لال حویلی اور شیر پنجاب
راولپنڈی کے موتی بازار سے گزرتے ہوئے اطراف میں موجود ریت کی بوریوں کی دیوار اور مستعد نجی سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ شیخ رشید احمد کی لال حویلی کسی قلعے کا منظر پیش کرتی ہے۔
راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی نشست پر چھ مرتبہ منتخب ہونے والے شیخ رشید کبھی ناقابل شکست تصور کیے جاتے تھے، لیکن اس بار تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ مسلم لیگ نون باآسانی میدان مار لے گی۔
بے نظیر بھٹو روڈ سے گزرتے ہوئے سڑک کے دونوں اطراف سبز رنگ کے پوسٹروں پر دھاڑتے ہوئے شیر کی تصویر نون لیگ کے مخالفین کو منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔
جبکہ دوسری جانب شیخ رشید یا عوامی مسلم لیگ کے پوسٹرز دیواروں کے کونوں یا اسٹریٹ لائٹس کے اردگرد بمشکل اپنے لیے جگہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے پوسٹرز بھی ہمیشہ کی طرح جابجا اپنی بہار دکھا رہے ہیں، لیکن انتخابات میں کلین سوئپ کا دعویٰ کرنے والی سونامی جماعت پاکستان تحریک انصاف منظرِ عام سے بالکل غائب ہے۔
اس حلقے میں نون لیگ کے پوسٹرز انتہائی کثیر تعداد میں لگے ہیں، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف کی پارٹی یہاں سے ہر صورت میں الیکشن جیتنے پر تُلی ہوئی ہے۔
لیکن جب بات این اے-55 کی آتی ہے اور ایسی صورت میں کہ جب شیخ رشید، ان کی لال حویلی اور اُن کی پارٹی سامنے ہو تو نون لیگ کی کوششیں حق بجانب معلوم ہوتی ہیں۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کے بحیثیت تیسرے اُمیدوار کے حلقہ این اے-55 سے کھڑے ہونے کے باوجود سیاسی ماہرین نون لیگ کی شکست تسلیم کرنے آمادہ نہیں اور انہوں نے پیشن گوئی کر دی ہے کہ مسلم لیگ نواز یہاں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی، لہٰذا اگر نون لیگ یہاں سے شیخ رشید کے مقابلے میں الیکشن ہارتی ہے تو اسے کسی بھی امیدوار کی جیت سے بڑھ کر بدترین شکست تصور کیا جائے گا۔
شیخ رشید راولپنڈی کے حلقہ این اے-55 اور این اے–56 سے 1980ء سے 2002ء تک مسلسل انتخابات جیتتے رہے ہیں۔ لیکن 2008 کے عام انتخابات میں انہیں بدترین شکست سے دوچار کرنے والے مسلم لیگ نون کے سابق رہنما جاوید ہاشمی اب پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں، انہوں نے یہاں 60 ہزار ووٹوں کے بھاری مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ملک عامر فدا پراچہ نے شیخ رشید سے دُگنے ووٹ حاصل کیے تھے جن کی تعداد 15 ہزار سے کچھ زائد بنتی ہے اور اس کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ صاحب کی سیاسی زندگی کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔
شیخ رشید کی گزشتہ شکست کے زخم ابھی بھرے بھی نہ تھے کہ 2010ء کے ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر مسلم لیگ نون کے امیدوار ملک شکیل اعوان کے ہاتھوں اُنہیں 20 ہزار سے زائد ووٹوں کے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ شکست ان کے سیاسی کیریئر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
اور اب انتخابات کے نئے مرحلے میں این اے-55 اور 56 میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ شیخ صاحب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد این اے-56 سے الیکشن لڑیں گے۔
تاہم شہر بھر میں لگے پرانے پوسٹرز تاحال چیخ چیخ کر یہی اعلان کر رہے ہیں کہ شیخ رشید اس سیٹ سے الیکشن لڑیں گے۔
علی احمد کرد کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی انتخابات میں سرپرائز دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کرد مستقل اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ اگر وہ 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرتے تو یقینی طور پر منتخب ہو جاتے۔
جبکہ دوسری جانب یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ مسلم لیگ نواز این اے-55 یا 56 میں عمران خان یا شیخ رشید کے مقابلے میں شہباز شریف کو کھڑا کر سکتی ہے۔
ڈان کی جانب سے کیے گئے ایک تجزیے میں کرد نے بقیہ تمام امیدواروں کی طرح دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس علاقے کی سیاست میں کوئی نیا نام نہیں ہوں، میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ کون جیتے گا یا میرے مدمقابل کون سا امیدوار کھڑا ہو گا لیکن میں صرف جیتنے کے لیے الیکشن لڑوں گا۔
مسلم لیگ نون کی جانب سے ابھی تک اس نشست کے لیے امیدوار کے نام کا باقاعدہ اعلان ہونا باقی ہے، تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ راولپنڈی میں پاکستان کے شیروں کی پارٹی باآسانی کامیاب ہو جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک رکن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ راولپنڈی پر ایک نظر دوڑائیں، یہ ہمارا شہر ہے۔
نواز شریف کا دایاں ہاتھ کہلائے جانے سے "راولپنڈی کا لوٹا" کا خطاب پانے والے شیخ رشید نے کہا کہ "ٹھیک ہے، مسلم لیگ نون آپ کو بتائے گی کہ یہ اس کا حلقہ ہے، لیکن یاد رکھیں کہ میں نے 2002ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑتے ہوئے انہیں دو نشستوں پر شکست دی تھی اور اب ایک بار پھر اُنہیں شکست سے دوچار کروں گا۔
شیخ رشید نے کہا کہ "2008ء میں ان کی شکست کی وجہ نون لیگ کو ملنے والے مذہبی جماعتوں کے ووٹ تھے مذہبی گروپس نے میرے خلاف لوگوں کو بھڑکایا اور لال مسجد یا لال حویلی کے نعرے لگا کر مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ 2008ء کے انتخابات میں ووٹ نون لیگ کو نہیں بلکہ لال مسجد کو ملا تھا۔"
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی زیر سایہ 2002ء میں کرائے گئے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کا حصہ تھے۔
نون لیگ کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ سب سے اہم چیز ترقیاتی کام ہیں اور اگر آپ راولپنڈی پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہاں سب سے زیادہ کام مسلم لیگ نواز نے کروایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں یقین ہے کہ اگلے الیکشن میں اہم ہی فتحیاب ہوں گے۔ جہاں تک بات ہے کہ نواز لیگ صحیح ہے یا نہیں، تو اس بات کا فیصلہ الیکشن والے دن ہو جائے گا۔