• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

تشدد یہاں بھی، وہاں بھی

شائع February 17, 2013

فائل فوٹو --.

29 جنوری کو یہاں شکاگو میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں پندرہ سالہ ہاڈیہ پندلٹن اسٹریٹ کرائم کا نشانہ بنی اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی-

ہاڈیہ پندلٹن کنگ کالج میں پریپ آنر کی طالبہ تھی اس نے اپنے بینڈ گروپ کے ساتھ وہائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی صدر اوباما کی افتتاحی تقریبات میں حصہ لیا تھا اور واپسی کے تقریبا ایک ہفتہ بعد ہی یہ واقعہ رونما ہوا جس نے پوری قوم کوہلا دیا -

اس کے امتحانات ختم ہوچکے تھے وہ اور اس کے ساتھی قریبی پارک میں اپنی تھکن اتارنے کیلئے خوش گپیوں میں مصروف تھے - اچانک ایک نوجوان باڑھ کو پھلانگ کر پارک میں داخل ہوا اور اندھا دھند اس گروپ پر گولیاں چلادیں جس کے نتیجے میں ہاڈیہ ہلاک اور اس کے دو ساتھی زخمی ہوگئے -یہ جگہ شکاگو میں صدر اوباما کے گھر سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر تھی -

آج اس واقعہ کو رونما ہوئے تقریبا دو ہفتے ہوچکے ہیں - یہاں کے اخبارات میں یہ خبر اب بھی شہ سرخیوں میں ہے - عوام ہیجان میں مبتلا اور خوفزدہ ہیں کیونکہ کنکٹی کٹ میں رونما ہونے والے ہولناک واقعہ کے بعد جس میں نرسری کے بیس طلباء اورطالبات کےعلاوہ اور دیگر افراد بھی کسی جنونی کی گولیوں کا نشانہ بنے، قوم اس کے اثرات سے باہر نہں نکلی ہے -

اخبار کی خبروں کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں تقریبا ایک ہزار لڑکے اور لڑکیاں سٹریٹ کرائم کے نتیجے میں اپنی زندگی سے محروم کردئے گئے اور اپنے خاندانوں کیلئے ایک پُر نا ہونے والا خلا چھوڑ گئے -

قومی سطح پر آجکل گن کنٹرول پر گرما گرم بحث جاری ہے - ریاست چاہتی ہے کہ تشدد کا خاتمہ ہو، اسلحہ پر کنٹرول قائم کیا جائے اور سڑکوں اور علاقوں کو محفوظ بنایا جائے -

دوسری طرف اسلحے کے بیوپاری بھی سرگرم عمل ہیں وہ امریکہ کے آئین کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق اسلحہ رکھنا ہر شہری کا حق ہے - ان کا کہنا ہے کہ یہ حق ان سے چھینا نہیں جاسکتا البتہ ان لوگوں کو کنٹرول کیا جائے جو اس کا غلط استعمال کرتے ہیں -

اسلحے کے کنٹرول کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہری آتشیں اور خودکار اسلحہ اپنے پاس رکھیں - بہرحال دونوں طرف سے دلائل کا سلسلہ جاری ہے لیکن اصل چیز ہے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت -

کنکٹی کٹ کے واقعہ کے بعد اوباما کی تقریر کو لوگوں نے ٹیلی ویژن پرسنا - ہمارے ملک میں بھی اس تقریر کے چند جذباتی مناظر دکھائے گئے جس میں اوباما تقریر کرتے اور ساتھ ہی خاموشی سے اپنے آنسو پونچھتے جا رہے تھے اور جب ہاڈیہ کا سانحہ پیش آیا تو ایک افسردہ قوم مزید افسردگی میں ڈوب گئی.

ہاڈیہ کی تدفین کی تقریب میں امریکہ کی خاتون اول مشیل اوباما نے شرکت کی لیکن اس طرح کہ وہ کیمرے کی زد سے دور رہیں - یہ واقعہ شکاگو میں ان کے گھرکے پڑوس میں پیش آیا تھا - خود ہاڈیہ کا خاندان بھی نہیں چاہتا تھا کہ اسکی تدفین کو کسی سیاسی پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا جائے - ان کی خواہشات کا احترام ہوا اور عزت و احترام کے ساتھ نوجوان ہاڈیہ دفن کردی گئی -

12 فروری کو صدر اوباما کا اسٹیٹ آف دی یونین کا خطاب تھا جو رات کو تقریبا آٹھ بجے ٹی وی اسٹیشنوں سے نشر کیا گیا - سامعین کی لابی میں خاتون اول مشیل اوباما کے ساتھ ہاڈیہ کے والدین بیٹھے تھے ان کے علاوہ تیس ایسے خاندان لابی میں موجود تھے جو پچھلی ایک دہائی میں کسی نہ کسی طور پراسٹریٹ کرائم کا نشانہ بنے تھے -

جب اوباما اپنی تقریر کے دوران اس موضوع پر آئے تو کیمروں کا رخ ان لوگوں کی جانب تھا - صدر نے اپیل کی کہ وہ گن کنٹرول پر جو قانون بنانے جارہے ہیں اس میں لوگ ان کا ساتھ دیں - ہال میں موجود سینیٹ اور ہاؤس کے اراکین نے کھڑے ہوکر ان کی اس تجویز کی حمایت کی.

اوباما اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہاں کے اسلحہ فروشوں کی لابی بھی بہت مضبوط ہے - لیکن عوامی سطح پر اور خود سیاسی سطح پر بھی اس ناسور پر قابو پانے کی کوشش نظر آتی ہے - مختلف تنظیمیں اس سلسلے میں سرگرمی سے کام کر رہی ہیں -

اخباروں میں یہ خبریں پڑھتے ہوئے اپنی ملالۓ یوسف زئی کا واقعہ میرے ذہن میں تازہ ہو گیا (نکلا ہی کب تھا) - پندرہ سال کی یہ معصوم لڑکی بھی درندگی کا نشانہ بنی - جان تو بچ گئی لیکن علاج معالجہ کے طویل امتحان سے گزر رہی ہے.

اس لڑکی کا جرم کیا تھا ؟ یہی نا کہ پڑھنا چاہتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتی تھی کہ اس کے ملک کی ساری لڑکیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہوں ، اپنی صلاحیتوں کو چمکائیں اور قوم کے کام آئیں -

لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہم بھی تشدد کے ایک کربناک دور سے گزر رہے ہیں - انتہا پسندوں کے ایک حقیر گروپ نے پوری قوم کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے- یہ لوگ خود کو اسلام پسند تو کہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو غالبا اسلام سے پہلے کے دور میں واپس لیجانا چاہتے ہیں جب لڑکیوں کو پیدایش کے ساتھ ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا!

دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی آپسی چپقلش ، گینگ وار ، لینڈ مافیا ، بھتہ مافیا وغیرہ نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے - کراچی کی سڑکیں لہولہان ہیں ، روزانہ درجنوں کی تعداد میں لاشیں سڑکوں پر گرتی ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ، نہ تو حکومت کی سطح پرنہ ہی پارٹیوں کی سطح پر یا عوامی تنظیموں کی جانب سے کوئی خاص کوشش ہوتی نظر آتی ہے - کوشش ہے تو صرف اس حد تک کہ بیانات جاری ہوتے ہیں ، رسمی اعلان نامے سامنے آتے ہیں اور پھر، خاموشی.

ملالۓ کے واقعہ کے بعد ، ہزارہ کمیونٹی کے افراد کے قتل کے بعد یا شیعہ سنی ہلاکتوں کے بعد بیشک احتجاج ہوتے ہیں لیکن پھر اسکے بعد ------ وہی بے حسی -

امریکہ ہو یا پاکستان یا کوئی اور ملک، بہت سے مسائل مشترک ہیں - تشدد ہر جگہ ہو رہا ہے ، عورتیں زیادتیوں کا شکار ہو رہی ہیں ، جن بچوں کو اسکولوں میں ہونا چاہئے وہ سڑکوں پر رلتے پھرتے ہیں ، بینک لوٹے جاتے ہیں ، موبائل چھین لئے جاتے ہیں ، لوگوں سے پوچھا جائے کہ ان حالات میں آپ کیسے رہتے ہیں تو جواب ملتا ہے دعا کرتے ہیں کہ جو گھر سے باہر گیا ہے وہ خیریت سے گھر واپس آجائے -

مسائل کے اس انبوہ میں ملکوں کے درمیان کیا فرق نظر آتا ہے ؟ فرق واضح ہے - کہیں ان پر قابو پانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور کہیں سرد مہری .

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 10 اپریل 2025
کارٹون : 9 اپریل 2025