پیچہ پڑ گیا
آج بھی میرے ذہن پر یادوں کے وہ گہرے نقوش ترو و تازہ ہیں جب شفاف نیلا آسمان رنگ برنگ پتنگوں سے سج جاتا تھا۔ اس پرانی تصویر میں، میں بارہ سال کی تھی۔
پیلے رنگ کی روایتی شلوار قمیص میں ملبوس، پاؤں میں کپڑوں سے میچ کرتا سنہرے تاروں سے کڑھا کُھسّہ، بھری کلائیاں رنگ برنگ کانچ کی چوڑیاں، بغل میں مانجھے کی چرخی دبائے۔۔۔۔ صاف ظاہر ہے میں بسنت منانے کے لیے بالکل تیار تھی۔
ایک اور بھی یادگار تصویر ہے، جس میں ہمارا پورا خاندان بسنت کے موقع پر پتنگ بازی سے لطف اندوز ہورہا ہے۔
ثقافتی شہر لاہور میں بسنت کا میلہ اور جشن بہاراں اکھٹے منائے جاتے ہیں۔
یہ تصویر اینٹوں سے پختہ کی گئی سڑک اور چھت تک جانے والے شکستہ زینے کی کہانی بھی بیان کرتی ہے۔
زرد چمکیلا رنگ ہر طرف لہلہا رہا تھا۔ سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، ہر طرف قہقہوں کا راج تھا اور پوری چھت پر پتنگ بازوں اور اس کے شوقینوں کا قبضہ تھا۔
بسنت آنے سے کئی روز پہلے ہی فضا رنگ برنگ کی پتنگوں سے سجنے لگتی تھی، ہر طرف بسنت کی آمد کے چرچے ہوتے تھے۔
لاہور میں تو جیسے پھولوں اور رنگوں کا ہنگامہ بپا ہوجاتا تھا۔ بچے بوڑھے، غریب امیر کا کوئی فرق نہیں تھا۔
تمام لاہوری ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر موسمِ بہار کو خوش آمدید کہتے اور جشنِ بسنت کی صورت خوشیوں کا لطف لیتے تھے۔
کتاب کے اوراق کے مانند، ہر گھر کی چھت دوسرے گھر سے ملی ہوتی تھی اوردور دور تک پھیلی یہی چھتیں بسنت میں پتنگ بازوں کے لیے کھیل کا میدان تھیں۔
بتیس سالہ ثنا کہتی ہیں کہ 'چھتیں ہی ایک گھر سے دوسرے سے ملاتی تھیں، انہی چھتوں پر کھڑے کھڑے ہمسایوں سے گپ شپ کی جاتی، دوستانہ چیلنج دیے جاتے اور یہ سب باتیں ہمسایوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لاتی تھیں۔ ' بسنت کے موقع پر قدیم اندازِ تعمیر لیے ان گھروں کی چھتیں تیز موسیقی سے گونجنے لگتی ہیں: 'پتنگ باز سجنا سے'۔
جس کی جیسی بساط اسی کے مطابق ساؤنڈ سسٹم، پر گیت گونجتے ضرور تھے۔
مجھے انار کلی میں، رات کے تاریکی میں پتنگ کا اڑنا یاد ہے۔ سیاہ آسمان کے رُخ اڑتی سفید چمک دار پتنگ اور اس پر پڑتی فلڈ لائٹ، پتنگ بازوں کے جذبات کا پتا دیتی تھی۔
تنگ گلیوں میں کٹی پتنگ کے پیچھا کرتے لڑکے بالے اور کمزور چھتوں پر پتنگ بازوں کا ہجوم، بَسنت پر ان کے جوش و جذبے کا بیاں ہے۔
پتنگ کا سائز اوردوڑ کا معیار گفتگو کا موضوع بنتا، جس میں دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی۔
بہت سے اس عزم کے ساتھ نیچے اتر آتے کہ رات میں زیادہ پتنگیں آسمان پر نظر آئیں گی۔
جب فاصلے پر دھندلاہٹ چھاجائے، پتنگ نظر نہ آنے کے بجائے بو کاٹا کا شور سنائی دے، مبارک باد سننے کو ملے تو سمجھ لو کہ 'پیچہ پڑ گیا۔ ' پتنگ کٹنے پر ڈھولی زوردار ڈول بجاتے اور اس کے بیچ 'بو کاٹا' کے نعرے لگتے، بھنگڑے ڈالے جاتے۔
شب پڑنے پر شہر بھر میں چراغاں ہوتا، فضا میں رنگ برنگ پتنگیں لہراتیں، نظر آسمان تک پہنچ نہیں پاتی، بیچ میں ان پر ہی ٹک جاتی تھی۔
اتوار کی صبح ہوتی تو ہر طرف جوش و خروش کا منظر ہوتا، ہر چھت سے پتنگیں اڑتیں اور فضا میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ شفاف نیلگوں آسمان کو جیسے ڈھانپ لیتی ہوں۔
پرانے شہر میں عام طور پر بَسنت کے مراکز پیسہ اخبار بلڈنگ اور حویلی بارود خانہ ہوا کرتے تھے۔
