"جو بھی دیکھا، بہت خوفناک تھا"
کراچی: انتہائی حوصلہ شکن سانحے کے ایک دن بعد عباس ٹاؤن کی یہ سڑک لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ قریبی علاقوں میں مقیم رضاکار اور کم عمر لڑکے ایسے گھرانوں کو دیکھ رہے تھے جنہیں مدد کی ضرورت ہے، تاکہ وہ انہیں ان کے عزیزوں کے پاس پہنچا سکیں۔
پیر کے دن بھی پولیس اور رینجرز نے اپنی عدم موجودگی سے اپنی متنازعہ حیثیت کو نمایاں کردیا تھا۔
نہ ان کے پیٹ میں ایک لقمہ کھانے کا گیا تھا اور نہ ہی ان کی آنکھ جھپکی تھی، بھوکے پیاسے اور رات بھر کے جاگے ہوئے یہ لوگ اپنی رشتہ داروں، دوستوں یا پڑوسیوں کے لیے ہسپتالوں میں بھاگ دوڑ کرتے رہے تھے۔
ان میں سے بہت سے جب صبح اپنے گھروں کو لوٹے تو ان کی بہت سی قیمتی اشیاء چوری ہوچکی تھیں۔
گروپس میں سمٹا ہوا ہر گھرانہ اپنے سامان کو جمع کرکے باندھنے میں مصروف تھا اور بار بار اس کا جائزہ لے رہے تھے، ان میں سے بہت سے گھرانوں نے اپنا بہت سا قیمتی سامان گزری رات میں کھودیا تھا۔
اڑتالیس برس کی نازش فاطمہ اپنے ایک عزیز کے ہمراہ ملبے سے اپنا سامان اکھٹا کرنے اور اس کو گننے میں مصروف تھیں۔
وہ اپنے بائیس سال کے نوجوان بیٹے محمد وجیہہ عابدی کو گھر پر چھوڑ کر مغرب کی نماز سے قبل ایک مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا“جب دھماکہ ہوا تو وہ اپارٹمنٹس میں ایک بچے کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا۔”
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا، ان کے گھر کا پچھلا تمام حصہ نیچے گر گیا، ساتھ ہی پانی کی ٹنکی، اور گھر کے اہم رہائشی حصے کی دیوار بھی گرچکی تھی، سوائے ڈرائنگ روم کے جہاں وجیہہ اپنے کم عمر اسٹوڈنٹ کو پڑھا رہا تھا۔
وجیہہ نے اس بچے کو اُٹھایا اور ننگے پیر ہی دوسری منزل سے نیچے کی طرف بھاگا، اس دوران فرش پر بکھرے ہوئے کانچ کے ٹکڑوں سے وہ معمولی زخمی ہوگیا تھا۔
چار منزلہ اپارٹمنٹ کی عمارت کا اندرونی حصہ بھی جزوی طور پر تباہ ہوا تھا، کچھ رہائشی حصہ اور سیڑھیوں کی چھوٹی سے جگہ، اور پچھلا حصہ مکمل طور پرتباہ ہوچکا تھا۔
بالکونیوں میں لگی لوہے کی جالیاں نیچے لٹک رہی تھیں یا گرگئی تھیں۔ اس اپارٹمنٹس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے دھماکے کی آواز سنی اور گیس کے اخراج سے پھیلنے والی بدبو محسوس کی۔
دیواروں پر خون کے چھینٹے نظر آرہے تھے، ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں اور الماریوں کے ٹکڑے پہلی منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں بکھرے ہوئے تھے۔
چوبیس سالہ سید عزیر خان نے ڈان کو بتایا“یہ میری بہن کا گھر ہے”۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے تمام افراد لیاقت نیشنل ہاسپٹل میں داخل ہیں۔
“میری بہن کے سر میں زخم آئے تھےاور میرے ایک سالہ بھانجے کی پیٹھ میں شیشے کا ٹکڑا گھس جانے سے گہرا زخم آیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ لیاقت نیشنل ہاسپٹل میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کو عباسی لے کر جانا پڑا۔
“وہ لوگ کچھ دن ہسپتال میں رہیں گے، پھر ہم انہیں اپنے گھر لے جائیں گے، ویسے بھی اب یہاں باقی ہی کیا بچا ہے؟”
اس نے پھٹی اور گری ہوئی دیواروں کے درمیان ٹوٹے ہوئے فرنیچر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ صرف ایک چیز ایسی ہے جو عزیر یہاں سے لے جانا چاہیں گے، اور جو سب سے زیادہ محفوظ رہی، وہ تھا ایک توتے کا بچہ، جو محض تین دن پہلے پیدا ہوا تھا۔“
میں حیرت زدہ ہوں کہ یہ کیسے بچ گیا۔میں نے سوچا ہے کہ میں اسے اپنے ہمراہ لے جاؤں گا۔ لیکن یہ واحد چیز ہوگی، اس سے میرا بھانجا خوش ہوجائے گا اور میں نے اسے خریدا ہی اس کے لیے تھا۔
اس سے اگلی منزل پر عرفان الحق فون پر اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ“فوری طور پر ایک سستے کرائے کے گھر کا بندوبست کردو، چار سال کے لیے۔”
عرفان اپنے تین بھائیوں کےساتھ اس اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ“چند مہینے کا عرصہ باقی تھا کہ اس گھر کے مالکانہ حقوق مل جاتے، لیکن خیر، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا تھا۔”
اگرچہ وہ رات ہونے سے پہلے ہی اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ ایک رشتہ دار کے ہاں منتقل ہوگئے تھے، اب وہ ایک نئے گھر کے لیے کوشش کررہے تھے، جلد اور بہتر۔
