آٹھواں عجوبہ
لاہور میں میٹرو بس سروس کے افتتاح کے چند روز بعد پنجاب کے خادمِ اعلیٰ پر یہ دھن سوار ہوئی کہ ان کو لاہور کی یاترا کرنی چاہیے۔ چناں چہ وہ وزیراعلیٰ ہاؤس سے پیدل مال روڈ پر آئے اور رکشہ پر سوار ہوکر قریب ترین بس سٹاپ پر پہنچ گئے جہاں سے انہوں نے ٹکٹ لی اور لاہور کے سفر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ وہ مسافروں میں گھل مل گئے جنہوں نے ان کی کچھ تصویریں اتاریں جو اگلے روز کے اخبارات میں شائع ہوئیں اور تب اہلِ لاہور پر خادمِ اعلیٰ کی عوام دوستی کی خصوصیات عیاں ہوئیں۔
پنجاب کے خادمِ اعلیٰ عوام کو اس قسم کے "شاک" دینے کے عادی ہیں لیکن میڈیا اس قدر "شرارتی" ہوگیا ہے کہ وہ ان کو تنہائی کے یہ چند لمحات بھی گزارنے نہیں دیتا اور اسے شہ سرخیوں کی زینت بنا دیتا ہے۔
کیا آپ نے قومی اخبارات کے صفحۂ اول پر پنجاب حکومت کے سرکاری اشتہارات نہیں دیکھے جن میں جلی حروف میں"خادمِ اعلیٰ" لکھا ہوتا ہے۔ عوام دوستی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے؟
اب یہی دیکھئے کہ پنجاب حکومت نے کالعدم تنظیم کے رہنماؤں کوسرکاری پروٹوکول دے رکھا ہے، تاکہ وہ پنجاب میں خون کی ہولی نہ کھیلیں لیکن اگر کسی دوسرے صوبے میں جا کر کارروائی کرنا چاہیں تو اس پر اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ میٹرو بس سروس کا روٹ کسی "عجوبے" سے کم نہیں جس سے شہریوں کو نہ صرف عالمی معیار کی سفری سہولیات میسر آئی ہیں بلکہ ان کی تفریح کا مناسب بندوبست بھی ہوگیا ہے۔ آپ ویک وینڈ پر فیملی کے ساتھ میٹرو بس پر صرف بیس روپے میں پورے شہر کی سیاحت کرسکتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں "ایک ٹکٹ میں دو مزے"۔
اس کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کے تمام تر مسائل بھی حل ہوگئے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک جام نہیں ہوتی اور حادثات کی شرح میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ اگر تنقید کرنے والے اس پر بھی مطمئن نہیں تو یہ ان کی کم عقلی ہے۔ ان کو یہ کون سمجھائے کہ اس منصوبہ کی تکمیل سے ہزاروں بے گھر لوگوں کو چھت میسر آگئی ہے۔ آپ ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہوا؟
میٹرو بس سروس کے لیے بنائے گئے جنوبی ایشیا کے طویل ترین پل کے نیچے گرین بیلٹ کس روز کام آئے گی۔ کیا کسی حکومت نے آج تک ان خطوط پر سوچا تھا؟ یہ خادمِ اعلیٰ کے عوام سے غیر معمولی لگاؤ کا ایک ثبوت ہے۔
یقین کیجئے جب موسمِ گرما میں راتوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوا کرے گی تو لوگ خادمِ اعلیٰ کو دعائیں دیا کریں گے کیوں کہ چہل قدمی کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسرا مقام ہو ہی نہیں سکتا۔
میٹرو بس سروس کا روٹ ہائیڈ پارک کی ضرورت کو بھی بخوبی پورا کرے گا۔ آپ چند لوگوں کو جمع کریں اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے بینر اٹھا کرمیٹرو بس کے راستے کو بلاک کردیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام معطل ہوگا تو آپ کو میڈیا میں بھرپور کوریج ملے گی اور حکومت کو "نہ پائے ماندن، نہ جائے رفتن" کے مصداق آپ کے مطالبات تسلیم کرنا پڑیں گے۔
اور اگر آپ "سوٹا" لگانے کے شوقین ہیں اور محفوظ مقام کی تلاش میں ہیں تو اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ رات کے کسی پہر بھی آپ یہاں کا رُخ کرسکتے ہیں۔
سیاسی مخالفین کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس منصوبے پر 70 ارب روپے لاگت آئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف 30 ارب روپے میں یہ پراجیکٹ مکمل ہوا۔ کیا ہوا جو 23 کروڑ روپے افتتاحی تقریب پر خرچ ہوگئے۔ اس میں بھی حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے تشہیر پر لگا دیئے گئے۔ اگر خادمِ اعلیٰ ذرا سستی دکھا جاتے تو کوئی دوسرا یہ کریڈٹ لے جاتا۔
میں دعویٰ سے یہ کہتا ہوں کہ جنگلہ بس سروس کا نعرہ لگانے والوں کی قیمتی گاڑیاں جب مرمت کے لیے ورکشاپ پر کھڑی ہوں گی تو ان کو ناچار میٹرو بس پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔
پنجاب حکومت کے گزشتہ منصوبوں کی کامیاب تکمیل سے خادمِ اعلیٰ کے جوش و ولولے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ سستی روٹی سکیم کے باعث غربت میں کمی آئی۔ بے روزگار نوجوانوں میں ٹیکسیاں تقسیم کرنے سے خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ لیپ ٹیپ ملنے سے طالب علموں کی ذہنی سطح بلند ہوئی ہے۔ پسماندہ شہروں میں دانش سکولوں کا قیام شرح خواندگی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
سیاسی مخالفین کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے کہ پنجاب حکومت نے سارا ترقیاتی بجٹ صرف ایک شہر پر لگا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ گوجوانوالہ سمیت ان تمام شہروں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں جہاں سے خادمِ اعلیٰ کی پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پراجیکٹ شروع کرکے مخالفین کو فائدہ پہنچانے سے کیا حاصل ہوتا؟
میرا خیال ہے کہ ناقدین ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ کیا کم ہے کہ خادمِ اعلیٰ نے دو درجن سے زائد وزارتوں کا قلمدان خود سنبھال رکھا ہے۔ اس عمر میں وہ دن رات کام کرتے ہیں۔ کوئی رکنِ صوبائی اسمبلی اس قابل نہیں تھا کہ اسے وزیر بنایا جاتا۔
ایک روز میرا ایک دوست میٹرو بس سروس منصوبہ کے حوالے سے کہنے لگا کہ 45 بسوں کی قیمت افتتاحی تقریب پر خرچ ہونے والے بجٹ سے شاید کم ہی ہو لیکن میں نے اسے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی اور کہا کہ اگر صرف بسوں کو درآمد کرنے پر اکتفا کیا جاتا تو دنیا کا "آٹھواں عجوبہ" کس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچتا۔
علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