گود لیے گئے اسکولوں کا مسئلہ
جنوری 2005ء میں مَیں نے انہی کالموں میں کہا تھا ’’اندیشہ ہے کہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا 1997ء میں اسکولوں کو گود لینے کا پروگرام بدانتظامی، غلط استعمال، بدعنوانی اور سٹی گورنمنٹ کی بے حسی کا شکار ہوجائے گا‘‘۔
آج شکاری تبدیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ گود لینے کا پروگرام ابھی تک چل رہا ہے تاہم اس کے وجود کو محکمہ تعلیم سندھ کی طرف سے خطرہ ہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن جس نے حوصلہ مند منیجنگ ڈائریکٹر پروفیسر انیتا غلام علی کی قیادت میں اپنا منصوبہ شروع کیا تھا جدوجہد جاری رکھنے پر مُصر ہے۔
یہ بات پچھلے ہفتے ایک سیمینار میں یاد دلائی گئی۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن اب تک تین سو اسکولوں کو گود لینے کی کارروائی مکمل کرواچکی ہے لیکن فی الوقت صرف ایک سو پینتیس اسکول اس اسکیم کے تحت چل رہے ہیں۔ چونکہ گود لینے کا عمل ایک مخصوص مدت کے لیے ہوتا ہے اس لیے تعداد بدلتے رہنا قابل فہم ہے۔
پروگرام کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکیم میں شامل ہونے والے نئے اسکولوں کی تعداد اسکیم سے نکلنے والوں سے زیادہ ہو اور ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مطابق آج 31,398 بچے اور 1,373 اساتذہ (جن میں 244 نجی طور پر رکھے گئے ہیں) اس پروگرام کے تحت آتے ہیں۔
فی الحال 51 گود لینے والے میدان میں فعال ہیں جن میں کچھ تجربہ کار ہیں جیسے سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر جو ان چار اسکولوں سے وفاداری کا مظاہرہ کررہے ہیں جو انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی سے مل کر بارہ سال پہلے گود لیے تھے۔
سیمینار میں گود لینے والے مخلص افراد اور ان کے اسکولوں کی ہیڈمسٹریسزمنتظمین نے شرکت کی۔ پروگرام کی خوبیاں اور خامیاں واضح طور پر سامنے آئیں۔ اسکولوں کو بہتر بنانے کی اس کاوش میں شریک بیشتر لوگ وہ ہیں جو محروم خاندانوں کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نیک نیت لوگ ہیں لیکن ان کے پاس لامحدود وسائل نہیں۔ بہرحال یہ افراد اقتدار اور وسائل میں حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
لہٰذا یہ لوگ حکومت کا متبادل نہیں، جیسا کہ سیمینار کے بعض شرکاء نے نشاندہی کی، کیونکہ آئین کی نو متعارف شدہ شق 25 الف کے مطابق 5 سے 16 سال کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہوگیا کہ افسر شاہی کی رکاوٹیں گود لینے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ رکاوٹیں خود محکمہ تعلیم سندھ کی پیدا کردہ ہیں۔
تغلق ہاؤس کی افسر شاہی کی حرکتیں رکاوٹ بن رہی ہیں اور گود لینے والوں کو اپنے مشن پر کاربند رہنے کے لیے بے حد عزم کا مظاہرہ کرنا پڑرہا ہے۔ گود لینے والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ محکمہ تعلیم میں سیاسی تقرریوں، عملے کی ناقص تربیت، کسی تحریک سے عاری اساتذہ، محاسبے کے فقدان اور اسکولوں کے خستہ حال ڈھانچے کے باوجود کام کیے جارہے ہیں۔
یہ رکاوٹیں ابتدا ہی سے رہی ہیں جس کا بڑا سبب گود لیے گئے اداروں پر دوہرا کنٹرول ہے۔ بعض گود لینے والے عملے کو تعاون کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا انہوں نے اپنے اساتذہ بھرتی کرکے اور انہیں اجرتیں دے کر نااہل اور بدعنوان عملے کو غیر متعلق بنادیا ہے۔ لیکن سب کے پاس اتنے وسائل اور سماجی وسیاسی قوت نہیں کہ وہ اس حکمت عملی پر چل سکیں۔ بعض خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک ایماندار اور فعال ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر سے نمٹنا ہوتا ہے جو انہیں اپنا ساتھی سمجھتا ہے۔
