• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:50pm
  • LHR: Asr 4:37pm Maghrib 6:25pm
  • ISB: Asr 4:43pm Maghrib 6:32pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:50pm
  • LHR: Asr 4:37pm Maghrib 6:25pm
  • ISB: Asr 4:43pm Maghrib 6:32pm

لانگ مارچ کا سبق

شائع February 7, 2013

 تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری -- اے ایف پی فوٹو
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری -- اے ایف پی فوٹو

ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ شروع ہو کر اختتام پذیر بھی ہوگیا۔ اس نے سیاسی منظر نامے کو ہلا کر رکھ دیا۔ کم از پانچ شب و روز تک قوم اس کے ہیجان میں مبتلا رہی۔

آیا کہ یہ لانگ مارچ پاکستان کی سیاسی تبدیلی پر اپنا کوئی دیرپا اثر چھوڑنے میں کامیاب رہے گا، یہ ابھی شک و شبہ میں ہے۔

اگرچہ اب تک لوگ لانگ مارچ کی بحث لے کر 'کون، کہاں سے اور کس لیے' کی قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں، ہمیں اس کو چھوڑ کر ایک بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

وہ ہے ڈاکٹر قادری کی ایک بہت بڑے مجمع کو متحرک کردینے کی صلاحیت۔ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم یہاں مجمع کی تعداد کا اندازہ لگائیں اور اسے لے کر ایک اور بحث چھیڑ دیں۔

بقول صحافی نجمہ صادق کے، حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر قادری کے ساتھ جو مجمع تھا، وہ اس سے کہیں بڑا تھا جتنا کہ ہم اب تک کے جلسے جلوسوں میں دیکھتے آئے ہیں۔ جب کہ وہ خود کو سیاسی قائد کہلوانے کے دعویدار بھی نہیں تھے۔

اس وقت ہمارے ارد گرد کا جو سماجی اور معاشی ماحول ہے وہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے نہایت سازگار ہے۔ افسردگی نے ہمیں ہر طرف سے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ بے روزگاری نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہر طرف تشدد وبا کی صورت پھیلا ہے۔ روز مرّہ ضروریات پورا کرنے میں دشواریاں حائل ہیں۔

اور ان مصیبتوں کے اندھیرے غار میں پھنسے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی بقا کے لیے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔

سوال ہے کہ جب طاقت کے اس اظہار میں دوسری قیادتیں ناکام رہتی ہیں تو لانگ مارچ کی قیادت نے اس کا انتظام کیسے کیا؟

نجمہ صادق کا جواب تھا کہ 'ہم سب کی طرح وہ بھی ایک سرگرم کارکن ہیں مگر فرق یہ ہے کہ ان کے پاس بہت زیادہ وسائل ہیں اور ان سب کو آرگنائز کرنے کی صلاحیت بھی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں وہ ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی سیکڑوں ادارے چلا رہے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا: وہ ہماری طرح چیزوں کا انتخاب نہیں کرتے، ان کا طریقہ دوسروں سے مختلف ہے۔ وہ پاکستان کے تمام پسماندہ طبقوں کی نمائندگی نہیں کرتے تو پھر ایسا کون کرے گا؟ یقینی طور پر ان کے ساتھ متاثرہ لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وہ لوگوں کو ایک اسٹینڈ پر لے آئے تھے، جس نے حکومتِ وقت کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کردیا۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ کوئی عوامی تحریک خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، یہی کرنے کی کوشش کرتی ہے؟

نجمہ صادق کا تجزیہ اپنی جگہ پر لیکن بنیادی معاملہ اسے سمجھنے کا ہے جو بائیں بازو والوں کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر قادری کس طرح اتنی بڑی تعداد میں مجمع کرسکے؟

یہ وہ تھے جو ڈھیر ساری مشکلات کا شکارتھے لیکن انہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھے آزاد خیالوں (لبرلز) نے لانگ مارچ اور احتجاج کے لیے اکھٹا کیا۔ (حقوقِ انسانی کمیشن، پاکستان کے آئی اے رحمان کا جملہ)

کیا قادری کے حامی اتنے بہادر تھے کہ وہ اسلام آباد کی سردی اور بارش کے باوجود لانگ مارچ میں رضاکارانہ طور پر شامل رہے؟ وہ لوگ جو پسماندہ لوگوں کی بات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، کس طرح ایسا کرسکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سوشل موبلائزیشن یا سماجی متحرک پن کیا ہے۔

بنیادی طور پر یہ ایسی قیادت کا متقاضی ہے جو تنظیمی صلاحیت رکھتا ہو، پیچھے چلنے والے اس پر اعتماد کرتے ہوں، وہ لوگوں سے رابطے میں رہتا ہو، انہیں قابل قدر سہولتیں فراہم کرسکتا ہے (ضروری نہیں کہ وہ صرف مالی ہو) اور وہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو شرکت کا احساس دلاسکے۔ منہاج القرآن عالمی کے قائد نے یہ سب ثابت کیا۔

