ان دیکھے مظلوم
چھ بچوں کا باپ، ایف آئی اے کانسٹیبل غلام دستگیر کراچی میں گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ وہ قریب کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا، اس کے بعد اہلِ خانہ پھر کبھی اسے زندہ نہ دیکھ سکے۔
ان کی سب سے چھوٹی بیٹی باپ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے: 'وہ ہمارے واحد کفیل تھے۔ وہ میرے دوست جیسے سرپرست تھے۔ میرے دونوں بھائی بیس سال کے اریب قریب مگر دونوں ہی بیروزگار ہیں۔ میری بہن کالج جاتی ہے۔ انہوں نے میرے باپ کو کیوں مارا؟'
عسکریت پسندی کا سب سے بھیانک نتیجہ پاکستان کو 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کی بد ترین دلدل میں دھکیل دینا ہے۔
آن لائن ڈیٹا بیس، دی ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹیل کے مطابق سن دو ہزار سات سے دو ہزار گیارہ کے درمیان پاکستان میں فرقہ واریت کے چھ سو تیرہ حملے ہوئے، جس میں تقریباً سولہ سو سے زائد انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران خود کش حملوں، مذہبی شدت پسندی، فرقہ واریت اور نسلی بنیادوں پر قتل و غارت میں ہزاروں لوگ اب تک ہلاک کیے جاچکے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق اس طرح کے حملوں میں سن دو ہزار بارہ کے دوران پاکستان میں دو ہزار پچاس ہلاک اور تین ہزار آٹھ سو بیاسی شہری زخمی ہوئے تھے۔
اگر اس کا تقابل ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹیل کے اعداد و شمار سے کریں تو سن دو ہزار گیارہ کے دوران چار ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
اس تقابلی جائزے سے اشارہ ملتا ہے کہ تشدد میں کمی آرہی ہے تاہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے حملوں کو دیکھیں تو رجحان میں اچانک تیزی آچکی (اور کراچی اس میں سر فہرست ہے)۔
جیسے ہی رواں سال کا آغاز ہوا، دہشت گرد حملوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا، جس سے شہریوں میں انتخابات سے قبل عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔
جانوں کے زیاں اور زخمیوں کے طبّی اخراجات کا تخمینہ تو لگایا جاتا ہے لیکن ان کے پیچھے رہ جانے والی عورتیں اور بچے عسکریت پسندی کی جنگ کے وہ متاثرین ہیں جو کسی تخمینے کا حصہ نہیں۔
اس تنازعے کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے وہ ہر شے کھو بیٹھتے ہیں اور یوں برسوں کی جدوجہد کے دوران وہ سانحہ ان کی زندگی کا انمٹ نقش بن کر رہ جاتا ہے۔
دہشت گرد حملوں میں ہلاک شدگان کے خاندان کے لیے حکومت پانچ لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کرتی ہے تاہم کراچی کے عباس ٹاؤن بم حملے کے متاثرہ خاندانوں کے لیے اسے بڑھا کر پندرہ لاکھ روپے کیا جاچکا ہے۔
اب یہ علم نہیں کہ آیا اعلان کردہ معاوضے کی رقم متاثرہ خاندانوں تک پہنچتی بھی ہے نہیں۔ اب یہ طویل المعیاد منصوبہ ہے جو کچھ دیا جائے گا وہ گھروں کی تعمیرِ نو، زندگیوں کا نعم البدل اور تمام تر تحفظات کے لیے ہوگا۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف جب حکومت نے فوجی آپریشن کیا تو سوات سے بے دخل ہونے والے اور سیلاب کے متاثرین بھی کیمپوں سے خالی ہاتھ اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔ انہیں ایک پیسہ بھی نہیں ملا تھا۔
جب گھر کا کمانے والا سرپرست ہی نہ رہے تو اس کے پیچھے رہ جانے والی بیوہ اور یتیم بچے بے آسرا رہ جاتے ہیں اور پھر زندہ رہنے کے لیے اُن کے پاس رشتہ داروں کے در پر جانے یا خیرات کے لیے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
اطلاعات ہیں کہ خیبر پختون خواہ میں بیوہ عورتوں کو سب سے زیادہ بولی دینے والوں کے ہاتھ جھوٹی شادی کے نام پر بیچ دیا جاتا ہے اور پھر انہیں دوسرے شہروں میں لے جا کر، جیسا کہ کراچی وغیرہ، جبری طور پر جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔
اس طرح کے حالات کی شکار خواتین کے تحفظ کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ حکومت ایسے مسائل کی نشان دہی میں ناکام رہی ہے کہ جن کی بنیاد پر پالیسی سازی کر کے، اس طرح کے معاملات کا شکار ہونے والی خواتین کو معاوضہ ادا کیا جاسکے اور ان کی بحالی کے لیے ریاست مدد فراہم کرسکے۔
جب سے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے، تب سے اس قبائلی پٹی کے رہنے والے شدت پسندی کی اس جنگ سے بدترین انداز میں متاثر ہورہے ہیں۔
عسکریت پسند گروہوں کے حملوں اور ان کا جواب دینے والے فوجی آپریشنوں کے دوران، بڑی تعداد میں قبائلی علاقے سے لوگ خصوصاً مرد گھر بار چھوڑ کر چلے گئے یا مبینہ طور پر لا پتا ہوچکے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں شہریوں پر ڈرون حملوں کے سبب معاشی سرگرمیاں اور حالات نہایت ابتر ہوچکے اور لوگ بڑی تعداد میں نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔
وزیرستان میں مقامی باشندوں کا معاشی انحصار مقامی سطح پر چھوٹی کاروباری سرگرمیوں، زراعت، گلّہ بانی یا پھر باہر سے بھیجی جانے والی رقو م پر ہے۔
اگرچہ یہاں حکومت نے متاثرین کو معاوضے تو ادا کیے ہیں تاہم مقامیوں کا کہنا ہے کہ دیا گیا معاوضہ نقصان پورا کرنے اور طویل عرصے تک جاری علاج کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اگرچہ طالبان نے قبائلی علاقوں میں اسکولوں کو شدید ترین نقصان پہنچایا تاہم دہشت گردی سے متاثرہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر اور معاشی و سماجی حالات بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری نہایت ہی کم ہے اور اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کے برابر۔
پاکستانی قبائلی علاقوں میں شرح خواندگی نہایت ہی کم ہے۔ کچھ تخمینوں کے مطابق بعض قبائلی علاقوں میں، لڑکیوں میں شرح خواندگی کا تناسب (شرمناک حد تک کم) صرف تین فیصد تک ہے۔
ان علاقوں پر ہونے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات مشکل سے ہی باہر تک پہنچ پاتی ہیں۔
ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے، امریکا کے غیر منافع بخش ادارے نیو امریکا فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار سن دو ہزار چار سے لے کر اب تک، دُہرے اعداد پر ہی مشتمل رہے ہیں ماسوائے سن دو ہزار بارہ کے۔
' لِونگ انڈر دی ڈرون' یا 'ڈرون حملوں میں زندہ' کے عنوان سے اسٹین فورڈ اور نیویارک یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر تحقیق کی تھی جو نو ماہ جاری رہی۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق ڈرون حملوں سے ہونے والے نقصانات سے تقابل کیا جائے تو جتنے ہائی ٹارگیٹ مارے گئے ان کی شرح فیصد بہت کم ہے۔ نیز، ان حملوں کے باوجود عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے بھرتی جاری ہے۔
ساتھ ہی رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی تھی کہ ان حملوں میں گذرنے والی بپتا اور بعد کے تجربات اُنہی کی زبانی جاننے کے لیے، فاٹا کی خواتین تک رسائی نا ممکن ہے۔
پختون روایات، مردوں کو ڈرون حملوں میں ماری جانے والی خواتین کا نام ظاہر کرنے سے روکتی ہیں۔ خواتین کو معاوضہ وصول کرنے کے لیے کسی دوسرے مقام کا سفر، حتیٰ کہ علاج کے لیے بھی کہیں باہر جانے کی اجازت حاصل نہیں۔
مارچ دو ہزار گیارہ میں شمالی وزیرستان کے علاقے دتّہ خیل میں ایک جرگے پر ڈرون حملہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں چالیس سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
حقیقت جاننے کے تشکیل دیے گئے 'فیکٹس فائنڈنگ مشن' کی رپورٹ تھی کہ مرنے والوں میں زیادہ تر قبائلی عمائدین یا حکومت کے مقامی نمائندے شامل تھے۔
جب زندہ بچ جانے والوں سے اُن پر گزرے سانحے کی بپتا جاننا چاہی تو انکشاف ہوا کہ مرنے والے لگ بھگ تمام قبائلی عمائدین اپنے اپنے گھروں کے سربراہ اور کفیل تھے۔
قبائلی عمائدین کو حکومت کی طرف سے کچھ اعزازیہ ملتا تھا اور باقی وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار کر کے گھر چلاتے تھے اور ہر ایک کے گھر میں زیرِ کفالت چھ سے سات بچے تھے۔
وہ جو مارے گئے، اُن کے بیٹے اپنے علاقوں میں مواقعوں کی کمی یا پھر رقم نہ ہونے کے سبب گھروں کی کفالت کے لیے آمدنی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
یہی وہ وجہ ہے کہ جس کے باعث قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر نوجوان وزیری روزگار کے لیے گھروں سے دور جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت مشرقِ وسطیٰ میں محنت مزدوری کررہی ہے۔
صنفی مساوات اور ترقی پر سن دو ہزار بارہ میں اقوامِ متحدہ کی مرتب کردہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ صنفی مساوات کے لیے یہاں خواتین کے کام کرنے کی کوششیں ناکافی ہیں۔ انہیں گھریلو آمدنی پر کوئی اختیار حاصل نہیں خواہ وہ ان کی آمدنی یا پھر بچت سے ہی کیوں نہ حاصل ہوتی ہو۔
ایسے وقت میں کہ جب ملک اپنے سب سے بڑے مسئلے یعنی دہشت گردی سے دوچار ہے تو ایسے میں تعلیم کو استعمال کرتے ہوئے مواقعوں کی تشکیل نہایت مشکل نظر آتی ہے۔
لہٰذا ان حالات میں، دہشت گردی کے باعث گھر کے سربراہ کو کھو دینے والے خاندانوں کی بے سہارا عورتوں اور بچوں کی مدد کے لیے ہنگامی نوعیت کا ایسا کوئی حکومتی منصوبہ ضرور ہونا چاہیے کہ جس کے تحت ان کی زندگیوں کو ازسرِ نو بحال کرنے میں مدد دی جاسکے۔
عالمی یومِ خواتین منانے کے اس موقع پر پاکستان کے یہ وہ معاملات ہیں کہ جن کی طرف حکومت کو دیکھنا چاہیے۔
مضمون گار ہیرالڈ کی اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ [email protected]
ترجمہ: مختار آزاد