نیم زندہ لوگ
میرا خاندان 1970 کے شروع ہی میں لاہور آگیا تھا- ہم لوگوں نے ایک مکان کا نچلا حصہ کرائے پر لیا تھا- یہ علاقہ ابتک کرشن نگر ہی کہلاتا تھا اگرچہ کہ 1965 کی جنگ کے بعد اسکا نام اسلام پورا رکھ دیا گیا تھا، یہ ایک پرانے طرز کا مکان تھا جس میں ایک آنگن بھی تھا- سامنے دو کمرے تھے جن کے دروازے گلی میں کھلتے تھے- ما لک مکان اوپری حصے میں رہتے تھے لیکن سامنے والےدو کمروں میں سے ایک کمرہ انہوں نے اپنے پاس ہی رکھا تھا جسے وہ بیٹھک کےطورپر ہفتہ وارمذہبی اجتماع کے لئے استعمال کرتے تھے-
میں اس وقت اسکول میں پڑھتا تھا اور شائد میں کبھی بھی ان لوگوں کے مذہبی عقیدے کے بارے میں نہیں جان پاتا اگر اس کمرے میں یہ ہفتہ واری اجتماع نہ ہواکرتا-
اس طرح کے اجتماع سے بھی مجھے شائد کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ میرا تعلق ایک شیعہ خاندان سے تھا اور اس طرح کے اجتماعات ہمارے کلچر کا بھی حصہ تھے-
میرے تجسس کی اصل وجہ وہاں ایک پروجکٹر کی موجودگی تھی جس کو وہ لوگ بعض فلمیں دکھلانے کیلئے استعمال کرتے تھے- اب میں سوچتا ہوں تو وہ فلمیں ان کے مذہبی رہنما کے بارے میں رہی ہونگی-
میری دلچسپی اس مشین میں تھی اوران فلموں اوراجتماع کے بارے میں میرے تجسس کے جواب میں ایک بزرگ نے بتایا جو مجھے ابتک یاد ہے کہ وہ لوگ کسی دوسرے عقیدے کے پیروکار تھے-
مجھے اس ایک فرق کے علاوہ اور کوئی بات ان دونوں خاندانوں کے درمیان نظرنہیں آئ- ہم لوگ ہمیشہ اچھے ہمسایوں کی طرح ملتے تھے اور ایک دوسرے کی مزاج پرسی اور خیریت کی خواہش رکھتے-
اگران دونوں گھروں میں کبھی کوئی خاص چیز پکائی جاتی توضرور مل بانٹ کے کھاتے جس کی خوشبو دونوں گھروں میں جاتی-
ہمارے گھر کی پچھلی گلی میں ایک امام بارگاہ تھی- اس کے اختتام پر ایک بڑی سنیوں کی مسجد تھی- وہ وقت اگرچہ کہ ہر لحاظ سے بہترین نہیں تھا لیکن مجھے مذہبی عدم برداشت کا کوئی واقعہ یاد نہیں ہے سوائے اسکول میں کسی جھگڑے کے موقع پر کوئی مجھے شیعہ ہونے کا طعنہ کسی بات کے حوالے سے دے- جس پرکوئی یقین نہیں کرتا تھا-
تو پہلا احمدی جس سے میری ملاقات ہوئی وہ ایک عام آدمی تھا جو میرا پڑوسی تھا- میرے پاس اس سے نفرت کرنے کی یا اس سے کسی اور طرح کا برتاؤ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی- ہم نے وہ گھر 1973 میں چھوڑ دیا تھا اور دستور میں دوسری ترمیم (سکنڈ امنڈمنٹ) 1974کے آواخر میں ہوئی- جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا-
میں نے 1980 کے اوائل میں لاہور کے ایک آرٹس کالج میں داخلہ لے لیا تھا- میں کالج کے ہاسٹل میں ہی رہتا تھا- وہ زندگی کے لاابالی پن اور بے ہنگم تفریح سے پر دن تھے- ہمآرا گروپ چند ہی ہفتوں میں آپس میں گھل مل گیا- ہم سب دیوانوں جیسی حرکتیں کرتے جس نے ہماری دوستی کے رشتے کو انجانی حدوں تک پہنچا دیا تھا-
ہم لوگوں کی دوستی اتنی گہری اور اٹوٹ تھی کہ کالج کے دوسرے طلباء جو ہاسٹل میں نہیں رہتے تھے وہ اس کو رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے- وہ ہم لوگوں کی نظر میں باہر والے تھے اپنی ماؤں کے ننھے بچوں کی طرح جن کو شام کے بعد گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں تھی- وہ لوگ ہاسٹل میں رہنے والوں کیلئے کسی اجنبی سیارے کے باسیوں کی طرح تھے-
ہماری کلاس میں ایک لڑکا، جس کی سوچ کہ صرف ہاسٹل والے ہی کیوں سارا مزہ لوٹیں؟ ہم لوگوں کے ساتھ لگا رہتا اور کبھی کبھی رات بھی ہم لوگوں کے ساتھ ہاسٹل میں گزارتا- میری اس ذہین اور خوش مزاج لڑکے سے اچھی دوستی ہوگئی تھی اور ہم دونوں کا کافی وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزرتا تھا، کبھی آرٹ کے کسی پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے یا دنیا بھر کے کسی بھی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے-
ایک مرتبہ ہم لوگ کہیں جارہے تھے جسکے راستے میں اسکا مکان پڑتا تھا اور اسکو کسی کام سے تھوڑی دیر کیلئے رکنا تھا- میں نے سوچا کہ میں اسکی بیٹھک میں اس کا انتظار کرلونگا اور ایک گلاس پانی پی لونگا جبتک کہ وہ اپنے کام سے فارغ ہولے-
مجھے بے حد حیرت ہوئی جب وہ مجھے اپنے گھرمیں لیجانے پرجھجھکا- میں اس کے اس رویہ پر تھوڑا سا پریشان بھی ہوا لیکن پھرایک بے تکلف دوست کی طرح اسکے گھر میں گھستا چلا گیا-
میں جوس کی ایک چسکی لیکر کمرے کے اطراف نظر ڈال رہا تھا تب ہی میری نظراسکی جھجھک کی وجہ پر پڑی جو دیوار پر آویزاں تھی- مگر اس نے اپنے گہرے دوست سے یہ بات کیوں چھپائی جس کواس نے ہر بات میں شریک کیا تھا-
جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو میں اس تصویر کے سامنے کھڑا ہوا تھا- کیا تم احمدی ہو؟ میں نے اس سے پوچھا. ہاں. اس نے اپنا سر جھکائے ہوئے جواب دیا- وہ تصویراسکے ایک مذہبی رہنما کی تھی-
وہ اس بات پر اپنے کو الزام نہیں دے رہا تھا کہ وہ کون تھا بلکہ اس بات پر شرمندہ تھا کہ اسنے اپنے گہرے دوست سے اپنی شناخت چھپائی- مجھے بھی اسکی اس حرکت سے دکھ ہوا لیکن اسکی مجبوری بھی سمجھ میں آئی-
ہم کافی دیرتک اس شام ساتھ رہے لیکن ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی. ہمارے دل میں سوالات اٹھ رہے تھے- کیا وہ مجھ سے خوفزدہ ہے؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ میں اسے نقصان پہنچا سکتا ہوں؟
وہ میری زندگی میں دوسرا احمدی تھا جس سے میری ملاقات ضیاء الحق کی دوسری ترمیم کے دس سال کے بعد ہوئی تھی اور ایسے وقت ہوئی تھی جب جنرل ضیاء اور اسکی جماعت اسلامی احمدیوں کے خلاف اس قانون کا نفاذ کرچکی تھی-
میری پہلے احمدی سے ملاقات کے برخلاف، جسے میں بچپن سے جانتا تھا، میرا دوست ایک عام نوجوان نہیں تھا گرچہ کہ اس نے اس معاشرے میں اپنے آپکو ایک "عام" آدمی کے طور پرضم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی-
کالج کے بعد، لاہورمیں تقریباً 1990 کے شروع میں ہی میں اپنے چند دوستوں کی شراکت میں کچھ عرصے کیلئے ایک ڈیزائننگ اور پبلشنگ کمپنی کے ساتھ وابستہ ہو گیا- میری ایک "کلائنٹ" ایک یونیورسٹی کی ایک اسٹوڈینٹ یونین تھی جس سے میں کالج کے زمانے سے واقف تھا، جبکہ میں انکے سہ ماہی میگزین کے مرتب کرنے میں انکی مدد کر دیا کرتا تھا-
اب اس کیمپس کی سیاست میرے آرٹس کالج کے زمانے سے بالکل مختلف ہو چکی تھی- یہاں کے طلباء کے رہنماؤں اور مخالف جمعیت طلباء اسلام کے درمیان فائرنگ کے واقعات ایک معمول کی بات تھی- ہر ایک ہاسٹل کی بلڈنگ کسی نہ کسی پارٹی کی ملکیت تھی اوراسکے قلعے کی مانند سمجھی جاتی تھی-
میں ایک مرتبہ فائرنگ کے ایک تبادلے میں گھر گیا جب جمعیت اپنے کسی کھوئے ہوئے ہاسٹل کو واپس لینے کی کوشش کر رہی تھی جس پر کسی مخالف لبرل پارٹی نے قبضہ کرلیا تھا-
میں اس طلباء تنظیم کے تمام عہدیداروں سے واقف تھا- ہاں ان لوگوں کوزیادہ جانتا تھا جن کے ساتھ میں انکے میگزین میں کام کرتا تھا- یہ تنظیم دو ذیلی دھڑوں میں تقسیم تھی ایک وہ جنکو بندوق سے محبت تھی اور ذرا ذرا سی بات پر پستول نکال لیتے تھے اورجمیعت سے خصوصی مخاصمت رکھتے تھے-
وہ ذرا سی بات پر بھڑک جانے والے نوجوان تھے جنکے اثر کو دوسرا گروپ کسی حد تک زائل کرنے کی کوشش کرتا تھا- یہ لکھنے پڑھنے والے دانشور اور روشن خیال لوگ تھے جو جمیعت کے کٹر مذہبی نظریوں سے نفرت کرتے تھے-
مجھے یہ نہیں معلوم کہ پہلے گروپ کو انہوں نے اپنی حفاظت کیلئے تعینات کیا یا پھر پارٹی نے پڑھنے لکھنے والے روشن خیال لوگوں کوجمیت کے نظریاتی اثر کو توڑنے کیلئے جمع کیا-
ایک دن مجھے کیمپس کے گیٹ پر روک لیا گیا کہ آج یونیورسٹی بند ہے- بتایا گیا کہ طالب علموں کے جھگڑے میں ایک موت ہوگئی ہے- مجھے پچھلے دروازے کا پتہ تھا اور یہ بھی کہ ہتھیار بند گروپ کے اوپر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا مگر میں جس شخص سے ملنے گیا تھا وہ مجھے نہیں ملا- لہٰذا میں نے کسی اور سے اس کے بارے میں پوچھا- اوریہ سن کر مجھے سخت صدمہ ہوا کہ یہ وہی شخص تھا جوآج مارا گیا تھا-
وہی کیوں؟ وہ تو ایک سیدھا سادہ مرنجاں مرنج قسم کا پڑھنے لکھنے والا ادارتی ٹیم کا ایک رکن تھا- وہ میگزین کے شعروشاعری کے شعبہ کو دیکھتا تھا- اور اگر مجھے ٹھیک سے یاد ہے تومجھے تو یہ بھی کبھی پتہ نہیں چلاکہ وہ ایک احمدی ہے، یہ رازداری اب ان لوگوں کے قومی مزاج کا ایک حصہ بن گئی ہے- لیکن اس کے قاتلوں کو اچھی طرح سے پتہ تھا کہ وہ کون تھا-