اسکولوں کو گود لینے والے یا گود لینے کے امیدوار اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ خیرو ڈیرو میں علی حسن منگھی میموریل ٹرسٹ قائم کرنے والی نوین منگھی اپنے گاؤں کے سرکاری اسکول کو اپنی نگرانی میں لانے کی بہت کوشش کرتی رہی ہیں۔ اپریل 2011ء سے یہ مہم جاری ہے اور ابھی تک انہیں سیکریٹری تعلیم کے دستخط حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی، جو نئے بندوبست کے تحت لازم کردیا گیا ہے۔
یہ بڑی نازک صورتحال ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ اس معقول اور امیدافزا اسکیم کو ختم ہونے سے کیسے بچایا جائے۔ ذمہ دار محکمہ اتنا لاتعلق ہے کہ جن سینئر وزیر صاحب کے پاس تعلیم کا قلمدان ہے وہ سیمینار تک میں نہیں آئے۔
ان کے محکمے نے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو اس معاملے میں آزادی سے کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں گود لیے گئے اسکولوں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ سرخ فیتہ گود لینے والوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
خدشہ ہے کہ گود لینے والے تنگ آکر دستبردار ہوجائیں گے۔ سیمینار میں یہ ذکر بھی ہوا کہ حکمت عملی بہتر بنانے اور گود لینے والوں کا ایک فورم قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اجتماعی طور پر کام کرسکیں۔ گود لینے والوں کو بعض قانونی حقوق و اختیارات دینے کی بات بھی ہوئی۔ اس طرح گود لینے والوں کو تعلیمی حکام سے سودا کاری کرنے کے لیے زیادہ طاقت مل جائے گی۔
گود لینے کا پروگرام جس طرح تصور کیا گیا تھا وہ بے حد قابل عمل ہوتا۔ کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ نجی شعبہ کسی قسم کی نگرانی یا جانچ پڑتال کے بغیر سرکاری شعبے کی تعلیم کو اپنے ہاتھ میں لے لے، جیسا کہ بالائی طبقے کے بعض نجی اسکولوں میں ہورہا ہے۔ چنانچہ معقول طریقہ یہ تھا کہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن نگراں کا کردار ادا کرے تاکہ مقررہ رہنما خطوط کی خلاف ورزی نہ ہو۔ محکمہ تعلیم سندھ پروگرام کو صرف التوا میں ڈالنے کے لیے اپنائے گا تو اس اسکیم کا خاتمہ ہی ہوجائے گا۔
بہرحال یہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے جو سیمینار میں مشہود رضوی نے دی جو برٹش کونسل میں جانے سے پہلے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں کام کرتے تھے، کہ مٹھی بھر گود لینے والے تعلیم کے شعبے کو بدل نہیں سکتے۔ مسئلے کا حل سندھ کے 44000 سرکاری اسکولوں کی اصلاح ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت بظاہر ایسا کوئی کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
پھر محروم طبقے کے بچوں کا کیا ہوگا؟ موجودہ نجی شعبے کے پاس کوئی حل نہیں۔ جن کاروباری افراد کے پاس وسائل ہیں وہ آزادی سے کام کرنے کا اختیار حاصل کرچکے ہیں اور ان کے اسکول عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ جہاں تک غریبوں کا تعلق ہے، این جی اوز کے تحت چلنے والے یا علاقائی فلاحی ادارے مسئلے کا حل نہیں۔
مشہود رضوی نے تمام بچوں کے لیے معیاری تعلیم کے لیے سماجی فعالیت کی ضرورت کا ذکر کیا۔ یہ عمل سست رفتار ہے اور تب تک اگر کچھ بے لوث گود لینے والے مدد کرنا چاہتے ہیں تو محکمہ تعلیم کی بیدلی کی وجہ سے انہیں منظر سے ہٹا دینا غیر ذمہ دارانہ فعل ہوگا۔
http://www.zubeidamustafa.com/urdu














لائیو ٹی وی