سندھ کی طلباء تحریک
سندھ کی طلباء سیاست کے کھاتے میں اب اچھائیاں کم اور برائیاں زیادہ آ گئی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی اچھائی چار مارچ کا واقعہ ہے جس کے اثرات تقریبا آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوسکے ہیں۔اس وقعہ نے نہ صرف طلبا تحریک بلکہ سیاست میں بھی نئیرجحانات پیدا کئے۔
4 مارچ 1967ع کوسندھ کے طلباء نے ون یونٹ اور ایوب خان کی آمریت کے خلاف احتجاج کیا ۔ اس احتجاج نے بعد میں سندھ میں تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ سندھی قوم پرستی اور سندھ میں سیاسی شعور اسی طلبا تحریک کا تسلسل ہے۔
بظاہر طلبا سندھ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کے تبادلے اور ان کی جگہ پر کمشنر حیدرآباد مسرور احسن کی تقرر پر ناراض تھے انہوں نے یونیورسٹی کے جامشورو کیمپس سے حیدرآباد شہر تک جلوس نکالا۔ طلباء کمشنر مسرور احسن، ایوب خان اور ون یونٹ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اور کمشنر کی بطور وائیس چانسلر مقرری کو یونیورسٹی کے معاملات میں براہ راست مداخلت قرار دے رہے تھے۔
ابھی طلبا کا یہ جلوس راستے میں ہی تھا کہ موجودہ راجپوتانہ ہسپتال کے پاس پولیس کی بڑی نفری نے انہیں گھیر لیا اورلاٹھی چارج کیا، آنسو گیس پھینکی۔ بعض حلقوں کا کہان ہے کہ پولیس نے فائرنگ بھی کی۔ پولیس کارروائی میں درجنوں طلباء زخمی ہوئے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس واقع سے سندھ بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔حیدرآباد اور دیگر بعض شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ چند روز کے بعد عوامی دباؤ کے باعث گرفتار طلبہ کو رہا کرنا پڑا۔
آگے چل کر یہ واقعہ تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ اس تحریک نے درجنوں طالب علم رہنما پیدا کئے جنہوں نے بعد میں سندھ کی طلباء تحریک اور سیاست میں کام کیا۔ ان میں جام ساقی ،یوسف لغاری، مسعود نورانی ، مجیب پیرزادو، مسعود پیرزادو، علی احمد بروہی، ندیم اختر، لالا قادر، رفیق صفی شامل ہیں۔ سوائے لالا قادر کے باقی ی سب صاحبان ابھی تک حیات کی قید میں ہیں اور اکثر نے اس واقع پر لکھا بھی ہے۔
ستر کے عشرے میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو راجپوتانہ ہسپتال کے قریب اس مقام پر یادگار تعمیر کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھا۔ جسے جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے توڑ دیا۔ یوں سندھ کی طلبا تحریک کا یہ یادگار تعمیر نہ ہو سکا۔
سندھ کی طلبا تحریک کی شاندار تاریخ ہے۔ اس تحریک کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی میں ہوا۔ تمام بڑی طلبا تنظیمیں اس واقعہ کے بعد بنیں۔ اور طلباء تحریک میں بنیادی تبدیلیاں آئی اور جوش و خروش پیدا ہوا۔