تکنیکی طور پر کہیں تو اس مقصد کے لیے سیاسی جماعتیں سب سے بہتر طور پر لیس ہونی چاہئیں لیکن باعث شرمندگی کہ وہ ایسی نہیں ہیں، ان کی ساکھ کھوچکی۔ وہ اپنے وعدوں کے مطابق فراہم کرنے میں ناکام رہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف اب تک اپنی ساکھ سے لطف اندوز ہورہی ہے، وہ بھی اس لیے کہ اب تک اسے آزمایا نہیں گیا۔

لیکن جہاں تک عمران خان کی جانب سے لوگوں کو سہولتوں کی فراہمی کی بات ہے تو ان کا کینسر اسپتال اور نِمل یونیورسٹی کا دائرہ بہت محدود ہے۔

ڈاکٹر قادری نے مڈل کلاس پر توجہ مرکوز کی، وہ گورننس کے عمل میں سماجی شعبے کو داخل کرنے کا مقصد رکھتے ہیں جہاں ان کے لیے لامحدود مواقع موجود ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر متاثر کُن دعوے ہیں، تاہم جب وہ کھل کر بولتے ہیں تو ان کی تمام تر باتیں سچ نہیں ہوسکتیں۔

منہاج یونیورسٹی کے تحت پانچ سو بہتّر اسکول، بیالس کالج، یونین کونسل کی سطح پر بے شمار ثقافتی مراکز، تین ہزار لائبریریاں، ایک سو دو مفت طبّی مراکز و بلڈ بینک ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، جن کے زریعے 'شیخ الاسلام' لاکھوں لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ فراہم کرنے کا وعدہ بھی موجود ہے۔

اگرچہ اسلامی تعلیمات و رسومات ان کا ایک بڑا حوالہ اور تشکیل کا ایک اہم موڑ ہے مگر بندہ چالاک ہے۔ انہوں نے دین کے ساتھ دیناوی تعلیم میں مہارت کی بھی ہدایت کی ہے۔

مثال کے طور پر، منہاج یونیورسٹی کی پانچ فیکلٹیز ہیں جو اسلامی تعلیمات کے علاوہ بزنس ایڈمنسٹریشن اور آئی ٹی سے لے کر ریاضی تک تیس کورس پیش کرتی ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ مڈل کلاس کے پریشان حال نوجوان کو کس طرح کی تعلیم درکار ہے، جس سے وہ عملی زندگی میں بہتر روزگار کا موقع حاصل کرسکے۔

اگرچہ مذہب کے حوالے سے جو ان کا نقطہ نظر ہے، میں اس بارے میں زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی لیکن اس کے باوجود وہ ایسی جماعت ہے جو اپنے ارکان سے رابطے میں رہتی ہے۔

اپنے ارکان سے رابطے میں رہنے کے باعث تنظیم کوانہیں متحرک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کی طرح متعدد سیاسی جماعتیں، جیسا کہ جماعتِ اسلامی، اسی ڈھانچے اور طریقے پر کاربند ہیں۔

ان کا ایک فلاحی شعبہ بھی ہے اور سہولتوں کی فراہمی ان کے نظریات میں شامل بھی ہے لیکن ماضی میں ان کی کارکردگی کے باعث، ساکھ کا فقدان ہے۔

اس سے وضاحت ہوجاتی ہے کیوں ابلاغی یا ایڈووکیسی گروپ اپنی احتجاجی ریلیوں کے لیے چند سو لوگوں کو بھی متحرک کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے لیکن انہیں خود کو مقبول حمایت سے خود کو طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔

آگ بجھانے کا نقطہ نظر اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب بحران ہوں۔ وہ پسماندہ طبقوں سے مستقل بنیاد پر رابطے استوار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

رابطوں کا مستقل فقدان تعلقات کے ڈھانچے کو اس قابل نہیں بناسکا کہ وہ نہایت نچلی سطح یا گراس روٹس لیول پر لوگوں کو متحرک کرسکیں۔

نہ ہی یہ صورتِ حال پسماندہ لوگوں کو ایسی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کی استواری پر راغب کرسکی ہیں جو وعدے تو بہت کرتی ہوں لیکن ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہو۔

اگر کسی ظالمانہ قانون میں تبدیلی کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ وہ نہیں جس کے اثرات ثمرات کی صورت تیزی سے نچلی سطح پر ان لوگوں تک پہنچتے ہوں، جنہیں آزاد خیال یا لبرلز جمہوری عمل میں رہتے ہوئے تبدیلی سے منسلک کرتے ہیں۔


www.zubeidamustafa.com ترجمہ: مختار آزاد

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 اپریل 2025
کارٹون : 5 اپریل 2025