آخر کب تک؟
اور قتل کرو اور جلاؤ- دکھ اور بد امنی سہنے کے لئے ہماری صلاحیت بے پایاں ہے- یہاں ان گنت بد معا شیاں معاف ہیں، آزاد ہیں-
اگر احتجاج کرو توعوامی اشتعال کا سامنا کرو- اگر احتجاج نہ کرو تو بد معاش کی جرات میں اضافہ قابل دید ہوتا ہے-
ہم پر لازم ہے کہ پہلے صحرائے عرب کے ان "شیروں" کو سلام کریں کہ یہ ہمارا جہادی سرمایہ ہیں، پھر اپنے "مردان باکمال" کو سلام کریں جنہوں نے ان شیروں کو "سلامتی" کے لئے پال رکھا ہے- ہمیں بتایا جاتا ہے کے اسلام سلامتی ہے-
مسیحی عوام کی احتجاجی تحریک سامنے آ گئی ہے جو گوجرہ جیسے بدتر مظالم پر بھی نہیں ابھری تھی- علّامہ قادری کینیڈا سے فوراً پلٹے ہیں؛ نئی صورت حال انکے مشن کے لئے بہت معاون نظر آتی ہے- عمران خان کی رجمنٹ انہی طالبان کے خلاف متحرک ہو گئی ہے جن سے خان صاحب ہمدردی رکھتے ہیں-
میڈیا کا ایک گھرانہ جو متواتر جمہوریت کے خاتمہ کی پیشگوئیاں کرتا اور ان شیروں کے ہر فعل کی پردہ پوشی کرتا آیا ہے اچانک مسیحی مظلوموں کی حمایت میں پنجابی طالبان کو نام لے کر بے نقاب کرنے نکل آیا ہے-
مسیحی عوام کی قسمت جاگی ہے کہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اپنی کفین چڑھا لی ہیں- لیکن شیر اور شاہین بھاگنے والے نہیں- جونہی صورت حال مناسب ہوگی وہ اور شدّت سے وار کریں گے- لگتا ہے کھیل پھر سے چل پڑا ہے- لیکن کچھ لوگ جنھیں اتنی اچانک رونما ہونے والی عوامی وارداتوں میں کوئی چھپا معنی نظر نہیں آتا کہتے ہیں "سازش کی بات نہ کرو"- شاید اس لئے کہ سازش کی کہانی بیان کرنا ان کا خصوصی حق ہے-
وزیرستان اور گوجرہ کے بعد تفتان، کوئٹہ اور کراچی کی باری تھی- اس ہفتہ انہوں نے لاہور کے بادامی باغ کو سلامتی سے بھر دیا- اس بار انہوں نے حملہ کرنے سےدو روز پہلے دیواروں کو پوسٹروں سے منور کر دیا- مسجدوں سے اعلان ہوتے رہے کے مسیحیوں کو الله کے نام پر ذبح کیا جاۓ گا اور ان کے گھر جلاۓ جایں گے-
اس بڑے کارنامہ سے ایک دن پہلے اس مسیحی بستی پر ہمارے بہادروں نے حملہ کیا جس کا مقصد غالبا "ریہرسل" کے علاوہ یہ تھا کہ اور بہت سے مجاہدوں کو "ثواب" کمانے کا موقع ملے- صوبائی حکام نے اعلان شدہ آتش بازی سے پہلے بستی والوں سے انکے گھر خالی کروا لئے تھے-
اس بستی کے سیکڑوں انسانوں کو ذبح کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ بستی کے ایک لڑکے نے کچھ برے لفظ بولے تھے- یہ برے لفظ صرف ایک اچھے مسلمان نے سنے تھے اور اسی نے لوگوں کو بتایا تھا- ظاہر ہے کسی ثبوت کی چنداں ضرورت نہ تھی- چنانچہ مسجدیں غیظ و غضب سے بھر گئیں- شیر اور شاہین طیش سے بپھر گۓ-
