پاکستان میں آلودہ پانی کا مسئلہ
پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ اسی لئے پاکستان میں آلودہ پانی سے ہونے والے امراض میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں شہروں کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے اور توقع ہے کہ دوہزار بیس تک پاکستان شہری رقبے کا پھیلاؤ 42.8 فیصد تک اور دوہزارپچاس تک 63.7 فیصد تک ہوجائے گا۔ اس طرح صاف اور قابلِ نوش پانی تک رسائی مزید مشکل ہوجائے گی۔
آبادی میں اضافے کےساتھ ساتھ شہروں کے پھیلنے سے گھریلو، صنعتی اور زراعت کیلئے پانی کی فراہمی شدید متاثر ہوگی اور اس طرح صاف پانی کی فراہمی میں اگلے عشروں میں نمایاں کمی واقع ہوگی ۔
آلودہ اور غیر صاف پانی اموات اور کئی امراض کی وجہ ہے جن میں ڈائریا، ٹائیفائڈ اور ہیپا ٹائٹس شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان شہروں کی 62 آبادی اور دیہاتوں کی 84 فیصد آبادی اپنے پانی کو صاف نہیں کرتی اور نہ ہی اسے ٹریٹمنٹ سے گزارتی ہے جس سے ڈائریا کے سالانہ دس کروڑ کیسز ہوتے ہیں اور پاکیستانی ہسپتالوں میں چالیس فیصد اموات کی وجہ بھی آلودہ پانی ہی ہے۔
اگر آلودہ پانی کا جائزہ مالیاتی لحاظ سے کیا جائے تو انکشاف ہوگا کہ ملک کو گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ ایک سو بارہ ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ صحت کی خرابی اور آمدنی میں کمی سے روزانہ تیس کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز ( پی سی آرڈبلیو آر) کی ترجمان نے خبررساں ایجنسی اے پی پی کو بتایا کہ ان کا ادارہ پاکستان میں پانی کے ان گنت پہلوؤں پر تحقیق کررہا ہے۔
اسی طرح انہوں نے پی سی آر ڈبلیو آر کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے متعلق بتایا کہ پاکستان کے صرف پندرہ فیصد شہری اور اٹھارہ فیصد دیہی علاقوں میں پینے کےصاف پانی کی سہولیات موجود ہیں۔