• KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am
  • KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am

سن اٹھاسی کی الیکشن کہانی

شائع April 12, 2013

۔ — فائل فوٹو
۔ — فائل فوٹو

تیرہ اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق  نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

اس سے پہلے جون میں سپریم کورٹ نے بے نظیر بھٹو کی ایک آئینی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا تھا۔

اس فیصلے کے بعد ملک کو جماعتی بنیادوں پر انتخابی نظام کی طرف لوٹ جانا چاہیے تھا، تاہم فوجی آمر نے اس فیصلے کو ہوا میں اُڑا دیا اور پھر چار دن کے بعد ہی وہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے۔

ضیاء کی موت کے بعد ان کے بنائے ہوئے انتخابی و حکومتی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ایسی شقیں شامل کی تھیں کہ 1973ء کے آئین کا حلیہ ہی بگڑ گیا تھا۔

ان نئی تبدیلیوں کے بعد آئین پارلیمانی جمہوریت کے فروغ کے بجائے غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کے ذریعے ایک ایسی پارلیمنٹ کے وجود کا سبب بن رہا تھا جو صدر کے ماتحت ہو۔ وہ صدر جس کو اپنی اصل طاقت فوجی سربراہ ہونے کہ وجہ سے مل رہی تھی۔

جنرل کی موت کے بعد اگلی ایک دہائی کے دوران نظام کو معمول پر لانے کی جدوجہد میں 1988ء کے انتخابات پہلا اہم قدم ثابت ہوئے۔

بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر اُنہیں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا فیصلہ مل گیا اور بالآخر حکومت نے پولنگ ڈے سے دو ماہ قبل سولہ ستمبر کو اس فیصلے پر عملدرآمد کر لیا۔

اپریل 1986ء میں وطن آمد کے بعد سے بے نظیر ملکی سیاسی منظرنامے پر چھائی ہوئی تھیں۔

اس سے پہلے، غیر جماعتی بنیادوں پر وجود میں آنے والی پارلیمنٹ اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت نے پانچ جولائی 1977ء کے بعد سے جنرل ضیاء کے تمام اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کر دیا تھا، جس کی وجہ سے 30 دسمبر 1985ء کو مارشل لاء اٹھا لیا گیا۔

اپنی بحالی کے بعد ترمیم شدہ آئین نے سیاسی سرگرمیوں کے لیے اتنی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ دوسری جانب، جونیجو حکومت بھی اقتدار کے خبط میں مبتلا جنرل کے بھاری بھرکم بوجھ تلے دبے ہوئی تھی۔

جونیجو کے داؤ پیچوں پر بالآخر مئی 1988ء میں ضیاء کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی آئینی شق 58 ٹو بی استعمال کرتے ہوئے منتخب حکومت کو چلتا کر دیا۔

جونیجو کے جاتے ہی فوجی حکومت اور بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی آمنے سامنے آگئے۔

پاکستان فوج کو گزشتہ ایک دہائی سے خطے کی سیاسی صورتحال سے جو قوت حاصل ہو رہی تھی، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ مئی 1988ء میں شکستہ دل روسی فوج کا افغانستان سے انخلاء شروع ہو چکا تھا۔

ایسے وقت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی کی دن بدن بڑھتی مقبولیت کو روکنے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی اس میں سب اہم پی پی پی کے مخالفین کو ایک چھتری تلے جمع کرنا تھا۔

اس طرح وجود میں آنے والا اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) ان عناصر کا اجتماع تھا جو فوجی حکومت سے فائدہ اٹھاتے رہے تھے۔

مسلم لیگ اور جماعت اسلامی (جے آئی) اس اتحاد کی بڑی پارٹیاں تھیں۔ مسلم لیگ میں وسطی پنجاب کے بااثر متوسط طبقے کا غلبہ تھا جبکہ جماعت اسلامی میں نظریاتی کارکنوں کی بھرمار تھی۔

