شمالی وزیرستان آپریشن
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی ایجنسی دیر بالا میں کل سرحد پار سے آنے والے حملہ آوروں نے کم از کم چھ سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر ایک سیکورٹی ٹیم سرحد کے قریب علاقے میں موجود تھی۔
اسی طرح پچھلے ہفتے، شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے سات سیکورٹی اہلکاروں کے سر تن سے جدا کر دیئے۔
یہ واقعات ایسے وقت میں پیش آئے ہیں جب عسکریت پسندوں نے تیراہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پر شمالی وزیرستان میں ملحقہ جنوبی وزیرستان جیسا ملٹری آپریشن کرنے کے حوالے سے امریکی دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جہاں امریکی قبائلی علاقوں میں موجود حقانی نیٹ ورک کے خاتمے میں دلچسپی رکھتے ہیںتو وہیںپاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے مفاد میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرے۔
پشاور میں گیارھویں کور کے کورکمانڈر نے شمالی وزیرستان میں آپریشن سے متعلق اطلاعات کی تردید کی ہے لیکن امدادی اداروں کو تیاریوں کی رپورٹ منظرِ عام پر آچکی ہیں جن میں ان اداروں سے کہا گیا ہے کہ آپریشن سے ممکنہ طور پر دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوسکتے ہیں۔
چونکہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات ابھی تک ساکت ہیں لیکن دونوں ممالک کے حکام کے درمیان زبانی حملوں کا تبادلہ جاری ہے۔
کیا پاکستان کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کا امریکی مشورہ رد کردینا چاہئے؟
آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے متاثرین اورایسے آپریشن کے لئے ضروری وسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا یہ بہتر ہوگا کہ آپریشن کو موخر کردیا جائےَ؟
قبائلی علاقوں میں طالبان کےدوبارہ منظم ہونے اورسیکیوریٹی اہلکار اور سویلینز پر حملوںجیسے واقعات سے پاکستان کیسے نمٹ سکتا ہے؟
ہم اس اہم مسئلے پر اپنے قارئین کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپکے تبصرے اور بے لاگ رائے کےہم منتظر رہیں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں