• KHI: Maghrib 6:47pm Isha 8:04pm
  • LHR: Maghrib 6:20pm Isha 7:42pm
  • ISB: Maghrib 6:26pm Isha 7:50pm
  • KHI: Maghrib 6:47pm Isha 8:04pm
  • LHR: Maghrib 6:20pm Isha 7:42pm
  • ISB: Maghrib 6:26pm Isha 7:50pm

ون ڈے سیریز: ایک اور آزمائش

شائع March 9, 2013

فوٹو اے ایف پی۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز کل سے بلوم فونٹین میں آغاز ہو رہا ہے- ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ کی شکست کے بعد ٹی ٹوئنٹی مچ میں کامیابی سے گرین شرٹس کے حوصلے کافی بلند ہیں لیکن اگر ریکارڈز اور خصوصاً قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ سیریز بھی قومی ٹیم لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہو گی۔

اگر دونوں ٹیموں کے درمیان 1992  سے لے کر اب تک ہونے والے ایک روزہ میچوں پر نظر ڈالی جائے تو جنوبی افریقہ کا پلڑا واضح طور پر بھاری نظر آتا ہے- دونوں ٹیموں کے درمیان اب 58 میچ کھیلے گئے ہیں جن میں سے 38 میں جنوبی افریقہ نے کامیابی حاصل کی جبکہ 18 بار فتح نے پاکستان کے قدم چومے، اس دوران ایک میچ بے نتیجہ بھی رہا -

بیٹنگ میں پاکستان کی جانب سے محمد یوسف جبکہ پروٹیز کے جیک کیلس بالترتیب 34  اور 40  میچز میں 1116  اور 1217  رنز کے ساتھ سرفہرست ہیں، باؤلنگ میں وقار یونس 32  میچوں میں 58  وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ جنوبی افریقہ کی طرف سےمکھایا نٹینی اور شان پولاک بلترتیب 25  اور 36  میچوں میں 49 وکٹیں لے کر ٹاپ پر ہیں۔

پاکستان کی جانب سے جنوبی افریقہ کے خلاف پہلی سنچری جاوید میانداد نے 1993  میں ایسٹ لندن کے مقام پر بنائی تھی جبکہ 135 رنز کی سب سے بڑی اننگز سلیم الہی نے 2002  میں پورٹ ایلزبتھ میں کھیلی تھی-

جنوبی افریقہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک روزہ میچوں میں سب سے پہلی سنچری مائک رنڈل نے جوہانسبرگ میں 1995  میں بنائی جبکہ سب سے بڑی اننگ کھیلنے کا اعزاز ڈیرل کلینن کے پاس ہے، کلینن نے نیروبی جیمخانہ میں 124  رنز اسکور کیے تھے-

دونوں ٹیموں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو جنوبی افریقہ کو پاکستان پر واضح برتری حاصل ہے جس کے پاس ہاشم آملا، اے بی ڈی ویلیئرز، گریم اسمتھ، ڈیل اسٹین اور لونوابے سوٹسوبے کی شکل میں میچ وننگ کھلاڑی موجود ہیں جبکہ نوجوان فاف ڈیو پلیسی بھی ٹیم میں بہترین اضافہ ہیں۔

خصوصاً جنوبی افریقی ون ڈے ٹیم کے کپتان ڈی ویلیرز کا پاکستان کیخلاف ریکارڈ انتہائی شاندار ہے جنہوں نے اب تک حریف کیخلاف 16 میچوں میں 63 .56 کی اوسط سے 623 رنز بنا رکھے جس میں 1 سنچری اور 5 نصف سنچریاں بھی شامل ہیں.

یاد رہے کے ٹیسٹ سیریز میں بھی ڈی ویلیئرز کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی تھی اور انہیں سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا- آملا جو نہ صرف ٹیسٹ بلکہ ون ڈے میں بھی آئی سی سی کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر براجمان ہیں اور میچ میں فتح کیلیے پاکستانی بولروں کے لئے اننگز کی ابتدا میں ہی ان کی وکٹ لینا بہت ضروری ہو گا-

باؤلنگ میں پاکستان کیلیے سب سے بڑا خطرہ ڈیل اسٹین ہیں جو ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی شکست کی بڑی وجہ تھے، جنوبی افریقہ کی تیز اور باؤنسی پچ پر پاکستان کو ناصرف اسٹین کیخلاف سنبھل کر کھیلنا ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رنز کی اوسط کو بھی برقرار رکھنا ہو گا- اسٹین کے ساتھ ساتھ لونابے سوٹسوبے سے بھی گرین شرٹس کو ہوشیار رہنا ہو گا جو گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی شاندار باؤلنگ کے باعث جونبی افریقی پیس اٹیک کا اہم ہتھیار بن چکے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کی بات کی جائے تو شائقین کی توقعات کا محور اوپننگ جوڑی محمد حفیظ اور ناصر جمشید، یونس خان، اسد شفیق، سعید اجمل اور ٹیم میں واپس آنے والے شاہد آفریدی ہوں گے۔

ٹیم مینجمنٹ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ٹیم سلیکشن خصوصاً اوپنرز کا چناؤ ہو گا اور اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اس معاملے پر ڈریسنگ روم میں خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے، کوچ ڈیو واٹمور اور کپتان مصباح الحق ٹیسٹ سیریز اور اس کے بعد ٹور میچ میں بیٹنگ لائن کی ناکامی پر شدید پریشان ہیں اور اسی لیے واٹمور بیٹنگ کی استعداد بڑھانے کیلیے عمر گل، وہاب ریاض اور جنید خان کو خصوصی طور پر بیٹنگ پریکٹس کرا رہے ہیں۔

