اقلیتوں کے ووٹ ان کے حقوق کا تحفظ کرسکیں گے؟
اسلام آباد: پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے عام آدمی کو خوف اور عدم تحفظ سے دوچار کر رکھا ہے۔
مسلمان اقلیتی مسالک سے تعلق رکھنے والوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے تو جو غیر مسلم اقلیتیں ہیں ان کے حوالے سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں عدم تحفظ نے کس قدر خوف پیدا کردیا ہوگا۔
ایک بین الاقوامی این جی او “کرسچن ورلڈ سروس”جو پاکستان اور افغانستان میں انسانی ترقیاتی سرگرمیوں پر کام کر رہی ہے، نے “پاکستانی انتخابات میں مذہبی اقلیتوں کا کردار”کے زیر عنوان ایک تحقیقی رپورٹ شایع کی ہے۔
اس رپورٹ کی ابتداء میں جس تکلیف دہ احساس کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اقلیتوں کو جو پاکستان کے باعزت شہری ہیں، ان کو اقلیت کہہ کر اُن کی بُری طرح تحقیر کی جاتی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے الفاظ تھے :“اس سروے کے موضوع کے حوالے سے ہم نے جن لوگوں سے رابطہ کیا اُن میں سے اکثر نے خود کو ‘اقلیت’یا ‘غیر مسلم’ کہلوانا پسند نہیں کیا۔”
اس رپورٹ کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اس طرز کی معاونت فراہم کی جائے جس کے ذریعے وہ ملکی انتخابات کے ذریعے اپنے حقوق کے حصول کی جانب توجہ دے سکیں۔
آج روزنامہ ڈان میں شایع ہونے والی یہ خبر اس ضمن میں نہایت اہم پہلو کی جانب متوجہ کررہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے چھیانوے حلقوں میں مذہبی اقلیتیں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اسٹاف رپورٹر کی جانب سے شایع کی گئی اس رپورٹ میں کے مطابق تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اگر یہ اقلیتیں مشترکہ طور پر کسی پارٹی یا امیدوار کے حق میں ووٹ دیتی ہیں تو ان میں سے متعدد حلقوں کے انتخابی منظر نامے میں بڑی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔
ڈان کے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں اس وقت ستائیس لاکھ ستر ہزار غیر مسلم ووٹرز ہیں، جن میں سندھ کے تیرہ اور پنجاب کے دو اضلاع میں یہ ووٹر نہایت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
عمر کوٹ اور تھرپارکر میں بالترتیب اننچاس اور چھیالیس فیصد غیر مسلم ووٹرز ہیں۔
عمر کوٹ میں تین لاکھ نواسی ہزار نو سو چوبیس میں سے ایک لاکھ نواسی ہزار پانچ سو ایک ووٹ اقلیتوں کے ہیں۔
جبکہ تھرپارکر کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں، جہاں چار لاکھ تہتر ہزار ایک سو نواسی رجسٹرڈ ووٹرز میں سے دو لاکھ انیس ہزار تین سو بیالیس غیر مسلم ووٹرز ہیں۔
میر پور خاص میں کل ووٹرز کی تعداد پانچ لاکھ نوّے ہزار پینتس ہے جن میں ایک لاکھ بانوے ہزار تین سو ستاون غیر مسلم ہیں جو کل تعداد کا تینتیس فیصد ہے۔
ٹنڈو الہٰیار میں چھبیس فیصد اقلیتوں کے ووٹ ہیں جہاں دو لاکھ اٹھاسی ہزار چار سو ساٹھ میں سے چوہتر ہزار نو سو چوّن غیر مسلم ووٹرز ہیں۔
بدین اور سانگھڑ میں غیر مسلم ووٹرز کی شرح انیس فیصد ہے، بدین میں کل چھ لاکھ بیالیس ہزار دو سو تینتالیس میں ایک لاکھ تیئس ہزار آٹھ سو پینتالیس جبکہ سانگھڑ میں سات لاکھ ستانوے ہزار نو سو چھہتر میں سے ایک لاکھ پچاس ہزار دو سو چونتیس اقلیتوں کے ووٹ ہیں۔
ٹنڈو محمد خان میں سترہ فیصد کے حساب سے دو لاکھ اکتیس ہزار پانچ سو بائیس میں سے انتالیس ہزار آٹھ سو سینتالیس ووٹرز جبکہ مٹیاری میں تیرہ فیصد کی شرح سے تین لاکھ دو ہزار دو سو پینسٹھ میں سے اکیاسی ہزار پانچ سو نواسی ووٹرز غیر مسلم ہیں۔
اس حوالے سے کراچی جنوبی بھی کافی اہمیت کا حامل ہو گا جہاں دس لاکھ ستر ہزار تین سو اکیس میں اکیاسی ہزار پانچ سو نواسی ووٹرز کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے جو کل تعداد کا آٹھ فیصد بنتی ہے۔
