عورت کا دن
ہندی-اردو میں سننے کے لئے پلے کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/82334964" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
آج پھر آٹھ مارچ ہے، 365 دنوں میں ایک دن ان عورتون کے نام کا بھی ہو۔ چلو ان عورتوں کو بھی خوش ہونے دو کہ سال میں کوئی دن ان کے نام کا بھی ہوا۔ کہنے کو تو ان کے پیروں تلے جنت بھی رکھ دی گئی یہ الگ بات کہ اس کے حصے میں ساری عمر کا جھلسنا ہی آیا۔
ویسے ہمارے کلچر میں عورتوں کی بڑی عزت ہے، یہ اس کلچر کا احسان کہ کسی رہزن قاتل کے گھر بچیاں لے پہنچو تو جاؤ سات خون بھی معاف مگر اسی عزت کے نام پہ جب جی چاہے کلہاڑی کے ایک ہی جھٹکے میں گردن اڑادو اور معاشرہ اف تک نہ کرے۔
عزت اس سے بھلا سستی اور کیا ہوگی کہ خاندان کی عزت پہ حرف لانے والی ان عورتوں پہ دس روپے کی گولی کے خرچ سے بہ آسانی عزت کی سلامتی کا بھرم رہ جائے۔ اور غیرت کےنام پہ قتل ہونے والیوں کی کیا جنازہ نماز اور کیا کفن دفن، کیا رونا دھونا تو کیا ماتم کرنا، سندھ میں ایسے قبرستانوں کی کوئی کمی نہیں جہاں ایسی عورتوں کے جنازے کسی چارپائی کو کندھا دیتےہوئے نہیں لائے جاتے مگر اکثر خون آلود کپڑوں میں زمین پہ ہی گھسیٹے ہوئے لا کر بغیر کسی جنازے نماز کے بس کھڈہ کھود کر دفنائے جاتے ہیں۔
عزت کی قیمت میں بھلا یہ تکلف بھی کیونکر ہو کہ ان کی قبر کا کوئی نشان ہی چھوڑا جائے۔ ایسی لڑکیوں کی بھلا کیسی قبر جس پہ نہ کوئی کتبہ، نہ نشانِ لحد، ایسی جنم جلیوں پہ کون فاتحہ پڑھنے آئے گا کہ ان کے جنازے پہ تو اس کوکھ جلی ماں کی آنکھیں بھی خشک ہی رہتی ہیں کہ ایسی بیٹیاں تو ان کی کوکھ کے لئے ایک تہمت ہی کی طرح ہوتی ہیں۔
سندہ میں ایسی مائیں چور کی ماؤں کی طرح اپنے آنسو بھی دنیا سے چھپا کر رونے کی عادی بن جاتی ہیں۔ سندہ میں کئی ایسی کاریوں کے قبرستان مشہور ہیں، جھاں پہ نہ کوئی پھول کا چڑہاوا، نہ ہی کسی مسافر کی راہ گذر کا امکان۔ انکی زندگیوں اور جسموں کی طرح خشک اور ویران قبرستانوں میں نہ سہی، مگر آٹھ مارچ کوعورتوں کے دن پہ ہو سکتا ہے کہیں کسی اور جگہ، غیرت میں ماری گئی ان بے نام عورتوں کے نام کا کوئی دیا بھی جلایا جاتا ہو۔
365 دنوں میں یہ ایک دن گھر کی چار دیواری مین شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں سے پٹتی ان عورتوں کے لئے کوئی بڑی خوشخبری تو نہیں لا سکتا جن کی تعداد اب 85 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے مگر گھریلو تشدد پہ بات کرنے سے معاشرہ ناک بھوں چڑھا لیتا ھے کہ اگر گھر میں تشدد کے خلاف قانون کی بات کی گئی تو معاشرے میں طلاقیں بڑھ جائیں گی گویا طلاق، تشدد کے استعمال سے نہیں اس کو روکنے والے ہاتھ سے مشروط ہو۔
کیا کہا جائے کھیتوں میں اور سڑکوں پہ ان مشقت کرتی عورتوں کے لئے جن کی صحت و تعلیم نہ ریاست کا درد سر ہے نہ کبھی کنبے میں سے کسی نے ان کو کمائی کی مشین سے زیادہ کی اہمیت دی ہے۔ یہ محنت کش عورتیں کس طرح خون پسینے سے زندگی کی مشین کو لہو کے ایندھن سے چلاتی رہتی ہیں، یہ حساب رکھنے کو نہ ریاست تیار ہے اور نہ ہی یہ کنبے کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔
عورتوں کا عالمی دن ان کے لئے بھلا کیا پیغام لا سکتا ہے کہ جن کے لیے ہر نئے دن کے سورج سے ایک نئے درد کا آغاز ہوتا ہے۔ اب ان کے نام کا دن منانے کی رسم چل ہی نکلی ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک پرچم ان کے خوابوں کے رنگوں سے بھی مزین ہو۔ مگر دور دراز کی اس دیہاتی عورت کی زندگی کے پاؤں کے چھالوں کی گنتی ابھی بہت مشکل ہے۔
کہنے کو پاکستانی عورت کی جدوجھد بلکہ مزاحمت کے تیس سال منائے جا رہے ہیں مگر بات آگہیِ حقوق سے ذرا آگے بڑھ نہیں پائی ہےکہ مال روڈ پہ پولیس کے ڈنڈوں سے پٹنے والیوں کے بالوں میں چاندی تو اتر آئی مگر انکی جدوجھد و استقلال کے باوجود قانونِ شھادت ابھی تک ٹس سے مس نہ ہونے پایا ہے۔
چادر و چاردیواری سے وہ عورتیں کیا لڑیں تھیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان تیس سالوں میں کیا مرد و زن، ساری قوم چاردیواری میں قید ہو کے اب کونے سے جا لگی ہے۔ پہلے خاکی وردی تھی جس سے لڑائی کی ابتدا ہوئی تھی، جہان سے خواتین کی مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ اب اس کے بہت سے اسٹیک ہولڈر بھی ساتھ ھو لیئے۔
عورتوں کی قید و بند کے لیے نعرہ تو اب بھی وہی پرانا گھسا پٹا اسلام کا ہی ہے جس کی آڑ میں ضیا کی ساری وردی چھپ گئی تھی اور آج تیس سال بعد بھی یہی اسلام کا نعرہ ہے، جس نے ساری دہشت گردی کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔
اب تو وردی کا کام بھی بہت بڑھ گیا ہے کہ سرحدوں کے ساتھ کیک پسٹری کی دکان بھی سنبھالنی ہے تو ایک آنکھ گھر کے اندر کے شرارتی بچے کی طرح اٹکھلیاں کرتے سیاستدانوں پہ بھی رکھنا ہے اس لیے اب عورتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ان کے گماشتوں نے منبر سنبھال لیا ہے۔ ان کے لئیے خطبوں میں امریکہ کے ساتھ عورت کو برائی کی جڑ قرار دیتے ہوئے ہر جمعے کو اس کے خلاف جھاد کی تلقین کرنا ادائیگیِ فرض ٹھرا۔
آٹھ مارچ کو جشن مناتی عورتوں کوذرا خبردار کرو کہ انکی جنگ اب طویل ہوئی چاہتی ہے کہ صرف ریاست و قوانین ہی سے نہیں اب جنگ گھر کے اس فرد، سڑک کے مرد اور ساتھ کام کرنے والے اس ساتھی سے بھی ہے جو ان خطبوں کا زہر لیے تمہیں زیر کرنے، دوبارہ گھر میں قید کرنے کے در پے ہے اور قوانین کے برعکس اس کا ہتھیار فقط اور فقط تشدد ہے۔
آٹھ مارچ پہ رقصاں عورتو!! تمھاری جنگ ابھی باقی ہے کہ اس تشدد کے سماج میں مذمت ابھی عام نہیں ہوئی۔
امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