• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اکیسویں صدی میں سسکتی عورت

شائع March 8, 2013

cr_mega_229_INacid 670
انڈیا کی سونالی مکھرجی، تیزاب کے حملے سے جس کا چہرہ جھلسادیا گیا، رائٹرز کی نمائندہ کے ہمراہ۔ —. فوٹو رائٹرز

آج جبکہ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو اُدھر امریکہ ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے سیئٹل ٹائمز نے یہ رپورٹ شایع کی ہے کہ پچھلی دہائی کے مقابلے میں اب خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی شرح میں چونسٹھ فیصد تک کمی آئی ہے۔

بیورو آف جسٹس کی جانب سے ایک سروے کے اعداد و شمار جمعرات کو جاری کیے گئے جس کے مطابق امریکہ بھر میں سن دو ہزار کے دوران دو لاکھ ستر ہزارجنسی زیادتی اور جنسی تشدد کے کیس سامنے آئے جبکہ 1995ء کے دوران اس طرح کے کیسز کی تعداد پانچ لاکھ چھپن ہزار تھی۔

لیکن کیا اس تعداد کو جو چونسٹھ فیصد کمی کے بعد سامنے آئی ہے، کسی بھی طرح اطمینان بخش قرار دیا جاسکتا ہے؟

یہ اس ملک کا حال ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور سپرپاور ملک ہے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جارہا ہوگا؟

تشدد سے آزاد زندگی تمام انسانوں کا لازمی حق ہے، لیکن لاکھوں خواتین اور نوجوان لڑکیاں تشدد سے دوچار ہیں چاہے امن ہو یا تصادم کی صورتحال ہو، کہیں ان پر ریاست اپنے بعض قوانین کے ذریعے ظلم سے دوچار کیے ہوئے ہے تو کہیں وہ گھر میں اپنوں کے یا معاشرے میں غیروں کے ستم کا شکار ہیں۔

مثال کے طور پر ایتھوپیا میں اکیاسی فیصد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے شوہروں کی جانب سے ان پر کیا جانے والا تشدد ان کے شوہر کا حق ہے، گنی میں ساٹھ فیصد خواتین ایسا سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان میں ہر پانچویں عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔

خواتین اور لڑکیوں پر تشدد محض انسانی حقوق  کا معاملہ نہیں رہا بلکہ اب اسے معاشی ترقی میں ایک اہم  رکاوٹ سمجھا جانے لگا ہے۔

آج اکیسویں صدی میں بھی خواتین دنیا بھر میں  ان پڑھ لوگوں کی کل تعداد  کا ستر فیصد حصہ ہیں، اور آئندہ بھی صورتحال میں بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کہ ساٹھ فیصد کم عمر لڑکیاں یا تو اسکول چھوڑ چکی ہیں یا غربت کی وجہ سے اسکول کی تعلیم ان کی استطاعت سے باہر ہے۔

آج بھی ہر ایک منٹ پر ایک حاملہ عورت اولاد کو جنم دینے کے عمل کے دوران یا نامناسب علاج معالجہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہوجاتی ہے۔  آج ترقی پذیر ممالک کی تیس فیصد خواتین ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں دیہاتی خواتین کی نوّے فیصد لیبر فورس کو گھریلو عورت یعنی ہاؤس وائف ہی کہا جاتا ہے۔

پاکستان، انڈیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے ساتھ جس طرز کے رویے عام ہیں، اس میں لعن طعن، گالم گلوچ، مار پیٹ کا تو شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ جب نوبت جان لینے تک جاپہنچتی ہے تو اس کو بڑی خبر میں شمار کیا جاتا ہے، تب محلے کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ اس گھر میں عورتوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا رہا ہے، ورنہ باقی چیزوں کو معمول کی کارروائی ہی سمجھا جاتا ہے۔

پسماندہ علاقوں اور دیہاتوں میں خواتین کے سر مونڈنے، ناک، کان، زبان کاٹ دینے اور سر عام کپڑے اتارنے سے لے کر کم سن بچيوں اور یہاں تک کہ ضعیف العمر خواتین کے ساتھ انتقامی اور اجتماعی ريپ کے واقعات عام ہیں۔

ہڈياں توڑنے، اعضاء کاٹنے، زندہ جلانے اور مارنے کے بعد ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے  کردینے تک کے بھيانک ظلم و تشددکی خبریں آئے دن رپورٹ ہوتی رہتی  ہيں۔

ايسے واقعات میں کمی نہیں آرہی ہے بلکہ ان میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان میں خواتین پر تشدد کے بھيانک واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک اہم اور بنیادی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بدعنوان ہونا اور عدالتی نظام کی سستی ہے۔ انصاف کا مساویانہ نظام نہ ہونے اور عدم تحفظ کی صورتحال برقرار رہنے سے ظالم کے ہاتھ مضبوط ہوگئے  ہيں ۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کا شکار عورت ظلم سہتے سہتے مرجاتی ہے اور ظالم غیر مؤثر نظام عدل کے وجہ سے محفوظ رہتا ہےا ور اس کاظلم کا دائرہ روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024