گھوٹکی اور حیدرآباد میں بالترتیب اکتالیس ہزار اکتیس اور باسٹھ ہزار دو سو تینتالیس کے حساب سے سات فیصد ووٹر غیر مسلم ہیں، جہاں کل ووٹرز کی تعداد بالترتیب پانچ لاکھ اکہتر ہزار چھ سو چھتیس اور نو لاکھ اٹھائیس ہزار دو سو چھتیس ہے۔
پنجاب کے ضلع چنیوٹ اور لاہور میں بھی اقلیتوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے، جہاں چھ فیصد کے حساب سے بالترتیب پینتس ہزار تین سو پینتس اور دو لاکھ سینتالیس ہزار آٹھ سو ستائیس ہے۔
ان دونوں ضلعوں میں کل ووٹرز کی تعداد بالترتیب چھ لاکھ چار ہزار نو سو اکیانوے اور چوالیس لاکھ چوبیس ہزار تین سو چودہ ہے۔
صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو اور کشمور میں بالترتیب اٹھارہ ہزار نو سو بارہ اور سترہ ہزار چار سو پچانوے غیر مسلم ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جو کل تعداد کا پانچ فیصد بنتے ہیں، جبکہ ان اضلاع میں ووٹوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ تہتر ہزار ستانوے اور تین لاکھ پچپن ہزار نو سو چار ہے۔
ستائیس لاکھ غیر مسلم ووٹرز میں سے چودہ لاکھ ہندو، بارہ لاکھ تیس ہزار عیسائی، ایک لاکھ پندرہ ہزار نو سو چھیاسٹھ احمدی، پانچ ہزار نو سو چونتیس سکھ، تین ہزار چھ سو پچاس پارسی، ایک ہزار چار سو باون بدھسٹ اور آٹھ سو نو یہودی ہیں۔
یہودی اور پارسی اقلیتوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، ایک ہزار نو سو پندرہ پارسی خواتین کے مقابلے میں پارسی مردوں کی تعداد ایک ہزار سات سو پینتس ہے، یہودی مذہب کو ماننے والوں میں تین سو بیاسی مردوں کے مقابلے میں چار سو ستائیس خواتین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔
نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری کے افراد نادرا کی ایس ایم ایس سروس کے ذریعے ووٹر لسٹ میں اپنا نام دیکھ لیں۔ نادرا کی ایس ایم ایس سروس میں اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر، 8300 پر ایس ایم ایس کر کے یہ سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔
کرسچین ورلڈ سروس کی سروے رپورٹ کے مطابق غیر مسلم اقلیتی گروہ کے افراد اپنے لیے “غیر مسلم” کا خطاب پسند نہیں کرتے ، ان کی اکثریت کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کی ایک سیکولر حیثیت کو بحال کیا جائے جس میں تمام انسانوں کو پاکستان کے شہری کی حیثیت سے مساویانہ حقوق حاصل ہوں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی یہ حیثیت سات مارچ 1949ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے “قرارداد مقاصد” کے ذریعے ختم کردی تھی۔
بدقسمتی سے یہ قرارداد قائداعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947ء کے دستور ساز اسمبلی سے پہلے اور اُس یادگار خطاب کے محض ایک سال کے بعد پیش کی گئی تھی، جس خطاب میں قائداعظم نے ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا تھا، جسے اپنے شہریوں کی ذات، قبیلے اور مذہب سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق قراردار مقاصد دراصل پاکستانی تاریخ کی ایسی اولین قانونی دستاویز تھی جس نے مذہب کو حکومت اور سیاست کے دائرے میں داخل کردیا۔
اس قرارداد کی حمایت میں دستور ساز اسمبلی کے اکیس مسلمان ارکان نے ووٹ دیا تھا، جبکہ دس اقلیتی ارکان نے اس کے قراداد کی سختی سے مخالفت کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یہ ملک ایک مذہبی ریاست بن جائے گا، جہاں انسانوں کو محض انسانیت کی بنیاد پر اہمیت نہیں دی جائے گی۔
اور آج جبکہ اس قرارداد کو منظور ہوئے چونسٹھ برس بیت چکے ہیں، پاکستان میں اقلیتوں کے لیے زندگی شدید اذیت ناک ہوچکی ہے، ان کی بستیوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور انہیں مختلف قوانین کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے ۔
