• KHI: Clear 25.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.7°C
  • KHI: Clear 25.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.7°C

تاریخ خود کو ہمیشہ نہیں دہراتی

شائع April 12, 2013

History does not always repeat itself 670
پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو۔ —. فوٹو اے ایف پی

چھ اگست 1990ء کو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی منتخب وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کو دو سال سے بھی کم مدت میں برطرف کر دیا گیا تھا۔

میرے ذہن میں آج بھی اس دن کی یادیں اپنے پورے نقوش کے ساتھ محفوظ ہیں، جب اس وقت کی منتخب وزیراعظم بےنظیر بھٹو کی فوجی سپاہیوں کے دستے سے بحث جاری تھی کہ انہیں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے کیا کیا چیزیں لے جانے کی اجازت ہے۔

یہ واقعہ سندھ ہاؤس میں پیش آیا تھا جہاں وزیراعظم مرحومہ اس وقت رہائش پذیر تھیں۔ فوجی محاصرے کی زد میں آئی اپنی رہائشگاہ میں صحافیوں کو داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے گھریلو اشیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ میری ذاتی چیزیں ہیں لیکن یہ اسے بھی قبضے میں لینا چاہتے ہیں۔"

یہ پاکستان میں جمہوریت کی کچھ تلخ یادیں ہیں جو کچھ عرصہ قبل ہی جنرل ضیاء کی تاریخ کے بدترین آمرانہ دور سے آزاد ہوئی تھی۔

بالآخر محترمہ بھٹو کو رہائشگاہ سے جاتے وقت انہیں اپنے استعمال کے برتن لے جانے کی اجازت دے دی گئی، لیکن صرف برتن، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

ایسی تمام قوتیں جنہوں نے اقتدار کی زمام کار بےنظیر کے ہاتھ چھینی تھی، ان قوتوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا تھا کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم 1990ء کے انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے میاں نواز شریف کی قیادت میں دائیں بازو کی تمام جماعتوں کا ایک الائنس بنانے میں مدد کی تھی۔

یہ وہ دور تھا جب میاں محمد نواز شریف سابق آمر جنرل ضیاء کے حواریوں کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس وقت جمہوریت کو تقویت دینا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے جرنیلوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہ کیا اور اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) کی داغ بیل ڈالی۔

اس دوران انہیں کچھ حلقوں نے متنبہ کیا تھا کہ یہ اقدامات ایک دن خود آپ کے لیے بھاری پڑ جائیں گے، لیکن نوازشریف پر ایسا خمار طاری تھا کہ وہ کچھ سننے کے لیے تیار نہ تھے۔

وہ قارئین جو آئی ایس آئی پر تنقید سننے کے عادی ہیں، انہیں میں بتاتا چلوں کہ میں نے آج تک ایسا نہیں کیا جس کی ایک سادہ سی وجہ یہ ہے کہ میں ایک ایسی پیڑھی سے تعلق رکھتا ہوں جسے رات کے کسی بھی پہر دروازے پر دستک کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔

ایک دفعہ جنرل ضیاء اسلام آباد کے انٹر اسکول کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر پرنسپل نے ضیاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ میں گزشتہ کئی سال سے جنرل ضیاء کو اسکول میں بلوانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے ہمیشہ یہ جواب ملتا ہے کہ صدر صاحب بہت مصروف ہیں۔

جنرل ضیاء نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جھوٹ نہیں کہہ رہے تھے، "اس ملک میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو آئی ایس آئی سے جھوٹ بولیں۔"

گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ 1990ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ ان انتخابات میں جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ، لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے آئی جے آئی کو مالی معاونت فراہم کی تھی، جس کا مقصد جان بوجھ کر پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو کمزور کرنا تھا۔

جن لوگوں نے آئی جے آئی کو بنتے ہوئے دیکھا وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی، ہمیں یاد ہے کہ کس طرح کچھ سیاستدان کھلے عام اسٹیبلشمنٹ سے اتحاد کے دعوے کرتے اور یہ کہتے نظر آتے تھے کہ ان کے آب پارہ کے ساتھی پیپلز پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔

نوّے کی دہائی میں واپس جائیں، تو مجھے یاد ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں شرکت کی تھی، جہاں فوج نے کھلے عام سپریم کورٹ کو جنرل اسلم بیگ کے خلاف اس طرح کا کیس نہ سننے کا انتباہ دیا تھا۔

جب ایک صحافی نے آفیسر سے کہا کہ 'کیا میں یہ بات آپ کے نام سے کہہ سکتا ہوں'، تو اس کے جواب میں افسر نے کہا تھا کہ 'ہاں ہاں، ضرور'۔

لیکن 2013ء میں تاریخ خود کو نہیں دہرائے گی، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف جو بے نظیر بھٹو کی طرح اتنے بڑے سیاستدان تو نہیں، لیکن انہیں اپنی ذاتی اشیا لے جاتے وقت فوجی دستوں سے کسی بھی قسم کا بحث مباحثہ نہیں کرنا پڑا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت کی تکمیل کے ساتھ ہی انہوں نے انتہائی پرامن ماحول میں اپنا دفتر خالی کر دیا۔

ایک بار پھر پانچ سالہ جمہوریت کو سلام ہے، کہ جس کے باعث 2013ء میں اسٹیبلشمنٹ اس طرح کے کسی اتحاد کی پشت پناہی نہیں کر رہی یا اگر کر بھی رہی ہے تو کم از کم کھلے عام نہیں۔

آزاد عدلیہ اور میڈیا اپنی تمام تر مداخلت کے باوجود ایک ایسے ماحول کے قیام میں مدد دی ہے جو اس طرح کے آمرانہ اقدامات کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Wise Apr 14, 2013 08:07am
PAKISTAN IS IN GREAT CRISES DUE TO PLUNDERING OF PMLN & PPP & ASSOCIATES, & YOU ARE CONGRATULATING FOR WHAT?

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025