دل' کی باتیں'

شائع April 14, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

مارچ کے آخری ہفتے کے دوران مجھے شکاگو سے کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس جانے کا موقع ملا-

یہاں میرا قیام اورنج کاؤنٹی کے نواحی علاقہ اروائن میں منزّہ احمد کے گھرتھا- منزّہ تقریباً پندرہ سال سے اپنے شوہر عاطف احمد اور بچوں کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں اور یہاں کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں وقتاً فوقتاً حصہ لیتی رہتی ہیں-

منزّہ نے مجھے بتایا کہ آجکل وہ ایک تعلیمی پروگرام کے لئے فنڈ جمع کرنے کے سلسلے میں سالانہ واک میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں جو اسی سال پانچ مئی کو اروائن میں ہوگی- میری دلچسپی اس واک میں بڑھ گئی کیونکہ خود میرا تعلق بھی شعبہ تعلیم سے رہا ہے-

میں نے منزّہ سے مزید تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے مجھے بتایا کہ اس واک کا اہتمام "ڈی آئی ایل" (ڈیویلپمنٹ ان لٹریسی) نامی تنظیم کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے کی ایک میٹنگ 26 مارچ بروز منگل ہوگی جس میں خود وہ بھی شریک ہونگی- میں نے بھی اس میٹنگ میں شرکت کی خواہش ظاہر کی-

یہ میٹنگ اس تنظیم کی نئی منتخب صدر تہمینہ کی جانب سے بلائی گئی تھی تاکہ وہ اپنی تنظیم کے اراکین سے متعارف ہوں اور آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں غور و فکر کیا جائے- ہم وہاں پہنچے تو میں نے تقریباً پچاس خواتین کو موجود پایا- ان میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں اور عمر رسیدہ خواتین بھی-

ہم چونکہ وقت مقرّرہ سے بھی کچھ پہلے پہنچ گئے تھے اس لئے مجھے وہاں موجود لوگوں سے گھل مل جانے کا موقع بھی ملا- پتہ چلا کہ ان میں سے کچھ تو اخبار"ڈان" کیلئے بھی کام کرچکی ہیں- تنظیم کی فاؤنڈر ممبر فضا شاہ سے بھی میری ملاقات ہوئی جو اس تنظیم کی چیف ایگزیکیوٹو آفیسربھی ہیں-

فوٹو بشکریہ سیدہ صالحہ --.
فوٹو بشکریہ سیدہ صالحہ --.

میٹنگ شروع ہوئی تو فضا شاہ نے اپنی تنظیم کے بارے میں مختصراً بتایا- "دل" کے نام سے یہ تنظیم جس کا مقصد پاکستان میں تعلیم کا فروغ ہے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے قائم کی گئی ہے اور تقریباً پندرہ سال سے سرگرم عمل ہے- پاکستان میں یہ تنظیم سنہ 2000ء میں رجسٹرکی گئی- اب امریکہ کے نو مختلف شہروں مثلاً نیو یارک، واشنگٹن ڈی.سی، کیلیفورنیا کےعلاوہ بین الاقوامی سطح پردنیا کے مختلف ممالک مثلاً برطانیہ اور کینیڈا میں بھی اس کے دفاتر قائم ہیں-

اس تنظیم کے سرپرستوں میں محترمہ نفیس صادق کا نام بھی شامل ہے جو آجکل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی خصوصی مشیر ہیں- بورڈ کے مشیروں میں اور لوگوں کے علاوہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی بھی شامل ہیں جو ہمارے ملک کی جانی پہچانی شخصیت ہیں اور امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں-

تنظیمی امور امریکہ میں واقع بورڈ آف ڈائریکٹرز کے علاوہ پاکستان میں واقع بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے چلائے جاتے ہیں- اس کے علاوہ کثیر تعداد میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی عورتیں اور مرد اس تنظیم کی مدد کرتے ہیں-

مقاصد پرروشنی ڈالتے ہوئے مقررین نے بتایا کہ "دل" کا مقصد پاکستان کے دیہی علاقوں میں جہاں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے- اس مقصد کیلئے تنظیم کی جانب سے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں اسکول قائم کئے جاتے ہیں، اساتذہ بھی انہی علاقوں سے بھرتی کئے جاتے ہیں اور تنظیم انھیں ٹریننگ بھی دیتی ہے-

ذریعہ تعلیم بچوں کی مادری زبان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں اردو اور انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے- نصاب تعلیم پاکستان کے قومی نصاب پر مشتمل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ "دل" اپنی تیار کی ہوئی کتابیں بھی استعمال کرتا ہے تاکہ تعلیم کو دلچسپ اور نئے زمانے کی ضروریات کے مطابق بنایا جاسکے- میٹنگ میں بتایا گیا کہ آجکل سکائپ کے ذریعہ انگریزی پڑھانے کی تربیت دینے کا منصوبہ بھی زیرغور ہے-

فوٹو بشکریہ سیدہ صالحہ --.
فوٹو بشکریہ سیدہ صالحہ --.