اس دوران انتخابات کے التوا اور منسوخی کی افواہیں تیز تر ہو گئیں- جمہوری حکومت کے خاتمہ کی "خبریں" یوں تو پانچ سال سے گردش میں تھیں- تاہم ان خبروں میں شدّت آتی رہی جب عمران خان صاحب اور ان کے بعد علامہ قادری صاحب نے منتخب حکومتوں کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور جب کوئٹہ اور کراچی کے واقعات پیش آے
قتل عام پر قتل عام کرنے والوں کی مکمل آزادی دیکھ کر جانے کتنے دل بے بسی کی صعوبت میں دکھتے ہیں- ہمارے "محافظ" جب بار بار ہمارے آئین کو آئین کے خلاف اور لوگوں کو لوگوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو ہم کراہنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے- پھر ایجیٹیشن کے بعد کوئی جرنیل بڑی معصومیت بھری بیزاری سے سیاسی سربراہ سے پوچھتا ہے" اگر امن و امان کی بحالی ہم نے ہی کرنی ہے تو پھر آپ آخر کس مرض کی دوا ہیں؟"
سیاست دان جنہوں نے کئی برس کی حکمرانی کے دوران اپنی کھال بچانے کے لئے تابع داری کی ہوتی ہے اب اقرار جرم کے ساتھ معافی نامے لکھ کر کھال بچاتے ہیں، واہ!
اقتدار ہتھیانے کا کیسا شاندار نسخہ ہے کہ پہلے پولیس اور سول انتظامیہ کو اپنے جہادی سرمایہ کے ذریعہ شکست دے دو، پھر قومی سطح پر شور و غوغا بلند کرواکر براہ راست باگ ڈور ہاتھوں میں لے لو-
ہم پہلے سے کہیں بڑھ کر یہ جان گئے ہیں کہ عوام کے ایک ہجوم کی حیثیت سے ہمیں جمہوریت اختیار کرنے کی اجازت نہیں- ہمارے لئے کسی نہ کسی مسیحا کو سلام کرنا لازم ہے-
دو طرح کے مسیحا دستیاب ہیں: آرمی کے جرنیل اور طالبان کے جرنیل- دراصل یہ ہمارا اختیار نہیں بلکہ مجبوری ہے- یہی دونوں مسیحا آپس میں معاملات طے کریں گے، شاید یہی ہماری قسمت ہے-
لگتا ہے الله نے ہمیشہ کے لئے بادشاہ اور مجاہد کو مسلمانوں کا مقدّر بنا دیا ہے کیونکہ خوش حال عرب اور مسلمانوں کے خوش حال درمیانہ طبقے ان ہی سے محبّت کرتے ہیں-
پچھلی صدیوں میں دوسرے معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی بادشاہوں کا راج تھا- لیکن حالیہ تاریخ میں ہمارے لئے جرنیل اور جہادی ابھرے تاکہ جب جمہوریت اور انسانی حقوق کے کافرانہ نظریات دنیا میں پھیلنے لگیں تو ان کا مقابلہ کریں- شاید یہی سبب ہے کہ مغربی ملکوں میں آباد ہونے والے مسلمان ان ملکوں کی نمائندہ جمہوریتوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں-
لیکن یہ سچ نہیں کہ جرنیل اور جہادی اپنی ہر حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں- سچ یہ ہے کہ وہ بادشاہوں، شیخوں اور اماموں کے وفادار ہوتے ہیں- انہیں نفرت صرف ان جدید مسلم حکمرانوں سے ہوتی ہے جو جمہوریت کے کافرانہ نظام کا انتخاب کریں-
مسلمان بادشاہوں نے برصغیر میں صدیوں ایسی آبادی پر حکومت کی جو اکثر اوقات سخت مزاحمت کرتی رہی- ان صدیوں میں تھکا دینے والی جنگیں تھیں، مسلح عوامی بغاوتیں تھیں اور گہری بے چینی تھی جن کا مقابلہ فوج ہی کرتی رہی کیونکہ یہ کوتوال اور داروغہ کے بس کی بات نہ تھی- لیکن کسی جرنیل نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا-