“آخر کتنے دن ہمارے رشتہ دار ہماری مدد کریں گے؟ان کے لیے ان کے اپنے مسئلے بہت ہیں۔ نیا گھر حاصل کرنا ہی میری پریشانی ہے، خدا کا شکر ہے کہ میرے گھر کا کوئی فرد زخمی نہیں ہوا۔”
یہاں سےمنتقل ہونے سے قبل عرفان نے اپنی پوری تسلّی کرلی تھی کہ ہر چیز محفوظ ہے۔
“ہم نے چوروں سے اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹوٹے ہوئے دروازے کا استعمال کیا۔”
انہوں نے ایک ٹوٹا ہوادروازہ دکھایا، جوکھڑکی کی جگہ میں پھنسایا ہوا تھا۔
پچاس سالہ ذکیہ بیگم جو رابعہ فلاور اپارٹمنٹس میں گزشتہ دس سال سے مقیم ہیں، پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
انہوں نے گزرے ہوئے خوفناک لمحات کوبیان کرتے ہوئے کہا“میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ بچے اس کمرے میں نہیں تھے، جس کی دیوار گرگئی تھی۔وہ ایک دوسرے کمرے میں ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔”
وہ ملبے کے ایک ڈھیر کے درمیان کھڑی تھیں، اس میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو ان کمرے میں استعمال کرتی تھیں۔
ذکیہ اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراہ شہر سے باہر گئی ہوئی تھیں، انہوں نے پڑوس میں ڈالی ہوئی کمیٹی کے پچاس ہزارروپے حفاظت سے رکھے ہوئے تھے، انہوں نے بتایا“وہ رقم اب کہیں بھی نہیں مل رہی۔”
اسی طرح فاطمہ کے شوہر جب نقصان کا جائزہ لینے کے لیے واپس آئے تو انہیں پتہ چلا کہ بہت سی چیزیں جن میں سونے کے زیورات اور بچائی گئی رقم موجود نہیں ہے۔
“مجھ پر سکتہ سا طاری ہوگیا، میں اپنی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ ہم نے کئی مرتبہ تلاش کیا، پھر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کسی نے چوری کرلیے ہیں۔” فاطمہ نے متذبذب لہجے میں کہا۔
یہاں کے کچھ رہائشی عجلت میں اپنا سامان سمیٹ کر چلے گئے، اور بہت سی چیزیں یہیں چھوڑ گئے، اس لیے کہ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ عمارت کسی بھی لمحے گرسکتی ہے۔
لیکن عرفان نے یہ سن کر ایسی کسی بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، بہت سے خاندان پہلے ہی اپنے گھروں کو تالا لگا نے کے بعد اس عمارت کو چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
مرکزی سڑک پر لوگوں کی بڑی تعداد اکھٹا تھی، اور بلڈنگ کی حالت کو دیکھ رہے تھے۔
بڑی عمر کے مرد اور نوجوان رضاکار ملبے کی صفائی میں مصروف تھے، تاکہ کسی کی لاش اگر پچھلی رات رہ گئی ہو تو نکالی جاسکے۔
اڑتیس سالہ عاصمہ شاہ جو یہاں کی رہائشی بھی ہیں اور رضاکارانہ طور پر اتوار کی رات سے ہی بہت سے خاندانوں کی مدد کررہی ہیں، وہ سرکاری حکام کی طرف سے لاتعلقی اور انسانی ہمدردی کے جذبات کی کمی کے حوالے سے سخت ناراض تھیں۔
“اگر شہر کے کسی دوسرے حصے میں کوئی تقریب ہورہی تھی تو اس کو اسی وقت ختم کردیا جاتا اور اس جگہ توجہ مرکوز کی جاتی جہاں اس وقت ضرورت تھی۔”
یہ پورے عباس ٹاؤن میں بڑا تجارتی علاقہ ہے، اور یہاں کے پکوانوں اور دیگر غذائی اشیاء کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
اس وقت وہ آسیب زدہ سا معلوم ہورہا تھا، زیادہ تر دکانیں تباہ ہوگئی تھیں،ان کے دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشے سڑک پر بکھرے ہوئے تھے۔
پڑوسی ان دکانوں کے مالکوں کو تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے، جو اپنی خالی دکانوں کو خاموشی سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جارہے تھے، وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے اور کچھ کہنے کے قابل نہیں رہے تھے۔
ساٹھ سالہ حیدر جعفری جو عباس ٹاؤن کے آخری حصے میں رہتے ہیں، نے بتایا کہ وہ دس منٹ قبل انچولی جانے کے لیے اسی جگہ سے گزرے تھے ۔ اس وقت یہاں بہت رش تھا، جیسا کہ اتوار کے دن یہاں کا معمول ہے۔
انہوں نے کہا“اچانک میں نے دھماکے کی آواز سنی تو میں واپس پلٹا کہ لوگوں کی مدد کی جاسکے، تو میں نے بچوں اور نوجوانوں کو دیکھا جو مدد کے لیے پکار رہے تھے، درمیان میں سر کے بغیر لاشیں پڑی ہوئی تھیں، میں نے جو کچھ بھی دیکھا وہ بہت خوفناک تھا، میں اسے کبھی بھی بھلا نہیں سکوں گا۔” یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو چھلک پڑے۔
تبصرے (1) بند ہیں