"دل" کی جانب سے پاکستان کے تمام صوبوں میں 179 اسکول چلائے جا رہے ہیں جن میں تقریباً سترہ ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں- لڑکیوں کی تعداد 68 فی صد ہے اور اساتذہ کی تعداد 816 ہے- اکثر اسکولوں میں کمپیوٹر بھی فراہم کئے گئے ہیں اور طلباء کو اعلی تعلیم کیلئے وضائف بھی دئے جاتے ہیں- قابل تحسین بات یہ ہے کہ یہاں تعلیم پانے والے کئی ایک طلبا کو بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر بھی ابھرنے کا موقع مل چکا ہے-

مزید تفصیلات میں گئے بغیر میں اس بات کا ذکر کرنا چاہونگی کے پاکستان میں بیٹھ کر ہمیں کم ہی اس بات کو جاننے کا موقعہ ملتا ہے کہ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے جذبات سے واقف ہوں- وطن سے دور رہکر بھی ان کے دل اپنے وطن کے لئے محبت کے جذبے سے معمور ہیں-

یہ بات صرف پاکستانی تارکین وطن تک ہی محدود نہیں- یہاں طرح طرح کی قومیتیں آباد ہیں اور یہ سب کی سب اپنے ملک کی تعمیرو ترقی میں حصہ لینا چاہتی ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر کا تعلق پسماندہ ممالک سے ہے- اپنے ملک کو مصیبت میں دیکھ کر ان کا دل بھی دھڑک اٹھتا ہے- امریکہ اب انکا گھر بن چکا ہے لیکن اپنی جڑوں کے ساتھ ان کا رشتہ اب بھی باقی ہے-

تعلیم کے فروغ کی بات ہورہی ہے تومجھے اپنے ملک کی قیادت کا خیال اتا ہے- 65 سال سے زیادہ گزرگئے لیکن ہماری بے حسی دیکھئے کہ آجتک ہم ایک تعلیمی پالیسی نہ بنا پائے- حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن پالیسی قومی مفاد کے تابع ہو تو وہ کسی رکاوٹ کے بغیرآگے چلتی رہتی ہے-

آجکل الیکشن کا زوروشور ہے- سبھی اس بات پر بظاہر متفق نظر آتے ہیں کہ تعلیم بنیادی مسئلہ ہے اور اسے ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے- ملک میں بیک وقت کئی نظام تعلیم چل رہے ہیں- مقابلے کا دور ہے اور ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس کا بچہ بہترسے بہتر انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم پائے-

امیر اور غریب کی تقسیم کے اس معاشرے میں دولتمند طبقہ تو آگے بڑھ جاتا ہے، متوسط طبقہ پیٹ کاٹ کر تعلیم دلواتا ہے لیکن غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں- بات تو سبھی سیاسی پارٹیاں مساوی مواقع فراہم کرنے کی کررہی ہیں لیکن یہ ہوگا کیسے ابھی تک کسی نے کوئی بلیو پرنٹ پیش نہیں کیا-

ان حالات میں قابل تعریف ہیں وہ تنظیمیں جو بچوں کی تعلیم کے میدان میں سرگرم عمل ہیں- ان میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی تنظیمیں شامل ہیں جو بے غرضی کے ساتھ اپنی دھن میں لگی ہیں- ان میں وہ تنظیمیں بھی ہیں جو ایک کمرے والے اسکول چلا رہی ہیں اور وہ بھی جنہیں خوش قسمتی سے وسیع ذرائع حاصل ہیں- مقصد سب کا ایک ہے، پاکستان کو تعلیم یافتہ بنانا- کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تنظیمیں بھی باہمی تعاون کے اصولوں پر کام کریں-

تعلیم کے میدان میں این جی اوز کی خدمات کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں جو طلباء زیر تعلیم ہیں ان میں سے ایک تہائی حصہ این جی اوز کی طرف سے چلائے جانے والے اسکولوں میں پڑھ رہا ہے- یہ اسکول نہ صرف انہیں علم کی دولت فراہم کررہے ہیں بلکہ پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعہ اس قابل بناتے ہیں کہ وہ تعلیم فارغ سے ہونے کے بعد معاشی طور پر اپنے خاندان کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں-

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2025
کارٹون : 25 دسمبر 2025