دفاعی حکمت عملی کا خمیازہ

پاکستان ساؤتھ افریقہ سے دوسرا ٹیسٹ بھی ہار گیا اور اس ہار کے بعد پاکستانی کپتان مصباح الحق نے یہ بیان بھی دے کر خاصی ہلچل مچا دی کہ دوسری اننگز میں ان کا آوٹ ہونا میچ کا ٹرننگ پوانٹ تھا. ان کہ اس بیان پر ملکی اور چند گیر ملکی ناقدین نے انھیں تنقید اور چند ایک نے سراہا بھی ہے کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا۔
مصباح کا بیان اپنی جگہ لیکن اگر اس میچ کا پاکستانی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جے تو چند باتیں بہت ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سب سے پہلے اگر ہم میچ کے لئے چنے کے گئے گیارہ کھلاڑیوں پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس معاملے میں شاید مصباح اور ٹیم مینجمنٹ سے غلطی ہوئی اور چوتھے بولر کے طور پر تنویر احمد کو منتخب کرنا ایک غلط فیصلہ تھا خصوصاً نیو لینڈز کی خشک پچ پر جس کے بارے میں میچ سے قبل پروٹیز اسپنر پیٹرسن نے بھی کہا تھا کہ یہاں پاکستان کہ پاس سیریز برابر کرنے کا بہترین موقع ہو گا کیونکہ شدید گرمی کی وجہ سے یہاں کی پچ برصغیر کی پچوں جیسی ہے۔
پاکستانی ٹیم مینجمنٹ کو یہاں اپنے دوسرے اسپنر عبدلرحمان کو موقع دینا چاہے تھا. تنویر کے برعکس رحمان نہ صرف رنز روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ساؤتھ افریقہ کے خلاف پہلے بھی اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ راقم کے خیال میں اگر تنویر اور دیگر باؤلرز پیٹرسن کو اتنے رنز نہ بنانے دیتے تو ساؤتھ افریقہ اس میچ میں کبھی واپس نہیں آ سکتا تھا۔
یہ دور جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا آخری ٹیسٹ میچ ہے جہاں ہاشم آملا اور گریم اسمتھ نے تیسری اننگ میں تیزی سے رنز بنا کر آسٹریلیا کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کر دیا تھا اور بالآخر آسٹریلیا وہ ٹیسٹ ہار گیا تھا
دوسرا یہ کہ اس میچ میں عمر گل بھی اچھی پرفارمنس دکھانے میں ناکام رہے اور اگر اگر ذہنوں پر زور ڈالا جائے تو پچھلی چند ٹیسٹ سیریز میں عمر گل کی پرفارمنس کسی طور پر بھی پاکستان کے سینئر فاسٹ بولر جیسی نظر نہیں آئی، عمر گل اور ٹیم مینجمنٹ کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
اب آتے ہیں دوسری اننگز کی طرف جہاں ایسا لگا کہ جیسے پیٹرسن کی شاندار اننگ کی وجہ سے، توقعات کے باوجود بڑی لیڈ لینے میں ناکامی یا پھر شاید کھلاڑیوں پر ساؤتھ افریقہ کے ورلڈ نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم ہونے کا خوف طاری تھا، اوپنرز اور پھر یونس خان کے آؤٹ ہونے سے یہ بات ثابت ہو گئی جبکہ اظہر اور مصباح گیند پرانی ہونے کے باوجود فاسٹ باؤلرز تو دور جنوبی افریقی اسپنر پیٹرسن کے خلاف بھی کھل کر نہ کھیل سکے۔ پاکستان کے لئے پرانی گیند پر ہی تیزی سے رنز کرنا ممکن نظر آ رہا تھا لیکن مصباح اور اظہر کی سست رفتار بلے بازی نے ساؤتھ افریقہ کو میچ پر اپنی گرفت قائم کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔
اس حکمت عملی میں بنیادی خرابی یہ تھی کہ چونکہ رنز تیزی سے نہیں بن رہے تھے اس لئے جیسے ہی ان میں سے ایک آؤٹ ہوا، پریشر دوبارہ پاکستان پر آ گیا، اسد شفیق نے اپنے طور پر اس پریشر کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ان کے آؤٹ ہونے کے بعد اظہر اور دیگر کھلاڑی اس پریشر کو نہ جھیل سکے اور ٹیم کی لیڈ ١٨٠ تک محدود رہی، یقیناً اس میں اصل قصور بلے بازوں کا ہے جو حریف ٹیم کے باؤلرز کا جم کر مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔
اب بات دوبارہ باؤلرز پر آ گئی تھی لیکن صرف اجمل کیسے ان کے بہترین بلےبازوں کو روک سکتے تھے، انہیں یقیناً دیگر باؤلرز کی بھرپور معانت کی ضرورت تھی لیکن اس بار بھی عرفان کے سوا کوئی بھی بولر اجمل کا صحیح طرح ساتھ نہیں دے سکا۔ گل نے حسب معمول ایسی بولنگ کی جس سے مدمقابل کو رنز بتورنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی جبکہ تنویر پہلی اننگز کی طرح دوسری باری میں کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے، دوسری اننگ میں وکٹ کیپر سرفراز احمد جس انداز میں آؤٹ ہوئے اس سے ان کی کرکٹنگ سمجھ بوجھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور اس موقع پر پاکستانی کو ایک وکٹ کیپر بلے باز کی کمی انتہائی شدت سے محسوس ہو رہی۔
اس ٹیسٹ نے مصباح کی دفاعی حکمت عملی بھی عیاں ہو گئی جو متحدہ عرب امارات کی پچز پر کھیلے گئے میچز میں انتہائی کامیاب رہی تھی، یہ دور جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا آخری ٹیسٹ میچ ہے جہاں ہاشم آملا اور گریم اسمتھ نے تیسری اننگ میں تیزی سے رنز بنا کر آسٹریلیا کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کر دیا تھا اور بالآخر آسٹریلیا وہ ٹیسٹ ہار گیا تھا، سابق کپتان انضمام الحق نے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کو جارحانہ انداز اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔
تیسرا ٹیسٹ سینچورین میں شروع ہو رہا ہے جہاں کی پچ عام طور پر تیز اور باؤنسی ہوتی ہے، اگر ایسا ہی ہے اور پاکستانی بیٹسمین اور فاسٹ بولرز نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو پاکستان کو 3-0کے وائٹ واش کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
تبصرے (1) بند ہیں