II-سٹیم انجن کی کہانی
یہ اس مضمون کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ یہاں دیکھیے
چلیے! آپ کو ایک ایسے جنگل کی سیر کرواتے ہیں جس کا قیام ہی ان سٹیم انجنوں کے لیے عمل میں آیا تھا۔
یہ دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل چھانگا مانگا ہے جس کے قیام کا منصوبہ 1865ء میں لاہور، امرتسر اور کراچی کے درمیان چلنے والے سٹیم انجنوں کے لیے سستی لکڑی کی فراہمی کے لیے عمل میں آیا اور یہاں پر کٹائی کا آغاز 1881-82ء میں ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ہی جنگل سے سٹیم انجنوں کے لیے لکڑی کی مانگ میں کمی آگئی۔
اس کی ایک بڑی وجہ وہ حادثہ تھا جس کے باعث ریلوے کے ابتدائی انجن، جنہیں لکڑی جلا کر چلایا جاتا تھا، کوئلے پر چلنے لگے کیوں کہ انجن میں اچانک بھڑک اٹھنے والی لکڑی کی آگ نے ایک بگھی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھااور ریلوے کو 3ہزار روپے ہرجانہ کے طور پر ادا کرنا پڑے تھے جس کے باعث امریکی طرز کے انجن عام ہوئے جن میں دھوئیں کے اخراج کے لیے چمنیاں بنائی گئی تھیں۔
بہرحال چھانگا مانگا ہندوستان میں لکڑی کی پیداوار کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا جس کی نقل و حمل کے لیے ریلوے کے نظام کی تنصیب عمل میں آئی۔ چھانگا مانگا میں یہ ٹرام لکڑی کی ترسیل کے لیے یا پھر مختلف تہواروں کے مواقع پر چلائی جاتی ہے۔
چھانگا مانگا ریلوے کے تصرف میں چار سٹیم انجن تھے جن میں سے ایک 1927ء میں یارک شائر اور دو(2) سکاٹ لینڈ کی ایک کمپنی نے بنائے تھے جب کہ چوتھا انجن 1936ء میں چھانگا مانگا ریلوے کا حصہ بنا۔ ان میں سے ایک انجن کی باقیات اب یادگار کے طور پر باغ میں آراستہ کی گئی ہیں۔
سیاحوں کو جنگل میں لے جانے کے لیے گھروں میں بنائی گئی بوگیاں استعمال ہوتی ہیں۔ ان بوگیوں میں آرام کرسیاں نصب کی گئی ہیں اور ان میں سے کم از کم ایک بوگی ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ یہ سیاحتی ٹرینیں چھانگا مانگا کے مرکزی میدان سے مہتابی جھیل تک جاتی ہیں اور 25کلومیٹر پر محیط یہ سفر تقریباً نصف گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔
اور اب ہم خیبر سٹیم سفاری کا رُخ کرتے ہیں۔ ایک دور میں اسے وقت اور تاریخ کے سفر سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ انگریز حکومت کو خیبرپختونخوا کے ان بنجر و بیاباں پہاڑوں پر پٹریاں بچھانے میں تقریباً چار دہائیوں کا عرصہ لگا اور اس کا ایک اہم مقصد سرحدی علاقوں تک رسائی تھی۔
پشاور سے لنڈی کوتل تک چلنے والی اس سفاری ٹرین سے دو سٹیم انجن جڑے ہیں جو گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں بنائے گئے تھے۔ یہ ٹرین 24سرنگوں اور 92پلوں پر سے گزر کر لنڈی کوتل تک پہنچتی ہے۔
1982ء میں پاکستان ریلوے نے مالی مشکلات کے با عث اس سفاری ٹرین کو بند کر دیا۔ 90ء کی دہائی میں ایک نجی کمپنی نے سفاری ٹرین سروس کو دوبارہ شروع کیا لیکن وسائل کی کمی کے سبب یہ ایک بار پھر بند ہوگئی۔
تاریخ کا یہ اہم ورثہ اب ماضی کی گرد میں کھونے لگا ہے۔6 گھنٹوں پر محیط یہ سفر ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے اورآپ انجینئرنگ کے اس شاہکارپرداد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔ سفر کے اختتام پر وہ معروف گزرگاہ آپ کی منتظر ہوتی ہے جو اس خطے کو افغانستان اور وسطی ایشیاء سے منسلک کرتی ہے۔
میٹر گاج (Meter Gauge) ریلوے سروس سندھ میں انگریز راج کی ایک اہم یادگار ہے۔ میٹر گاج سے مراد ریلوے پٹریوں کے درمیان مخصوص فاصلہ ہے۔ ایک دور میں یہ ٹریک 517کلومیٹرز پر محیط تھا اور اب یہ فاصلہ سکڑ کر325 کلومیٹرز رہ گیا ہے، چند ریلوے انجن اور کچھ بوگیاں باقی بچی ہیں لیکن ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بہت جلد یہ قومی ورثہ بھی مکمل طور پر فراموش کر دیا جائے گا۔
اس وقت یہ میٹر گاج سروس بند کی جاچکی ہے اور اگر کوئی سیاح ٹرین اور اس کے پٹرول کا خرچہ برداشت کرنے پر آمادہ ہو تو اس صورت میں یہ ریلوے انجن اور اس سے جڑی بوگیاں حرکت میں آتی ہیں۔
19ویں صدی کے اوائل میں کراچی بندرگاہ کی تعمیر مکمل ہوئی جس کے باعث یورپ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں مزید آسانی پیدا ہوگئی۔ اس وقت کراچی اور ممبئی کے درمیان ریل کا براہِ راست کوئی رابطہ نہیں تھا، چنانچے کراچی بندرگاہ پر اترنے والی مصنوعات کو پہلے لاہور لایا جاتا اور پھر برصغیر کے دیگر حصوں میں ان کی ترسیل عمل میں آتی۔
اس کی وجہ سے کراچی بندرگاہ کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ ممبئی پہنچنے والی مصنوعات کی ملک کے دیگر حصوں میں براہِ راست ترسیل عمل میں آجاتی تھی۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر19ویں صدی کے اوآخر میں کراچی چیمبر آف کامرس کے نمائندوں اور مقامی حکام نے حیدرآباد سے مشرق کی جانب ریل پٹریوں کی تنصیب کے لیے انگریز حکام سے ملاقات کی اور تب ان میٹر گاج پٹریوں کی تنصیب عمل میں آئی.
1965ء کی پاک ہندوستان جنگ تک اطراف کے شہری سٹیم انجنوں پر دونوں ممالک کا سفر کر سکتے تھے لیکن جنگ کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے اور یہ ٹریک بند کر دیا گیا۔ اور جب چار دہائیوں بعد یہ ٹریک دوبارہ کھلا تو اب یہ میٹر گاج نہیں تھا، چناں چہ اس پر سٹیم انجن نہیں چل سکتے تھے۔ اس وقت ان ریلوے پٹریوں پر چلنے والا ایک سٹیم انجن سکھر پاکستان ریلوے میوزیم کے باہر نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
ہم نے اگرچہ ان سٹیم انجنوں سے ناطہ توڑ لیا ہے لیکن ایک موقع پر جب پاکستان سفارتی سطح پر مشکلات کا سامنا کر رہا تھا، یہ سٹیم انجن ہی تھا جس نے پاکستان کی مشکلات میں کسی حد تک کمی کی۔
اس حوالے سے سابق سفارت کار قطب الدین عزیز نے اپنی کتاب ’سفارتی معرکے‘ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے 1978ء سے 1986ء تک برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں بطور انفارمیشن اتاشی خدمات انجام دیں۔
یہ 1981ء کا سَن تھا جب مانچسٹر میوزیم آف سائنس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آر ایل ہل پاکستانی سفارت خانے میں آئے اور انہوں نے قطب الدین عزیز سے کہا کہ "سٹیم انجن تیزی سے ماضی کا حصہ بنتے جار ہے ہیں۔ برطانیہ کے لوگ انہیں محفوظ بنانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایک سٹیم انجن جو ولکن (Vulcon) فیکٹری نے 1911ء میں تیار کیا تھا، وہ اس وقت پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے اور جلد ہی اسے کباڑ کے طور پر فروخت کر دیا جائے گا۔ کیا پاکستانی حکومت یہ سٹیم انجن میوزم کو تحفتاً دے سکتی ہے؟"
قطب الدین عزیز نے اس کا ذکر وفاقی سیکرٹری مواصلات لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمان سے کیا جو اس وقت لندن کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ کچھ روز بعد صدر جنرل ضیاء الحق نے اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس نے اس سٹیم انجن کو مانچسٹر میوزیم کو دینے کا فیصلہ کیا۔
مصنف کے بقول اس سٹیم انجن کو مغلپورہ ورکشاپ لے جایا گیا جہاں اس کی مرمت کی گئی۔ یہ اس وقت بھی چالو حالت میں تھا۔ یہ انجن مانچسٹر پہنچا تو وہاں اسے وصول کرنے کے لیے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ملکۂ برطانیہ اور شہزادہ فلپ نے شرکت کی۔ یہ سٹیم انجن اب بھی مانچسٹر میوزیم میں نمائش کے لیے موجود ہے۔
کراچی میں چلنے والی ٹرام سروس1975ء میں بند کر دی گئی تھی کیوں کہ صدر کے علاقے میں ان ٹراموں کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوگیا تھا۔ کراچی میں ٹرام سروس کا آغاز1885ء میں ہوا۔ بعدازاں ٹریک کی جناح پل سے کیماڑی تک توسیع کی گئی۔
ٹرام سروس کی ضرورت اس وجہ سے بھی تھی کہ اس وقت کراچی بندرگاہ اس قدر گہری نہیں تھی اور بحری جہاز کیماڑی میں لنگرانداز ہوتے تھے جہاں سے سامان چھوٹی کشتیوں میں لاد کر جناح پل لے جایا جاتا تھا، چناں چہ جب ٹرام سروس شروع ہوئی تو اس سے سامان کی ترسیل آسان ہوگئی۔
1886ء میں سٹیم انجنوں کی جگہ گھوڑوں نے لے لی کیوں کہ ان انجنوں کے شور سے شہری تنگ ہو رہے تھے۔ دراصل سٹیم ٹرام ہر پندرہ منٹ بعد مصروف علاقوں کا رُخ کرتی جس کے باعث شہریوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تا۔ اور پھر جلد ہی پٹرول سے چلنے والی ٹرامیں ان پٹریوں پر رواں دواں نظر آنے لگیں۔
46سیٹوں پر مشتمل یہ ٹرام ایک گیلن پٹرول میں 8میل کا سفر طے کرتی تھی اور اس وقت پٹرول کی قیمت چار آنے فی گیلن تھی۔ یہ ٹرام سروس ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی لمیٹڈ کی ملکیت تھی، اور پاکستان بننے کے بعد یہ محمدی ٹرام ویز کمپنی کی ملکیت میں چلی گئی جو اسے درست طور پر منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی جس کے باعث رفتہ رفتہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب اسے بند کرنا ناگزیر ہوگیا۔
اور اس ٹرام کو کیسے فراموش کر دیا جائے جو فیصل آباد کے نواحی گاؤں گنگاپور (چک نمبر591جی بی) سے بُچیانہ تک جاتی ہے اور یہ ریلوے سے وابستہ ان چند اثاثوں میں سے ایک ہے جسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کی گئی اور یہ کامیاب بھی رہی۔ اگرچہ یہ ٹرام سٹیم انجن سے نہیں چلتی لیکن اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔
گنگاپور گاؤں دراصل سرگنگارام سے منسوب ہے جنہیں جدید لاہور کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ وہ گنگاپور کو ایک مثالی گاؤں بنانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے زراعت کے لیے جدید مشینری کا استعمال کیا، اس میں وہ الیکٹرک موٹر بھی شامل تھی جسے 1898ء ( 1895ء اور1903ء کی تاریخیں بھی بیان کی جاتی ہیں) میں گوگیرہ برانچ کنال پر نصب کیا گیا تھا۔
یہ موٹر ریلوے کے ذریعے لاہور سے بچیانہ لائی گئی اور یہاں سے ہی اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ گنگاپور سے قریب ترین ریلوے سٹیشن بچیانہ ہے جو تقریباً 3کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس وقت ٹرانسپورٹ کا کوئی ایسا متبادل ذریعہ نہیں تھا جس کے ذریعے یہ بھاری مشینری گنگاپور تک لائی جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ سرگنگارام نے دونوں دیہاتوں کے درمیان ریلوے کی پٹریاں بچھانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے گھوڑے سے چلنے والی ٹرام استعمال کی گئی۔
مشین کی تنصیب کے بعد گھوڑے سے چلنے والی یہ ٹرام لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ 1998ء (کچھ ذرائع کے مطابق1993ء ) میں یہ ٹرام سروس بند ہوگئی اور تقریباً 12برس بعد 2010ء میں ضلعی حکومت کی کوششوں سے اس کی بحالی عمل میں آئی۔
ریلوے صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ یہ ایک قومی ورثہ ہے اور یہ اُن چند اداروں میں سے ایک ہے جو وفاق کی علامت ہیں۔ ٹرین کا سفر پنجاب کی لوک روایت کا لازمی جزو ہے، اور شاید تمام لوک روایتوں میں اسے یکساں طور پر نمایاں مقام حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب گنگاپور کے باسیوں کو یہ پتہ چلا کہ اُن کی ایک صدی پرانی ٹرام دوبارہ سے اپنے سفر کا آغاز کر رہی ہے تو اُن کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ اس سے اُن کی وہ یادیں وابستہ ہیں، جنہیں ذہن کے نہاں خانوں سے کھڑچنا آسان نہیں ہے۔
علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