سب سے خوفناک پہلو اس کا یہ ہے کہ ریاستی ادارے یا ان کے بااختیار اہلکار اس طرز کے ظلم و ستم میں مبینہ طور پر شامل رہے ہیں۔
ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے، فروری کی ابتداء میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ الزام لگایا تھا کہ سیکیورٹی فورسز مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں انتہاء پسند گروہوں کی مددکررہی ہیں، جبکہ حکومت انہیں روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بعض سنی عسکریت پسند گروپس کے روابط پاکستانی فوج اور اس کی انٹیلی جنس اور نیم فوجی اداروں کے ساتھ سامنے آئے تھے۔
مثال کے طور پر کالعدم لشکرجھنگوی پاکستان بھر میں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے حملوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ عسکریت پسند تنظیمیں اس قدر دلیر ہوچکی ہیں کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کالعدم قراردی گئی شدت پسند اور عسکریت پسند تنظیم سپاہ صحابہ جو آج کل اہل سنت والجماعت کے نام سے سرگرم عمل ہے، کے رہنماؤں نے پہلی بار قومی انتخابات میں بطور جماعت حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کالعدم سپاہ صحابہ اہل سنت والجماعت کے نام سے ایک چھ رکنی انتخابی اتحاد کا حصہ ہے۔
یہاں یہ یاد رہے کہ کالعدم سپاہِ صحابہ ہی وہ جماعت ہے جس کے حوالے سے پنجاب کی حکمران جماعت مسلم لیگ نون پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اس کی حمایت سے محرومی خوف سے اس جماعت سے منسلک افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
یہ بھی یادرہے کہ پنجاب میں لاہور اور گوجرہ کے واقعات سمیت اقلیتوں کے خلاف سات پرتشدد سنگین واقعات پیش آچکے ہیں، جبکہ سندھ میں ہندو اقلیت کا الزام ہے کہ ان کی بیٹیوں کو اغوا کرکے انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا جارہا ہے۔
ایسے خوفناک ماحول میں جہاں بہت سے مسلمان اقلیتی مسالک کے لوگ دہشت گردی کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں یا اکثریتی مسالک کے ایسے مذہبی علماء جو معتدل رویہ کو فروغ دینا چاہتے ہیں، ان کی آواز کو بھی خاموش کردیا جاتا ہے، وہاں غیر مسلم اقلیتیں جن کے افراد کی اکثریت غریب، پسماندہ اور ان پڑھ ہے، کس طرح آئندہ انتخابات میں ووٹ کے ذریعے اپنے حقوق کے تحفظ کاخواب بھی دیکھ سکتے ہیں؟
دنیا بھر کے مذاہب کے مابین مکالمے کی روایت کو فروغ دینے کے لیے قائم کی ایک عالمی تنظیم کامن ورلڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں منارٹی رائٹس کمیشن پاکستان کے چیئرمین ایم پرکاش کےخیالات پیش کیے تھے، پرکاش کا کہنا تھا کہ“سیاسی جماعتوں کو عام نشستوں پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انتخابی ٹکٹ دینے چاہئیں۔”
وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کو سیاسی عمل میں مکمل شمولیت کا احساس دلانے کے لیے اپنے اقلیتی ونگ ختم کریں۔
یہ اقلیتی ونگ ان کمیونٹیوں میں علیحدہ ہونے کا احساس پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
پرکاش یہ سوال کرتے ہیں کہ “ہم پاکستان کی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے مساوی رکن کیوں نہیں ہو سکتے؟”
لیکن مسلمان اور غیر مسلم ووٹروں کی مساوی اور مشترکہ ووٹنگ بھی تب ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے جبکہ امتیازی قوانین اور دستوری شقیں ختم کی جائیں۔
ورنہ ان کے ووٹ کی تعداد کسی قدر کیوں نہ بڑھ جائے، اقلیتوں کے لیے جداگانہ طرز انتخاب انہیں ہمیشہ یہ احساس دلاتا رہے گا کہ وہ اس ملک میں غلط طور پر آباد ہیں یا پھر ایک اچھوت کا درجہ رکھتے ہیں۔