اس کے علاوہ اتحاد میں شامل غلام مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ اور مولانا لکھنوی کی جمعیت اہلحدیث جیسی جماعتوں کی حیثیت اتنی نہیں تھی کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک سے زیادہ نشستیں جیت سکتیں۔

اس اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی کوئی براہ راست انتخابی حیثیت نہیں تھی، بلکہ انہیں تو محض 1977ء کے پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) میں شامل نو جماعتوں جتنی تعداد برابر کرنے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔

پی این اے کو اگرچہ ذوالفقارعلی بھٹو کی پارٹی سے شکست ہوئی تھی، تاہم بعد میں یہ پی این اے کا احتجاج ہی تھا جو مارشل لاءکے نفاذ کی وجہ بنا۔

صرف آئی جے آئی ہی  پی پی پی کو درپیش واحد چیلنج نہیں تھا۔ انتخابی طریقہ کار اور قوانین میں متعارف کرائی  گئی متعدد تبدیلیاں بھی شفاف انتخابات کی راہ میں ایک رکاوٹ تھیں۔

انیس سو ستاسی میں تیار کی جانے والی انتخابی فہرستوں میں ووٹرز کی تعداد 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے مقابلے میں چالیس فیصد بڑھ گئی تھی، یعنی 1985ء میں یہ تعداد 32.5 ملین جبکہ 1987ء میں 47.9 ملین ہوگئی۔

اس سے پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ کی شرح زیادہ رہنے کا امکان تھا، تاہم اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے ایک آرڈنینس کے ذریعے ووٹرز پر شناختی کارڈ پیش کرنا لازمی قرار دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ نے اس حکم کو کالعدم کردیا، مگر سپریم کورٹ نے پولنگ سے چار روز قبل بارہ نومبرکو اسے بحال کردیا۔

پی پی پی ووٹ بینک کی اصل طاقت غریب اور استحصال زدہ طبقہ تھا جن کی اکثریت شناختی کارڈز سے محروم تھی ۔ انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق ملک میں خواتین کی نصف تعداد اور ایک تہائی مرد شناختی کارڈ سے محروم تھے۔

اس طرح محض ایک چھوٹی سی ترمیم کرکے لاکھوں افراد کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا گیا۔

اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ  ایوان صدر نے انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے لیے ایک سیل بھی بنایا تھا۔

تاہم ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود بے نظیر بھٹو کامیاب رہیں اور ان کی جماعت نے 38.5 فیصد ووٹ لیکر 93 نشستیں جیت کر پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت بن گئی۔

بے نظیر کو ملنے والے ساڑھے سات ملین ووٹ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو 1970ء کے انتخابات میں ملنے والے چھ اعشاریہ ایک ملین ووٹر سے ایک چوتھائی زائد تھے۔

زیادہ اہم بات یہ تھی کہ پی پی پی بلوچستان اور سرحد (اب خیبرپختونخوا) سے  نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی، جہاں اس سے قبل اس کی موجودگی ہی نہیں تھی۔

دائیں بازو کے اتحاد نے اپنے ووٹ بینک کو آئی جے آئی کے بینر تلے جمع کیا اور قومی اسمبلی کی 54 نشستیں جیتیں۔

اور سب سے اہم یہ کہ اتحاد پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے وہاں حکومت بنانے میں کامیاب رہا، اس کامیابی نے وفاقی سطح پر پی پی پی کی فتح کی چمک کو ماند کردیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

razak khatti Apr 12, 2013 05:57pm
88 کے انتخابات نے ثابت کیا کہ مرحوم اسحاق خان نہیں چاہتے تھے کہ بے نظیر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں، اور 20 سال بعد پھر وہی ہوا، اس بار بے نظیر شہید ہوچکی تھیں، اور پورا ملک سوگ کے عالم میں تھا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بے نظیر صاحبہ کی جماعت ان کی جائے شہادت سے بھی شکست کھاگئی، اور اس بار جو حکومت بنی اس میں اس جماعت کو بھی بعد میں سشامل کیا گیا،جس کو بے نظہر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کے گاڈ فادر نے قاتل لیگ کہا تھا،

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025