غیر ملکی اور غیر مذھب والے برطانوی حکمرانوں نے چند ہزار گوروں کے ساتھ ہم پر ایک عرصہ حکومت کی، ان کی بیش ترفوج مسلم اور دوسرے مقامی لوگوں پر مشتمل تھی-
مسلمان فوجیوں نے سید احمد بریلوی اور دوسرے مجاہدین کے خلاف پچاس برس تک وفاداری سے انگریز کے لئے جنگ لڑی اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ تک یہ وفاداری قائم رہی-
برطانوی حکمرانوں نے مسلم علما کو پھانسیاں دیں، جلیانوالہ میں قتل عام کرایا، انہوں نے حریت پسندوں کو پھانسیاں دیں، علم دین کو پھانسی دی جو کہ بر صغیر کے مسلمانوں کے نزدیک ناموس رسالت کے کسی بھی دوسرے محافظ سے بڑا ہیرو تھا اور اس کا دفاع قائد اعظم اور اقبال نے کیا تھا- اس کو پھانسی دینے کے لئے انگریز کو کسی مارشل لا کی ضرورت نہیں پڑی تھی-
مصدق، سوکارنو، بھٹو اور نواز شریف کا تختہ الٹنا آسان تھا کیونکہ ان کی حکومتیں جمہوری تھیں- جبکہ ایران کے آیت الله، سہارتو اور ضیاء الحق اپنی موت تک ظل الہی کی حیثیت سے حکومت کرتے رہے- انہوں نے لاکھوں بے گناہ شہریوں کو سیاسی مخالفت میں اسلام کے نام پر قتل کیا اور رگڑا-
انہوں نے اپنی قوموں کو بے مقصد عسکریت میں ڈبو دیا، اور انھیں بد حالی اور ریاکاری میں مبتلا کر دیا- لیکن انکے کسی جرنیل نے بغاوت نہیں کی، احتجاج تک نہیں کیا-
بادشاہوں، مذہبی شخصیتوں اورغیر ملکی حکمرانوں کا لامحدود اقتدار اس لئے ممکن ہوا کیونکہ افواج نے مملکت کے اختیار کی اطاعت کی، کیونکہ کسی جرنیل نے سیاسی اقتدار میں مداخلت نہیں کی اور کسی ایجنسی نے عوام میں سے قاتلوں کے خود مختار دستے بھرتی نہیں کئے جو تختے الٹنے کا جواز پیدا کرنے کے لئے بدامنی پیدا کریں-
کیا یہ وحشت انگیز بات نہیں کہ ایک ایسا خفیہ ادارہ جو کہ کے جی بی اور سی آئ اے سے کشتی کرتا ہے اور ان کے انتہائی چھپے ہوئے ایجنٹ ڈھونڈ لیتا ہے وہ ادارہ بڑی آسانی سے اپنے ہی پالتو صحرائی شیروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہتا ہے؟
اپنی تباہی کے بےبس ناظرین کی حیثیت سے ہم صرف دیکھ اور کراہ سکتے ہیں- وہ مسیحیوں اور قادیانیوں کو، ہزارہ اور شیعہ بیگناہوں کو قتل کر سکتے ہیں، وہ ہمارے بہترین لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں- لگتا ہے دنیا ان مقدّس تباہ کاروں کے ساتھ ہے- اس لئے کہ جب ہمارے شیر اور شاہین بے بس انسانوں کو کھاتے ہیں تو وہ "با ضمیر مغرب"چین سے سوتا ہے جس کے عوام عراق پر حملے کا سن کر کروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر آ جاتے ہیں-
پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.
تبصرے (5) بند ہیں