ایران، این پی ٹی سے دستبردار ہوسکتا ہے
تہران: ایران کے اعلٰی قانون سازوں نے خبر دار کیا ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدہ (این پی ٹی) سے دستبردار ہو سکتا ہے اگر مغرب نے اس پر شدید پابندیاں لگائیں یا کیس کو اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل بھیجا گیا۔
الایدین بوروزردی نے کہا ہے کہ اگر ایران کو اس کے جوہری حق کے ہوتے ہوئے کوئی سزا دی گئی تو وہ این پی ٹی کا مزید رکن نہیں رہے گا ۔ اور اسی دوران یہ پیشکش بھی کی کہ اگر مغرب سخت معاشی پابندیاں اُٹھالے تو اس کے بدلے یورینیم کی اعلیٰ درجے کی افزودگی ( انرچمنٹ) کو روکا جاسکتا ہے۔
سرکاری ٹیلی وژن، العالم کے مطابق بوروزردی نے کہا ہے کہ ایران کے لیئے یہ قابل قبول نہیں ہے کہ ایران این پی ٹی کا احترام کرے جبکہ امریکہ اور مغرب این پی ٹی کو نظر اندز کریں یعنی آرٹیکل چھ جوہری اسلحہ میں کمی کے بارے میں ہے اور آرٹیکل چار افزودگی کا حق دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لہذا اس طرح کے حالات کے تحت این پی ٹی کا رکن رہنے کا ایران کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔
بوروزردی ایرانی پارلیمنٹ کی سیکیورٹی اور ایرانی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ ہیں۔
واضح رہے کہ 1968 میں وضع کردہ این پی ٹی ، ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ روکنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اس پر دستخط کرنے والوں کو اپنی نیوکلیئر تنصیبات بین الاقوامی انسپیکٹروں کے لئے کھلی رکھنی ہوتی ہیں۔ اس کا آرٹیکل چھ تمام قوموں کو ایٹم کے پُرامن استعمال کی اجازت دیتا ہے جبکہ آرٹیکل چھ نیوکلیائی ہتھیاروں میں بامعنی انداز میں کمی پر زور دیتا ہے۔
ایران نے 1968 میں معاہدے پر دستخط کئے اور 1970 ء میں اس کی توثیق کی جبکہ اہم نیوکلیئر طاقتوں ہندوستان، پاکستان اور اسرائیل نے دستخط نہیں کیے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان جوہری بم کا تجربہ کر چکے ہیں۔ مغرب کو خدشات ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تہران ان الزامات کی تردید کر چکا ہے ایران کا کہنا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام بجلی پیدا کرنے اور کینسر کے مریضوں کے علاج کیلئے ریڈیو آئسوٹاپس پیدا کرنا ہے۔
بوروزردی نے کہا ہے کہ این پی ٹی کے حوالے سے حتمی فیصلہ ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کرے گی جو ملک کی نیو کلیئر پالیسی چلاتی ہے۔