یہ بھی دوسرے مقامات کی طرح، موسیقی کے شور سے گونجتے اور زرد رنگ کے لباس میں ملبوس شائقین سے بھرے ہوتے تھے۔
سورج کی تیز روشنی میں چمکتا زرد رنگ جو ان کے جوش و جذبے کا عکاس ہوتا تھا۔
سدا بہار پتنگ باز ہلکی ہوا کو پتنگ اڑانے کے لیے نہایت موزوں خیال کرتے ہیں۔
آنٹیاں، بہنیں، بھائی، انکلز، باورچی اور مالیوں سمیت ہر کسی کی پتنگ بازی پر اپنی ہی الگ رائے ہوا کرتی تھی۔ سب اپنے اپنے طور پر بہترین پتنگ اور ڈور کا مشورہ دیتے تھے۔
اگر آپ اچھے پتنگ باز ہیں تو ایک دفعہ پتنگ بُلندیاں چھو لے تو پھر ڈور تھام کر لطف لیتے رہیں۔
اگر آپ کم تجربہ کار ہیں تو پھر پتنگ باز کے برابر مانجھے کی چرخی تھام کر کھڑے رہیں البتہ انگلیاں چلانے کا عمل اختیاری ہے۔ یوں اس ایکشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ سب کو گلیوں میں گھومتے وہ بدمعاش بچے ضرور یاد ہوں گے جو ہاتھوں میں قینچیاں لیے ڈوریں کاٹنے اور مانجھا لوٹنے کے چکر میں پھرا کرتے تھے۔
افسوس کہ زندہ دلانِ لاہور کے مہمانوں کی دوڑیں بھی ان سے نہیں بچتی تھی۔
پتنگ اڑانے اور پتنگ بازوں کا جوش بڑھانے کے لیے کھانے پینے کا دور پورا دن چلتا رہتا، مانو کہ جیسے چھت پر پکنک منارہے ہوں۔
فضا میں ہر طرف تِکے بوٹیوں کی مہک ہوتی جیسے باربی کیو پارٹی منائی جارہی ہو۔
یہ تو چھت تھی، نیچے جھانکو تو گلی میں ریڑھوں پر مٹھائی فروش طرح طرح کی میٹھی سوغاتیں بیچتے نظر آتے تھے۔
دن بھر بسنت میلہ رہتا اور اس دوران آپس میں گفتگو کا موضوع بڑی پتنگیں اور اُن کی اڑانیں ہوتی تھیں۔
مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہے، جب میں نے ایک بڑی پتنگ کو دیکھا اور بہت حیران ہوئی تھی۔
آٹھ آدمی مل کر ایک بڑی سی پتنگ کو اڑانے کے لیے کنّہ دے رہے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ایک پتنگ کٹی اور ہمارے اوپر سے ہوتے ہوئے نیچے بازار والی گلی میں گری۔
میں نے چھت پر سے نیچے کی طرف جھانکا، پتنگ انکے اوپر ڈول رہی تھی۔
مجھے یہ سب کچھ بہت اچھی طرح اس لیے بھی یاد ہے کہ جب وہ اڑتی پتنگ کٹی تو نیچے گلی میں پتنگ لوٹنے والے بچوں کا ' بو کاٹا' کا نعرہ گونجا تھا۔
یہ ایسا ہی منظر تھا کہ جیسے کسی فوج نے فتح حاصل کرلی ہو اور پتنگ مالِ غنیمت جو ان کے سروں پر منڈلارہی تھی اور وہ قہقہوں اور شور کی تیز گونج میں اسے زمین پر گرنے سے پہلے ہی جھپٹ لینے کو بے قرار تھے۔
میں ان بچوں کو ایسی دیکھ رہے تھی جیسے کوئی نئے ملنے والے خزانے کو دیدے پھاڑ کر دیکھتا ہے۔
میری آنکھوں کو یہ دیکھنے کا بھی موقع ملا جب ایک شخص درخت پر پھنسی پتنگ اتارنے کے لیے اس پر چڑھا اور نیچے، اس کے چائے کے کھوکھے کے پاس کھڑی، اس کی بیٹی حیرت بھری نگاہوں سے اس کے اترنے کی منتظر تھی۔
وہ درخت پر چڑھا ہوا پتنگ اتارنے کی کوشش کررہا تھا اور نیچے، اس کے چائے کے کھوکے کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے گاہک، چُسکی بھول کر اسے مشورہ دینے میں لگ گئے تھے کہ کس طرح پتنگ کو صحیح سلامت اتارا جاسکتا ہے۔
حقیقت میں بسنت لوگوں کا، لوگوں کے لیے، لوگوں کے ذریعے جوش و خروش سے منایا جانے والا تہوار ہے۔
فاسٹ فارورڈ کا بٹن دبا کروہاں لوٹتے ہیں جہاں بسنت تھی۔ وہاں تیز ہوا کی سرگوشیوں میں آج بھی آمدِ بہار کا اعلان ہے مگر جتنی پتنگیں تھیں وہ کب کی کٹ چکیں۔
لکھاری: زو رچڑد
تبصرے (5) بند ہیں