کلچر اور برداشت
ایک عرصے سے پاکسان میں ثقافتی یلغار کی بحث جاری ہے- ہندوستانی سنیما، ترکی ڈرامے اور مغرب کی یہ "سازش" کہ وہ طرح طرح کے دن منا کر ہمارے نوجوانوں کو گمراہ اور ہماری ثقافت کو کمزور کررہا ہے، ہمیں فکرمند کردیتی ہے- ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ یلغار آج سے نہیں صدیوں سے جاری ہے- جب بھی ہماری سرزمیں پر نئے حکمران وارد ہوے وہ اپنے ساتھ اپنا کلچر بھی لائے-
آج ہم چھری، کانٹا اور چمچہ کھانے کے لئے استمعال کرتے ہیں تو ہمیں شاید ہی یہ خیال آتا ہے کہ یہ ہماری ثقافت نہیں ہے- یہی صورت حال لباس کے سلسلے میں بھی ہے- ایسی بیشمار مثالیں ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں نظرآئینگی- ٹیکنولوجی کے اس دور میں کلچر کی اس آمیزش سے مفر ممکن نہیں- البتہ یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ثقافتی مزاج کے مطابق کچھ تبدیلیاں کر لیں-
اس بار بھی جب ویلینٹائن کا دن آیا تو ہمیشہ کی طرح ہمیں پریشان کر گیا- ہمیں یہ خیال ستانے لگا کہ یہ دن تو کسی سینٹ کی یاد میں منایا جاتا ہے تو پھر ہم بحیثیت مسلمان کیوں یہ دن منائیں- ٹی وی اور ریڈیو کو پیمرا کے مشورے ملنے لگے کہ ایسے پروگرام پیش نہ کئے جائیں جن کا موضوع ویلنٹائن ڈے ہو-
ان سب کے پس منظر میں آج ایک خبر میری نظر سے گزری جو یہاں شکاگو کے ایک اخبار دی مسلم آبزرورمیں شایع ہوئی ہے-
یہ خبر رواداری کے رویہ کی عکّاسی کرتی ہے- مسلم میڈیا نیٹ ورک سے منسلک یہ اخبار 1998 سے شایع ہو رہا ہے- خبر یہ ہے کہ ہارورڈ لا اسکول نے جو دنیا بھر میں ایک نامور ادارہ کے طور پر جانا جاتا ہے اپنی فیکلٹی کی لائبریری کے داخلے کے دروازے پر قران شریف کی ایک آیت لکھی ہے اور اس آیت کو تاریخ میں عدل و انصاف کی عظیم تر مثال قرار دیا ہے-
سورتہ النساء کی یہ آیت 135 ہے ا ور اسے سب سے پہلے ایک سعودی طالب علم نے دیکھا اور اسکی تصویر ٹویٹر پر ڈالی- اسکے ساتھ ساتھ تقریبا ایک درجن اقوال لکھے ہیں جن میں سے تین کا تعلق سینٹ آگسٹائن ، قرآن شریف اور میگنا کارٹا سے ہے - ہارورڈ لا اسکول کے مطابق یہ اقوال دنیا بھر میں عدل و انصا کی آفاقیت کا مظہر ہیں -
ویلنٹائن ڈے کے سلسلے میں پاکستان اور ہندوستان میں جو بحث چل رہی ہے تو مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس بارے میں پاکستانیوں کے جذبات جاننے کی کوشش کروں سو میں نے یہاں کے اردو اور انگریزی اخباروں پر ایک نظرڈالی - یہ اخبارات خاص طور پر پاکستانیوں کے لئے شائع ہوتے ہیں -
پاکستان نیوز شکاگو سے شائع ہوتا ہے - اس اخبار نے ویلنٹائن ڈے پر ایک مضمون ٹائٹل سٹوری کے طور پر شائع کیا ہے - اس مضمون کی شہ سرخی ہے یوم محبت منانے کی رسم -- ایک عہد وفا -اس مضمون میں ویلنٹائن ڈے کے تاریخی پس منظرکو بیان کرتے ہوتے کہا گیا ہے کہ اگرچہ محبت کے جذبے کو کسی ایک دن سے منسوب کرنا درست نہیں لیکن یہ تجدید محبت کا دن ہے -
آج کی دنیا میں جب کہ نفسا نفسی کا عالم ہے اگر آپ چند لمحے ایک ساتھ گزار کر ایک دوسرے کے لئے محبت کے جذبات کا اظہار کریں تو کیا برائی ہے - اب یہ تہوار عورت اور مرد کے درمیان ایک رومانوی رشتہ تک محدود نہیں رہا بلکہ تمام رشتوں پر محیط ہے یعنی ماں باپ، بھائی بہن، اولاد اور دوست احباب وغیرہ -
آج جب کہ پاکستان کو ایک انتہا پسند ملک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ، ہم محبت جیسے نرم جذبات کا اظہار بین الاقوامی سطح پر پیش کریں تو دنیا بھرمیں ایک مثبت تاثر قائم ہوگا -
ویسے بھی آج جب کہ ہمیں یرغمال بنا کر ٹی وی اسکرین پر دہشت گردی کے حملے دیکھنے پر مجبور کردیا گیا ہے تو پھر تھوڑی دیر کے لئے پیار و محبت کی باتیں سن کر ہمارے اعصاب کو سکوں مل سکتا تو پھر اس میں کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے-
یہا ں امریکہ میں اگرچہ بنیادی طور پر اسے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا تہوار سمجھا جاتا ہے لیکن سکولوں میں بھی پرائمری جماعتوں کی سطح پر یہ تہوار بڑی معصومیت کے ساتھ منایا جاتا ہے - روایتی طور پر چھوٹے بچے اور بچیاں جوتے کے خالی ڈبوں کو سجا بنا کر لاتے ہیں - اور ہر بچہ کوئی ایک چیز جیسے ٹافی ، چاکلیٹ ، بسکٹ، خود سے بنائے ہوئے کارڈ یا چھوٹے چھوٹے تحفے مثلا پنسل ، ربر وغیرہ اپنے ہم جماعتوں کیلئے لاتا ہے اور پھر یہ ساری چیزیں تمام بچوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں جسے بچے اپنے ڈبوں میں بھر کر گھر لیجاتے ہیں - اس طرح یہ روایت چھوٹے بچوں میں پیار و محبت اور دوستی کے جذبے کو استوار کرتی ہے .