پاکستانی ٹیم میں اس وقت اوپننگ کے امیدواروں میں محمد حفیظ، ناصر جمشید اور عمران فرحت شامل ہیں، کوچ ڈیو واٹمور جنوبی افریقہ کی کنڈیشنز کے باعث عمران فرحت سے اوپننگ کرانے کے خواہشمند ہیں لیکن ہندوستان کیخلاف سیریز میں کارکردگی کی بنیاد پر حفیظ اور جمشید سے اوپننگ کرائے جانے کا امکان ہے۔

کچھ عرصہ قبل ٹیم میں دوبارہ جگہ بنانے والے کامران اکمل کی نچلے نمبروں پر ناکامی کے بعد انہیں نمبر تین پر کھلائے جانے کا امکان ہے جبکہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر یقینی طور پر تجربہ کار یونس خان اور  کپتان مصباح الحق کھیلیں گے۔

قوی ٹیم میں اس وقت سے سے زیادہ گمبھیر صورتحال نمبر چھ پوزیشن کیلیے ہے جہاں شعیب ملک، اسد شفیق اور عمر اکمل میں سخت مقابلہ ہے، ٹیم مینجمنٹ خاص طور پر اسد شفیق اور شعیب ملک میں سے کسی کے ایک چناؤ میں شدید تذبذب کا شکار ہے۔

ساتویں نمبر پر دورہ ہندوستان سے ڈراپ کے جانے کے بعد دوبارہ ٹیم میں جگہ بنانے والے شاہد آفریدی کو کھلائے جانے کا امکان ہے، شاہد آفریدی اس سیریز میں خاص طور سب کی توجہ کا مرکز ہوں گے کیونکہ اس سیریز کو ان کے کیریئر کیلیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ چیف سلیکٹر اقبال قاسم پہلے ہی کہہ چکے ہیں یہ سیریز شاہد آفریدی کیلیے آخری موقع ہے، اس تناظر میں سیریز میں ریکارڈ ہولڈر آل راؤنڈر کا کردار انتہائی اہم ہو گا۔

باؤلنگ لائن اپ میں عمر گل، جنید خان اور سعید اجمل فرسٹ چوائس ہیں جبکہ چوتھے باؤلر کیلیے وہاب ریاض اور محمد عرفان میں ٹائی ہے، ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ٹیم میں جگہ بنانے والے وہاب کو بہتر فٹنس اور بیٹنگ کی اضافی صلاحیت کی بنا پر ترجیح دیے جانے کا امکان ہے۔

پچ کے حوالے سے پہلے ہی یہ رپورٹس آ چکی ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی میچ میں پٹائی کے بعد جنوبی افریقہ مزید کوئی رسک لینے کے موڈ میں قطعاً نظر نہیں آتی اور اسی لیے انہوں نے ہوم ایڈوانٹیج کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے سیریز کیلیے تیز اور باؤنسی وکٹیں تیار کی ہیں۔

پاکستانی ٹیم کی سب سے بڑی خامی خراب فیلڈنگ اور ہدف کے تعاقب میں ناکامی ہے جس کی سب سے بڑی مثال ہندوستان کیخلاف کھیلا گیا آخری میچ ہے جہاں قومی ٹیم 167 رنز کے آسان ہدف کا تعاقب کرنے میں ناکام رہی تھی جبکہ فیلڈنگ میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے اکثر اہم مواقعوں پر کیچ ڈراپ کر کے جیتے ہوئے میچز بھی حریف کی جھولی میں ڈال دیے، دوسری جانب جنوبی افریقی ٹیم کا اس حوالے سے ٹریک ریکارڈ کافی بہترین ہے لہٰذا ٹیم مینجمنٹ کیلیے ان خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیم کا انتخاب اور حکمت عملی کو ترتیب دینا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔

اس سیریز کو مصباح کے کیریئر خصوصاً کپتانی کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد کپتان انتہائی دباؤ کا شکار ہیں، جہاں ان کی سست رفتار بیٹنگ پر کئی سوال اٹھائے جارہے ہیں تو وہیں کی مدافعانہ حکمت عملی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے خصوصاً ٹی ٹوئنٹی میچ میں حفیظ کی جارحانہ حکمت عملی کے بعد سے چند حلقوں کی جانب سے انہیں ون ڈے ٹیم کا کپتان بنانے کیلیے زور دیا جا رہا ہے لہٰذا اس سیریز میں کامیابی کا دارومدار مصباح کی حکمت عملی پر بھی ہو گا جو ٹیسٹ سیریز میں حد سے زیادہ دفاعی نظر آئی اور اگر قومی ٹیم سیریز میں ناکامی سے دوچار ہوتی ہے تو ممکنہ طور پر مصباح کپتانی سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیم میں جگہ سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

سابق قومی کرکٹرز نے بھی اس تناظر میں کپتان کو جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا ہے، سابق کپتان اور مایہ ناز بلے باز جاوید میانداد نے ٹیم کو ٹیسٹ سیریز میں شکست کو بھلا کر سیریز میں حصہ لینے پر ور دیا ہے جبکہ انہوں نے مصباح کو بھی جارحانہ انداز انداز کا مشورہ دیا ہے۔

نتیجہ چاہے جو بھی ہو لیکن یہ سیریز یقینی طور پر پاکستان کرکٹ میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 29 مارچ 2025
کارٹون : 28 مارچ 2025