اس تحریک کے رہنما جام ساقی جو ایک عرصے تک طلبا سیاست کے ساتھ رہے اور سندھ کے نوجوانوں کو انسپائر کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جدوجہد سندھ کے حقوق کی جدوجہد تھی۔ بظاہر یہ احتجاج وائیس چانسلر کے معاملے پر تھا لیکن اس احتجاج سے ون یونٹ اور ایوب خان کے خلاف جو لاوا پک رہا تھا وہ پھٹ پڑا۔ جس میں سندھ کے دوسرے طبقے خاص طور پر ادیب اور شاعر شامل ہوگئے۔ اور سندھ بھر میں لطیف ڈے اور سندھی شام منائی جانے لگی جس سے بڑے پیمانے پر موبلائزیشن ہوئی۔
جام ساقی کے مطابق اس واقعہ کے بعد سندھیت اور سندھ کے حقوق کا باقاعدہ تصور لوگوں کو سمجھ میں آیا۔ اس شعور کا فائدہ بھٹو اور جی ایم سید دونوں نے اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ کے نوجوانوں کے جذبے اور سرگرمی پر حکومت بہت پریشان ہوگئی اور اس نے پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ سندھ مہاجر جھگڑے اس حکمت عملی کا نتیجہ تھے ۔
جیئے سندھ محاذ کے چیئرمین خالق جونیجو ایک عرصے تک طلباء تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چار مارچ صرف طلباء تحریک کا ہی نہیں بلکہ سندھ کے نئے پیدا ہونے والے متوسطہ طبقے کا ابھار تھا۔طلبا تحریک نے اپنے دور میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یوں متوسط طبقے کو سوسائٹی میں جگہ بھی ملی۔
اس تسلسل برقرارنہ رہ سکنے کے بارے میں انکا کہنا ہے کہ طلبہ مستقل طبقہ نہیں ہر سال طلباء کی ایک سے کھیپ اس دائرے سے باہر جاتی ہے۔ اس کے لازمی طور پر اثرات پڑے۔ طلباء متوسط طبقے کے دائرے میں آتے ہیں لہٰذا اس طبقے کی کجرویاں ادھر بھی پائی جاتی ہیں جو کسی تحریک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔
خالق جونیجو کے مطابق طلباء کی تحریک اس وجہ سے بھی بڑی لگتی ہے کہ تب حقوق کے لیے تعلیمی اداروں سے ہی آواز اٹھ رہی تھی۔ اور سیاسی ور مزاحمتی سرگرمیوں کا مرکز تعلیمی ادارے بن گئے تھے۔ جب یہ سرگرمیاں عام ہوئیں سماج کے دوسرے طبقے بھی سرگرم ہوئے تو سیاست کا مرکز تعلیمی اداروں سے باہر نکلا۔
طلباء تحریک میں بگاڑ کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ سندھ کی قومی تحریک نے تعلیم اداروں سے جنم لیا۔ لہٰذا حکمرانوں نے اس کو کچلنے کے لیے تعلیمی اداروں کو ہی ٹارگٹ بنایا۔ آگے چل کر تعلیمی ادارے جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن گئے۔ یہ سب کچھ سازش کے تحت کیا گیا۔ جس کو قومی تحریک اور طلباء قیادت بروقت چیک نہ کرسکی۔ صورتحال یہ جاکر بنی کہ طلباء سیاست معنی چوری، بھتہ خوری وغیرہ۔ پہلے طالبعلم رہنما اچھے طلبا بھی ہوتے تھے۔مگر اب تو یہ رہنما طالب علم ہی نہیں ہوتے۔
دانشور انعام شیخ کا کہنا ہے کہ ساٹھ ستر اور اسی کے عشروں میں طلباء سیاست میں ایک نظریہ، تعلیم اور جذبہ ہوتا تھا۔ بعد میں جرائم کا عنصر داخل ہوا، اور یہ سیاست جرائم کو تحفظ دینے کاذریعہ بن گئی۔ اب طلباء تنظیموں کے پاس بلند نعرے اور دعوے تو ہیں مگر عملا سماج کو کنٹری بیوٹ نہیں کر رہی ہیں۔