اس سلسلے میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ چونکہ تارکین وطن کا ملک ہے اس لئے یہاں پڑھنے والے بچوں کا تعلق مختلف ممالک ، مذھب اوررنگ ونسل سے ہے
اس طرح یہ تہوار بچوں کو قریب لانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے - دوسرے یہ کہ اس دن کوئی عام تعطیل نہیں ہوتی اور نہ ہی گرجاؤں میں کرسمس کی طرح کوئی مذہبی اجتماع ہوتا ہے - اب تو یہ دن ایک ثقافتی شکل اختیار کر گیا ہے اور صرف ہمارے ہی ملک میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں منایا جاتا ہے -
اس تہوار کا ایک اور پہلوبھی ہے - یہاں کے تہواروں کو خواہ وہ مذہبی نوعیت کے ہوں یا سماجی اور ثقافتی نوعیت کے ، انہیں مقبول بنانے اور پروا ن چڑھا نے میں تجارتی اداروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے -
امریکہ کو تو ویسے بھی (کنزیومرز سوسائٹی) صارفین کا معاشرہ کہا جاتا ہے - تجارتی اداروں کا فائدہ اسی میں ہے کہ اسکا سامان زیادہ سے زیادہ فروخت ہو اس لئے ترغیب دینے کے نت نئے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں - اخباروں میں سیل کے بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوتے ہیں ، مفت کوپن تقسیم ہوتے ہیں ، طرح طرح کے ڈسکاؤنٹ دئے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر تو صارفین کی خوشی ہر شئے پر مقدم ہوتی ہے ، صا رف خوش تو تاجر بھی خوش -
ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے چھوٹے بڑے ہر طرح کے اسٹورزمیں زیادہ تر سرخ اور گلابی رنگ کی چیزوں کی بہار دکھائی دیتی ہے اس دن گلاب کے پھول بلکہ طرح طرح کے پھول سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں اور ریستورانوں میں سیٹیں پہلے سے بک کروالی جاتی ہیں -
دوسرے یہ کہ اب یہ تہوار یہاں ایک کلچرل پریشر بھی بن چکا ہے اس دن لڑکے عموما اپنی گرل فرینڈز کو تحفے دیتے ہیں چنانچہ اگلے دن لڑکیوں میں یہ بھی ذکر ہوتا ہے کہ کس کو کیا تحفہ ملا - سنتے ہیں بعض لڑکیاں تو ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس دن کے تحفوں سے محروم رہ جاتی ہیں اور ان کی دلبرداری کیلئے دوسری دوست لڑکیاں ان کے نام گمنام کارڈزوغیرہ بھیجتی ہیں -
شکاگو سے ایک اردو اخبار نکلتا ہے - ' پاکستان ٹائمز ' اس اخبار نے بھی اپنا ایک صفحہ ویلنیائیں ڈے کیلئے مختص کر دیا ہے - گلابی رنگ کے اس صفحہ پرگلاب کے پھول اور ٹیڈی بیرکی تصویریں بنی ہیں اورویلنٹائن ڈے کے موضوع پر ، اس دن کے بارے میں چند دلچسپ حقائق اور امجد اسلام امجد نظم "کہو مجھ سے محبت ہے" شامل ہے -
ایک مضمون نگار نے اس دن کو "یوم محبت جذبوں کے اظہار کا خوبصورت موقع" قرار دیا ہے- اور دوسرے مضمون نگار نے رشتے مضبوط کرنے کیلئے اپنے رویوں پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا ہے - اخبار لکھتا ہے "گرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ویلنٹائن ڈے ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے لیکن نوجوان نسل میں اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس دن کے مثبت پہلو اجاگرکئے جائیں -
میں اپنا مضمون امجد اسلام امجد کے ان اشعار پر ختم کرتی ہوں -
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے کہ یہ جتنی پرانی ، کتنی بھی مضبوط ہوجائے اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے













لائیو ٹی وی