کرپشن کا ناسور
کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں- اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں- ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بد عنوانی ہے-
کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے- ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے-
کرپشن آکاس بیل کی طرح سے ہے یعنی وہ زرد بیل جو درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے- یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا- یہاں تک کہ معاشرہ کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے-
کسی برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے- اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں- بد عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں- کوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے-
مسلح افواج اور عدلیہ جنہیں معاشرہ اپنا خون پلا کر پالتا ہے تاکہ یہ مدافعتی نظام بن کر اسکی حفاظت کریں، وہ خود حملہ آور لٹیرے کے ساتھ مل جاتے ہیں- یوں جسم کے یہ دفاعی خلیے باہر سے آنے والے حملہ آور کا مقابلہ کرنے کی بجاے اپنے جسم پر حملہ کر دیتے ہیں، جس کی حفاظت کے لئے ان کو مامور کیا گیا تھا-
ہمارا معاملہ یوں ہے کہ کرپشن کسی جڑواں بچے کی طرح پاکستان کے بنتے ہی ساتھ آ گئی تھی- وہ لوگ جو آج معاشرہ میں امتیازی حیثیت کے مالک ہیں، پاکستان کے ابتدائی دنوں کی تاریخ کو بڑی احتیاط سے چھپاتے ہیں- یہ لوگ کرپشن کے خلاف تقریریں تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کی وجوہات اور پیدائش پر بات نہیں کرتے- یہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا وہ افسوس ناک باب ہے جس میں ہماری کرپشن، موقع پرستی، مذہبی بلیک میل اور بے حسی کی جڑیں چھپی ہیں-
ہماری قیادت کو ان مسائل کا شائد کوئی تصور ہی نہ تھا جو ہمارے عوام کو تقسیم ہند کے وقت پیش آنے والے تھے- چنانچہ مہاجروں کی آباد کاری کا کوئی ٹھوس منصوبہ موجود نہ تھا-
عین اس وقت جب ہمارے لہو میں نہاے ہوئے مہاجر کیمپوں میں پڑے سڑ رہے تھے تو ملک کے طول و عرض میں ہندووں اور سکھوں کی متروکہ املاک کی لوٹ مار یوں جاری تھی جیسے عید کا تہوار ہو- چالاک موقع پرستوں کی چاندی ہو رہی تھی- لیڈر لوگ بحالیات کے دفتروں میں بیٹھے اپنے حصّوں کی سودے بازی کر رہے تھے- کیمپوں میں ہونے والے جنسی جرائم کی گندی کہانیاں بھی گردش میں تھیں- یہ سب کچھ پراپرٹی کلیم شروع ہونے سے پہلے کی بات ہے-
پھر پراپرٹی کلیم کی کہانی شروع ہوئی- لیکن پراپرٹی کلیم کیا تھا؟
بے شمار مسلم عوام تھے جنہوں نے اپنے اس نئے وطن پاکستان کے لئے ہندوستان سے ہجرت کی- ان میں بہت سے ایسے تھے جو بھارت میں اپنے گھر اور جائداد چھوڑ آے تھے- لیکن ان گنت ایسے بھی تھے جن کا وہاں کچھ بھی نہ تھا یا بہت معمولی تھا- گرچہ حقائق معلوم کرنے کا کوئی قابل اعتماد طریقه موجود نہ تھا پھر بھی ہر شخص کو یہ دعویٰ کرنے کا حق تھا کہ اسنے ہندوستان میں یہ چھوڑا اور وہ چھوڑا اور اسے پاکستان میں اس کے برابر ملنا چاھیئے- اس کا نام کلیم تھا- لیکن لوگ اپنا کلیم کیسے ثابت کرتے تھے؟ ظاہر ہے کسی کے پاس ملکیت کا کوئی کاغذ نہ تھا-
ایسی صورت حال میں جھوٹی کہانیوں کی گنجائش موجود تھی جس کی تصدیق کے لئے ذاتی گواہی کے سوا کچھ موجود نہ تھا- اور اسکی بھی کچھ ایسی مجبوری نہ تھی، کیونکہ کوئی "ہمدرد" افسر، تحریک پاکستان کا کوئی کارکن یا کوئی سیاسی رہنما آپ کا کلیم منظور کر کے آپ کی تقدیر بدل سکتا تھا-
چنانچہ ہندووں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی شہری اور دیہی ملکیتیں، رہائشی اور کاروباری جائیدادیں، فضل ربی بن کر ایسے ایسے لوگوں کے ہاتھ لگیں جن کا کوئی استحقاق نہ تھا- سب سے زیادہ ننگے انداز میں یہ عمل صنعتی، تجارتی اور کاروباری شعبوں میں سر زد ہوا جہاں مسلمانوں کو کوئی تجربہ نہ تھا یا بہت کم تجربہ تھا- چنانچہ جو نیا کاروباری طبقہ پیدا ہوا اسے کاروبار کے اصولوں، اسکی اخلاقیات اور اسکے مزاج کے بارے میں تربیت دینے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا -
برطانوی حکومت سے پہلے بر صغیر میں مسلمانوں کا مزاج بالعموم جاگیردارانہ اور زراعتی تھا، بعد کی صدیوں میں زیادہ تر وقت مسلمان مزاحمت اور علیحدگی کی تحریکوں میں رھے، صرف ایک محدود سا طبقہ سول سروس اور فوج میں شامل ہوا-
اس سارے دور میں مسلم خطیبوں اور ڈاکٹر اقبال جیسے شاعروں کے ولولہ انگیز پیغام نے ہمارے مجاہدانہ مزاج کو اور گہرا کر دیا- لہٰذا ہمارے کاروباری طبقوں میں جاگیردارای اور جنگی مزاج قائم رہا اور ایک حقیقی کاروباری طبقہ کے جمہوری مزاج کی کمی رہی-
بر صغیر میں مسلمان صدیوں سے ہندو کاروباری طبقہ کو حقارت سے "بنیا" کہتے آئے تھے، اور انھیں رئیس اور سپاہی ہونے پر فخر رہا تھا- لہٰذا ہمارے کاروباری طبقوں اور سول سروس کے لئے بالکل فطری تھا کہ وہ جاگیرداروں، جرنیلوں اور دینی علماء کو اپنے راہ نما مانتے-
زرعی رؤسا جن میں سے اکثر کرپشن کے موجد تھے، جنہوں نے خالص ذاتی مفادات کے لئے انگریز کی خدمات کی تھی، اس نئی سرزمین میں خوش اور محفوظ تھے کہ جہاں نہ تو زرعی اصلاحات کا خوف تھا نہ احتساب کا-
یہ تھی صورت حالات جس میں پرمٹ، لائسنس اور الاٹمنٹوں کا ہنگامہ شروع ہوا- جلد ہی امریکی امداد کا دھارا بھی بہنے لگا- اب اوپر کے طبقوں یعنی حکمرانیه کے لئے کھلا میدان تھا- آسان کمائی کی غلیظ دوڑ کا آغاز ہوا، جس نے "راتوں رات امیر" ہو جانے کے خواب ہماری نفسیات میں گوندھ ڈالے-
بعد کی ساری تاریخ کرپشن اور اقربا پروری کے افسانوں اور کہانیوں سے اٹی پڑی ہے- آج ہمیں حیرت ہوتی ہے کے آخر کرپشن کی شکایتیں کرنے اور ایک دوسرے پر فرد جرم عائد کرنے کا جواز کیا ہے- لیکن سچ یہ ہے کہ اس کا جواز موجود ہے- نرگسیت سے بھرے معاشرہ میں ایسا عمل فطری ہے- کیونکہ نرگسیت کے مریض کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنا جرم دوسروں پر ڈال دے-
پاکستان میں کرپشن صحت مندی کی علامت بن گئی ہے، ایک ایسا عمل جو ذہانت کا معیار ہے ، سماج میں موزوں ہونے کا ثبوت ہے- لیکن ساتھ ہی ساتھ کرپشن کو گالی دینا بھی اتنا ہی معیاری اور موزوں ہے- ہم میں سے ہر ایک کے پاس دوسرے کی کرپشن کے "ٹھوس" ثبوتوں کے ساتھ ایک فہرست موجود ہوتی ہے جس کے ساتھ ہی ویسی ہی "کامیابیوں" کی آرزو ہمارے دل میں مچلتی ہے-
عمل اور فکر کا یہ تضاد یعنی ہاتھ سے کرنے اور زبان سے کوسنے کا یہ عمل اس ریا کاری کو جنم دیتا ہے جو بد عملی کو دوام بخشتی ہے- ایک ایسا معاشرہ جو ایک شاندار دین پر ایمان رکھتا ہے لیکن جن اصولوں کی تعظیم کرتا ہے عمل میں ان کے مخالف چلتا ہے، اسے ضمیر کی آسودگی کے لئے کسی بڑی تسلی کی ضرورت پڑتی ہے- لہذا ہماری حکمرانیه نے معاشرہ کے لئے نمازوں اور حج کی رسوم پر مبنی نمائشی اسلام کو بڑھاوا دیا ہے - اس سے ہم اپنے ہر روز کے احساس ندامت کو دھو لیتے ہیں تاکہ ہر نئی صبح ہلکے پھلکے ہو کر پھر سے وہی کرنے نکلیں جو کل دھویا تھا-
کیا اس حالت سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
ہاں، ہرنئی نسل بھلائی پر ایمان اورمعصوم جذبے لیکر پاکیزہ پیدا ہوتی ہے- یہ معاشرہ جس میں وزیر اعظم سے قاصد تک اور مل مالک سے دہاڑی دار معاون تک تقریباً ہر کوئی تر بہ تر ہے اور نچڑ رہا ہے، یہاں نئی نسل کی رہنمائی کے لئے شاید کوئی موجود نہیں- انھیں مستقبل کی تعمیر کے لئے بڑی توجہ سے اپنے رستے بنانا ہونگے-
اچھے معاشروں کا مطالعہ اور ذہانت سے پوچھے جانے والے سوال وہ اوزار ہیں جو راستہ بنانے میں مدد دے سکتے ہیں- جمہوریت نئی نسل کو اپنا رول ادا کرنے کے لئے میدان مہیا کر سکتی ہے- ہمیں امید ہے نئی نسلیں سائنس اور تخلیق کی دنیا کے ساتھ جینے کا فیصلہ کریں گی جو ایسا واحد راستہ ہے جو کرپشن سے آزاد ہے-
پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.