نیا نامزدگی فارم
یہ پاکستانی تاریخ کا ایک انتہائی دلچسپ لمحہ ہے۔ ملک اپنے پہلے جمہوری انتقالِ اقتدار کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اور جو بات اس وعدے کو یقینی بنانے کے لیے حوصلہ افزا ہے، وہ ہے ایک نڈر، فعال اور آزاد الیکشن جو دباؤ کو قدموں تلے روندتے ہوئے، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر اقدامات اٹھانے کے لیے آمادہ ہے۔
الیکشن کمیشن کو آزادانہ طور پر اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں نہ کہ صدر کی منظوری سے، لہٰذا ایسے میں وفاقی وزارتِ قانون کا یہ مطالبہ بنا جواز محسوس ہوتا ہے کہ ترمیم شدہ کاغذاتِ نامزدگی کی چھپائی سے قبل صدر سے اس کی منظوری لی جانی چاہیے تھی۔
بہرحال، الیکشن کمیشن نے ترمیم شدہ کاغذٓاتِ نامزدگی کو از خود چھپنے کے لیے بھیج کر ایک انتہائی اہم قدم اٹھایا ہے۔
اس کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتہائی اہم پیغام دیا کہ ملک میں شفاف اور منصفافہ انتخابات کی تیاریوں سے نہ تو حکومت اور نہ ہی سربراہ مملکت اسے روک سکتا ہے۔
تاہم اصلاح کے جوش اور ولولے کا مطلب یہ نہیں کہ غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا کی جائیں اور نہ ہی تمام سیاستدانوں کو اُس ایک نظر سے دیکھا جائے کہ وہ کچھ چھپا رہے ہیں۔
ترامیم کے ناقدین کا ایک نقطہ نظر ہے: متعدد نئے سوالات غیر ضروری اور مداخلت ہیں۔
اب انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کے لیے گریجویشن کی پابندی نہیں تاہم اس کے باوجود تعلیمی اسناد پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر، اس سے ایسا نہیں لگتا کہ آگے بڑھنے کے لیے یہ مثبت تعمیری قدم ہے۔
اثاثوں کی تفصیلات ٹیکس ریٹرن گوشوارے میں شامل ہے جو بہرحال امیدوار کاغذات نامزدگی کے ساتھ پیش کرے گا۔ اب اثاثوں اور ٹیکس کے معاملات درست ہیں یا نہیں، اس کی تفتیش کا اختیار فیڈرل بورڈ آف روینیو (ایف بی آر) کے پاس ہے۔
الیکشن کمیشن کا امیدوار کی فیملی اور غیر ملکی سفری اخراجات سے متعلق تفصیلی سوالات بھی بدستور غیر واضح ہیں۔
اگر ایف بی آر کے پاس کسی شخص کی مالی صورتِ حال سے متعلق مکمل گوشوارہ موجود نہیں یا فائل پر نامکمل معلومات ہیں یا اعداد و شمار درج نہیں کیے گئے تو وہ اُس مخصوص امیدوار کے معاملات کی باریک بینی سے چھان پھٹک کرسکتا ہے کہ کہیں اس نے ٹیکس چوری تو نہیں کیا۔
تاہم الیکشن کمیشن کے پاس نہ تو اس کے لیے وقت بچا ہے اور نہ ہی وسائل دستیاب ہیں کہ ہر امیدوار کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کی چھان پھٹک باریک بینی سے کرے۔
شاید جو سوال نہایت کم قابلِ دفاع ہے وہ امیدوار سے یہ پوچھنا کہ اس نے اپنے حلقے کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ ووٹر کریں گے۔
یہ تصور کرلینا مکمل طور پر قابلِ جواز ہے کہ ہمارے سیاستدان نااہل ہیں لیکن پھر بھی عوام کی عدالت سے باہر، انہیں بُلا کر کوئی یہ پوچھنے کا مجاز نہیں کہ اپنے انتخابی حلقے کے لیے کیا خدمات انجام دی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی، نامزدگی فارم میں شامل کیے گئے بعض نئے سوالات ایسے ہیں جن سے ملک کے جمہوری سیاسی عمل پر شبہ ابھرتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو یہ مضبوط اور خطرناک خیال ملتا ہے کہ جیسے شاید سویلین حکومتیں اس ملک کے لیے درست نہیں ہیں۔