To my understanding Sir Iqbal and Mr Jinah, addressed the emotional aspects of Muslims and could not concentrate on the better planning. Otherwise they got the best possible support from every expected source. The real and Quality Leader in prepartiton was Maulana Abul Kalam Azad, A leader with the Vission , wisdom and understanding of the facts on basis of long term effects. Anyone interested shall listen to audio clips of Maulana Azad. The lectures in 1945 are so brainstorming that after 70 years the predictions are almost 100% accurate. Either these short term thinkers or there supporters are responsible, and not the current generations. Sir Iqbal and Mr Jinah didn't even consider the Muslims, who will remain in India after division. Next those who migrated are yet designated as MUHAJIREEN and that too in the sense of hatred. Now it is futile to go back and blame the past history. The only solution is that build the Pakistan by addressing an individual and improvement of an individual in accordance with, peace , love, tolerance, mutual respect,regarding religion, one can't bundle all in one, but the solution is follow one and respect others, even the violence shall be not considered as a solution. Next the one shall peacefully preach his ideological understanding of Religion, no one can be forced to follow other. The basics for peace are well analysed, and need to communicate and follow. I pray to Allah to make Pakistan a nation achieving Peace, more than Japan, achieved after Hiroshima and Nagasaki. Peace

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2025
کارٹون : 24 دسمبر 2025