میرے دوسرے دوستوں کی زبانی مجھے اس کہانی کا پتہ چلا کہ اصل میں جمیعت یونیورسٹی کو بند کروانا چاہتی تھی- جس کی ہدایت انکی اعلیٰ سیاسی قیادت نے دی تھی اور جنکا مقصد یہ تھا کہ انکے ذریعہ کوئی بڑے سیاسی مقاصد حاصل کئے جائیں ----- یا شائد یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ صوبائی دارالحکومت میں امن و امان کی صورت حال بے حد مخدوش ہے-
جمیعت ان دنوں کیمپس میں مشکلات سے دوچار تھی- گروہوں کی جنگ میں جمیعت کی برتری مشکوک تھی اوراس کے اپنے اندازے کے مطابق وہ کوئی سخت قدم نہیں اٹھاسکتی تھی بلکہ درحقیقت انکو اس بات کا اندیشہ تھا کہ اس بات کاردعمل ان کے حق میں سخت نقصان دہ اور علاقائی برتری سے محرومی ہوسکتا ہے-
کیمپس کی دیواروں پر خون یونیورسٹی بند کروانے کا برسوں کا آزمودہ اور کامیاب نسخہ تھا لیکن مخالف پارٹی کےسخت ردعمل کے بغیر یہ کیونکر ممکن ہو؟ بہت آسان ہے- کسی احمدی کو قتل کردو-
اس کی مدد کیلئے کوئی نہیں آئیگا- اسکے لئے کوئی گولی نہیں چلائیگا- نہ اسکی حمایت میں کوئی احتجاجی ریلی نکالے گا اور نہ کوئی سرکاری تعزیتی پیغام آئیگا-
اور پھر واقعی بالکل وہی ہوا-
وہ ذہین اور نوجوان شاعر میری زندگی میں تیسرا احمدی تھا- وہ سارے امتیازی تفریقی قوانین اب بھی موجود ہیں اور اسی قانونی بنیاد نے لوگوں کو اس کالے قانون کوہرطرح استعمال کرنے کا جوازفراہم کردیا ہے جسے وہ بے دریغ استعمال بھی کرتے ہیں- معاشرے نے بھی اس نئی روایت کواچھی طرح اپنالیا ہے اور اب یہ ہماری تہذیب کا ایک فطری عنصر بن گیا ہے جوہم سے مختلف عقیدے کے لوگوں کے ساتھ ہمارے سماجی رویوں سے منعکس ہوتا ہے-
میں پچھلے دس سالوں میں کسی احمدی سے نہیں ملا- میں کچھ کو تو جانتا ہوں لیکن ہم ملتے نہیں ہیں- انہوں نے اپنے آپ کو ایک حصارمیں محبوس کرلیا ہے، اپنی شناخت کو چھپا کر اپنی زندگیوں کو اپنے گھروں تک محدود کرلیا ہے- انہوں نے اپنے وجودکے نصف کو مار دیا ہے- آپ ایک ایسے شخص سے کیسے دوستی کر سکتے ہیں جو نصف مردہ ہو-
میں آفس جاتے ہوئے روزانہ ایک قبرستان کے پاس سے گزرتا ہوں- میں نے پچھلے چند دنوں میں یہ دیکھا کہ قبرستان کی دیواریں اور اونچی ہو گئی ہیں جس کے اوپر خاردار تاروں کی باڑھ بھی ہے- ایک اسلحہ بردار چوکیداربھی گیٹ کے سامنے بیٹھا ہے- جیسے کہ مُردوں کی حفاظت کررہا ہو؟
میری سمجھ میں آ گیا کہ یہ ایک احمدی قبرستان ہے- ممکن ہے کہ میرا مقتول احمدی دوست بھی یہں دفن ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ اسکے قاتلوں کو شک ہے کہ اسکا نصف وجود اب بھی زندہ ہے-
ترجمہ . سیدہ صالحہ
تبصرے (3) بند ہیں