خونی دھاگے
جوں جوں سورج کی کرنوں کی چمک دمک بڑھنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم سرما کے بادل چھٹنا شروع ہوتے ہیں تو فضا میں بہار کی خوشبو کو نظرانداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
لاہور کے پارک پھولوں کی خوشبو سے بھرجاتے ہیں اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج اٹھتے ہیں۔ کئی طرح کے میلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کی بھرمار میں بھی لاہورئیے بسنت کو نہیں بھول پاتے ۔
بد قسمتی سے ڈور کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے باعث پنجاب حکومت نے اس ہر دلعزیز میلے پر 2005 میں پابندی لگا دی تھی۔
کئی لاہورئیوں کے لئے بہار کی سچی علامتوں میں مستی بھری موسیقی اور اشتہاء انگیز کھانوں کے ساتھ ساتھ پتنگوں بھرا آسمان بھی شامل ہے۔
یہ لوگ ایک ایسی سرگرمی پر پابندی کی منطق سمجھنے سے قاصر ہیں جو محض تفریح کا سامان ہے۔ اُن کے نزدیک پتنگ بازی ثقافتی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس پر روک ٹوک ایک غیر ضروری پابندی ہے۔
دوسری طرف پتنگ بازی کے نقاد اسے خونی کھیل ثابت کرنے کے لئے آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کھیل اُن خاندانوں کے لئے محض دکھ اور بربادی چھوڑ کر جاتا ہے جن کے پیارے گلوں پر ڈور پھر جانے کی وجہ سے جانوں سےہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پتنگ بازی محض گلے کاٹنے کا مقابلہ بن کر رہ گئی ہے۔
'اُس ماں سے پوچھیں جس کا پھول سا بچہ کھلنے سے پہلے مرجھا گیا، اُس بچے سے پوچھیں جس کا باپ ڈور پھرنے کی وجہ سے کٹ کر مر گیا اور اب وہ باپ کی شفقت سے محروم ہے'۔ یہ جذبات ہیں ایک ایسے شخص کے جو اپنا نام نہیں ظاہر کرنا چاہتا۔
اُن کے خیال میں یہ کھیل محض ایک عیاشی ہے جس کا فائدے سے کہیں زیادہ نقصان ہے۔ اپنی دلیل میں ان کا کہنا ہے کہ'ہم جہاز یا ریل سے سفر کرنا نہیں چھوڑ سکتے اگرچہ اس میں بھی حادثے کا خطرہ رہتا ہے مگر ہم بسنت کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف کئی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں بلکہ یہ قومی وسائل پر ایک غیر ضروری بوجھ بھی ہے'۔
دیگر لوگ پتنگ بازی پر مذہبی حوالے سے تنقید کر تے ہیں اور اسے بے حیائی یا فحاشی سمجھتے ہیں۔
ان دلائل کا جواب میں آغا وقار کہتے ہیں کہ: تصویر کا صرف ایک رُخ دیکھنا بڑی زیادتی ہے۔ بسنت ایک ایسا تہوار ہے جس سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے اگر یہ منظم انداز میں ہو اورکیمیائی مادوں اور شیشے سے تیار ہونے والی ڈور کے نقصانات کےبارے میں لوگوں کو آگاہی ہو۔
'محض چند ایک بگڑے ہوئے لوگ اخلاقی اصولوں کا خیال نہیں رکھتے ، لیکن زیادہ تر لوگ باضمیر ہیں اور اس کھیل کے غیر تحریر ی اصولوں کا پوری طرح خیال رکھتے ہیں'۔
'یہ درست ہے کہ ہمیں آگ سے نہیں کھیلنا چاہیئے اور لوگوں کے لئے موت کا سامان نہیں پیدا کرنا چاہئے تاہم یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاتی تار فروخت کرنے والے تاجر اور ان کو استعمال کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کھیل پر پابندی لگانے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ایسے بگڑے ہوئے لوگوں پر نظر رکھے جو ہوائی فائرنگ کرتے ہیں اور دیگر فسادی نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
پتنگ بازی کا شوق رکھنے والے اصغر خان کا خیال ہے کہ مقتدر قوتیں چند لوگوں کی غیر ذمہ داری کی سزا پوری قوم کو دیتی ہیں۔
خان کے مطابق، ایسے احمقانہ طریقے اور غلط اقدامات کا الٹا اثر ہوتا ہے کیونکہ لوگ حکومتی احکامات کی خلاف ورزی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پتنگ بازی اور اس سے متعلقہ اشیاء پر پابندی کا مطلب اُن ہزاروں لوگوں کو روزگار سے محروم کرنا ہے جن کی آمدنی پتنگ سازی سے وابستہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ لوگ حکومت کی نگرانی سے دور اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکیں۔ پیشہ ور پتنگ بازوں اور شوقین لوگوں نے شہر کے مضافات میں مقابلے منعقد کر کے شمع جلا رکھی ہے۔
تفریح کی اجازت دینے اور نقصانات کم کرنے کے لئے خان یہ مشورہ دیتے ہیں کہ حکومت شہروں میں پتنگ بازی کے لئے کھلی جگہیں مختص کرے اور دھاتی ڈور کے استعمال پر پابندی لگائے نہ کہ کھیل پر۔
اپنی رائے دیتے ہوئے ایک سینئر ریٹائرڈ پولیس افسر نےڈان کو بتایا کہ اگر مسمم ارادہ ہو تو قانون نافذ کرنے والوں کے لئے معاشرے میں غیر صحت مندانہ رجحانات کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں۔
انہوں نے کہا 'اگر پنجاب حکومت یا کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ عزم کر لے تو پولیس کے لئے خونی ڈور کی تیاری اور فروخت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔
'یہ مسئلہ وسائل کا نہیں بلکہ نیک نیتی کے فقدان کا ہے، ذاتی مفادات اور صوبائیت نے ان کی وژن کو بگاڑ دیا ہے'۔
بقول ان کے:لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں حد سے زیادہ مداخلت کی ضرورت نہیں، اس سے بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
ان کے خیال میں حکومت کو چاہیئے کہ وہ خود کو جرائم کی روک تھام اور امن و امان کے قیام تک محدود رکھے اور لوگوں کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ ذاتی زندگیوں میں جو بھی کرنا چاہیں پوری آزادی سے کرسکیں۔
جہاں تک دھاتی ڈور اور چھتوں سے گرنے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کا تعلق ہے ، حکومت کو اس کی اِس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کا نفاذ کر کے لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ کرے۔
'سیاحوں میں بسنت کو صحیح معنوں میں دلچسپی بنانے کے لئے ضروری ہےکہ لوگوں کو کھلی جگہیں فراہم کی جائیں، دوسری صورت میں انہیں جہاں جگہ ملے گی وہ وہیں کھیل شروع کر دیں گے جیسا کہ کرکٹ میں ہوتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ایسے کاموں کے لئے موزوں میدان ہونے چاہئیں نہ کہ یہ کھیل گلیوں میں کھیلے جائیں۔ حکومت کو سیاسی وابستگیوں کو نظر انداز کر کے یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ ممنوعہ مواد کے استعمال پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ بلا امتیاز سختی سے نمٹا جائے۔
لکھاری: محمد سلمان خان
تبصرے (1) بند ہیں