پاکستان کے بغیر بھی امن ممکن ہے، افغانستان
کابل: افغان حکومت نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستانی لاپرواہی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفاہمت کے لیے وہ پاکستان کی مدد کے بغیر بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے افغانستان نے امن کے قیام کے لیے اپنے پڑوسی ملک کے بغیر کام کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
خطے کی بڑی طاقت سمجھے جانے والے ملک پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لیے عسکریت پسندوں کے ساتھ کافی عرصے سے جاری تعلقات کی وجہ سے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
افغانستان کے ڈپٹی وزیر خارجہ جاوید لودن نے رائٹرز کو بتایا کہ حکومت حال ہی میں امریکہ کی جانب سے بگرام جیل میں منتقل کیے جانے والے طالبان قیدیوں سے درخواست کریں گے کہ وہ عسکریت پسندوں کو امن کے لیے قائل کریں۔ تاہم انہوں اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی۔
افغان حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان طالبان اور دیگر عسکری گروپوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے مفاہمتی عمل کا حصہ بننے پر قائل کرے۔
تاہم لودن جن کے بارے میں عام خیال ہے کہ وہ افغانستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہیں، نے رائٹرز کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ افغانستان نے پاکستان کی اس حوالے سے کوششوں میں تبدیلی محسوس کی ہے جس میں 2014ء میں ہونے والے انخلاء کے قریب آنے کے ساتھ تیزی آرہی ہے۔
انہوں نے کہا " ہمیں یہاں کابل میں پاکستان کی انتہائی لاپرواہی پر جھٹکا لگا ہے، ہم اس حوالے سے بے حد مایوس ہیں"
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند مہینوں کی پیش رفت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب ہم کسی بات پر متفق ہوتے ہیں، پاکستان اپنا موقف تبدیل کردیتا ہے۔
واضح رہے یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب افغانستان کے مطابق، پاک افغان سرحد پر پاکستانی فورسز نے شیلنگ کی ہے جس کے بعد پاکستان میں منعقد ہونے والا فوجی دورہ منسوخ کردیا گیا ہے۔