انعام شیخ کے مطابق طلباء سیاست کوئی تن تنہا سرگرمی نہیں ہوتی ۔پہلے یہ سیاست سماج کے دوسرے فیبرکس کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ اور اپنی مدر آرگنائزیشن سے مربوط طور پر منسلک ہوتی تھی۔ جو سوسائٹی اور عام لوگوں کی نجات کے لیے پورے جذبے اور سچائی کے ساتھ کام مصروف عمل ہوتی تھیں۔ بعد میں بڑے پیمانے پر بغیر مدر آرگنائزیشن کے طلباء تنظیمیں بنیں۔ لہٰذا ان پر نہ کوئی چیک ہوتا تھا اور نہ ہی احتساب۔ اس بات نے طلباء تحریک کو بغیر جڑ کے بنا دیا۔
بگاڑ کے اسباب بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے ایک ہی سطح کے لوگ تنظیموں میں ہوتے تھے اور فیصلے اجتماعی طور پر ہوتے تھے۔ آگے چل کر یہ منظر تبدیل ہوا۔ فیصلہ کرنے والے ایک یا دو آدمی ہوتے تھے اور وہ بھی ایسے جن کے پاس قوت بازو ہو۔
جیئے سندھ محاذ کے وائیس چیئرمین آصف بالادی کا خیال ہے کہ طلباء سیاست میں پھوٹ ڈالنے کا عمل ستر کے عشرے میں پیپلز پارٹی کے حکومت میں شروع ہوا۔ بعد میں جنرل ضیا نے اس کو مزید پرواں چڑھایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایم آرڈی تحریک کے بعددانستہ طورپر جرائم کے عنصر کو طلباء سیاست میں داخل کیا گیا۔ جس سے قوم پرست تنظیمیں زیادہ متاثر ہوئیں۔ یہاں تک کہ سوائے کیمونسٹ پارٹی کی طلباء ونگ کے، باقی سب تنظیمیں اس کی لپیٹ میں آ گئیں۔اس منفی رجحان نے نوے کے عشرے تک اثرات چھوڑے۔
جیئے سندھ قومی محاذ کے رہنما کا کہنا ہے کہ آج طلباء بے لغام اس وجہ سے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جو مدر آرگنائزیشن کہلاتی ہیں، انہوں نے طلباء ونگ کو نظر انداز کیاہوا ہے۔ وہ اب طلبہ یا طلباء ونگ کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کیونکہ اب سماج کی ساخت یہ بنی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کو نچلے یا درمیانی نچلے طبقے سے کارکنان مل جاتے ہیں۔ اب ان جماعتوں کی طلباء ونگ میں80کے عشرے والی دلچسپی نہیں رہی ۔ پہلے وہ مکمل طور پر ان طلبا پر انحصار کرتی تھیں۔ تب پارٹی کے سینئر قیادت ان کے اسٹڈی سرکل لیتے تھے لیکچر دیتے تھے۔ راتوں کو محفلیں اور بحث کرتے تھے۔ اب سیاسی جماعتوں نے اپنا یہ رول ختم کردیا ہے۔ لہٰذا طلباء تنظیمیں بے راہ روی کا شکار ہیں۔ اب یہ تنظیمیں سیاسی، علمی اور عملی طور پر بہت ہی کمزور ہیں۔
آصف بالادی کا کہنا ہے کہ اس کے دو اور نقصانات بھی ہوئے۔ ایک یہ طلباء اب سنجیدہ سیاستدانوں کے اثر میں نہیں رہے۔ دوسرا یہ کہ پہلے ہر مرتبہ سو میں سے دس پندرہ ایسے نوجوان ابھر کر آتے تھے جو آگے چل کر سیاست میں سرگرم رہتے تھے اور قیادت کرتے تھے۔ اب تو یہ سیاسی کیڈر نکلنے کے یہ سرچشمے بھی سوک گئے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود سندھ کی طلباء تحریک کا شنادار ماضی رہا ہے اور طلبا نے جہموری تحریک اور قومی حقوق کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں سیایس شعور پیدا کرنے اور انہیں متحرک کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آج سندھ میں جو سیاسی شعور پایا جاتا ہے اس کے عملی طور پر بانیکار طلبا ہی ہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں