نیو آرمی ڈاکٹرائن
یہ بلاگ تین حصّوں پر مشتمل سیریز کا پہلا حصّہ ہے جس میں پاکستان کے اندرونی دشمن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے؛ اور یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کیوں اور کیسے اس خونخوار عفریت کو کئ دہائیوں تک پالا.
پاکستان کا نیو آرمی ڈاکٹرائن ان لوگوں کے لئے اچھی خبر ہے جو ایک قوم کی حیثیت سے ہماری خیر مانگتے ہیں۔ پینسٹھ سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہماری فوج نے اپنی توجہ مشرقی سرحد سے ہٹا کر شمال مغرب میں مورچہ بند اندرونی دشمن کی طرف کی ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تبدیلی بلوچوں کے خلاف کسی بڑے ایکشن کی تیاری کے لئے نہیں ہے کہ یقیناً بلوچستان کا مسئلہ سیاسی حل مانگتا ہے اور اس سلسلے میں زیادہ سخت فوجی کارروائی زیادہ بڑے المیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اگرچہ فوج کے ترجمان نے ہمارے شیروں اور شاہینوں کو یقین دلایا ہے کہ ہم ہندوستان کو ہی اپنا اولین دشمن قرار دیتے رہیں گے، تاہم اس امر کا اقرار کہ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہے، ہماری تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن ہمارے لئے یہ ادراک ضروری ہے کہ اندرونی دشمن صرف وہ ملک دشمن کارندے ہی نہیں ہیں جنہوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جہاد کر رکھا ہے بلکہ وہ ذہنیت ہے جس نے ان عناصر کو جنم دیا ہے اور جو مستقبل میں بھی ایسے عناصر کو جنم دیتی رہے گی۔
میں نے اپنی کتاب تہذیبی نرگسیت اور بعد کی تحریروں میں اسی ذہنیت پر بحث کی تھی۔ ہماری تاریخ کے حقائق اور واقعات سے یہ واضح ہوا ہے کہ مریضانہ نرگسیت، احساس فضیلت اور خود پسندی ان گنت بدنصیبیوں کو جنم دیتی ہیں حتیٰ کہ معاشرہ جنونی کیفیت کا شکار ہو کر خود کو اور اپنے اردگرد کی ہر شے کو نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
وہ خرابی جس کا اب مقابلہ کرنے کا فیصلہ فوج اور حکومت نے کیا ہے وہ صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں بلکہ سارے خطہ کے امن کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ اب چاہے جتنی بھی محنت درکار ہو، چاہے کتنی ہی قربانیاں دینا پڑیں، ہمیں مملکت اور معاشرہ کی حیثیت سے اپنی بقاء کی خاطر اس ذہنیت کا اور اس کی خالق قوتوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس اس جدوجہد میں ناکام ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ ہماری ناکامی علاقائی قوتوں کو مداخلت کا حق دے سکتی ہے۔ یہ صورتحال ہماری سرزمین کو طوائف الملوکی کی حالت میں لا کر خوفناک خوں ریزی اور اذیت میں ڈال سکتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہ اندر کا دشمن ہماری ہی ان تاریک خواہشوں کا زہریلا پھل ہے جو انیس سو سینتالیس سے اب تک ہمارے دلوں سے مچلتی رہی ہیں۔ یہ جاننا ہمارے لئے ازحد اہم ہے کہ آخر ہماری ایسٹیبلشمنٹ نے اتنے عشروں تک اس عفریت کو کیوں اور کیسے پالا؟ ہم جو عوام ہیں ،اگر اپنی بقاء اور بہتری چاہتے ہیں تو ہمارے لئے اس سچ سے آگاہی ضروری ہے۔
جن طاقت ور مسلم طبقات نے انیس سو سینتالیس میں ہندوستان سے علیحدگی کا مطالبہ منوایا ،کم و بیش وہی تھے جو مختلف شاہی خاندانوں کی سرپرستی میں ہندوستان پر حکومت کرتے آئے تھے۔
یہ زرعی رؤسا، پیروں کے خاندان اور مختلف درجوں کے مذہبی راہنما تھے۔ یہ برطانوی حکمرانوں کے ہاتھوں اپنا اقتدار کھو بیٹھے تھے لیکن ہندوستان پر اپنے دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ پھر کچھ نئے طبقے یعنی برطانیہ کی سول سروس کے مسلم ملازمین اور برطانوی افواج کے مسلم دھڑے بھی اقتدار کی اس خواہش میں پرانے طبقات کے ساتھ شامل ہو گئے۔
یہ سارے گروہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کو ساتھ ملا کر بھی جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے یہ توقع نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ہند کی وسیع آبادی پر حکمران بن سکیں گے، جبکہ ماتحت یا برابر حالت میں رہنا ان کو منظور نہ تھا۔ چنانچہ ان طبقات نے مسلم عوام میں ایک الگ وطن کے مطالبہ پر تحریک پیدا کی ،جس کے لئے مسلم عوام کے دینی فخر اور ہندو اکثریت کا خوف ابھارا گیا۔ کانگرس کے لیڈر اور وہ کروڑوں مسلمان جنہوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا ،اس نظریہ کے حامی تھے کہ ان سارے مذاہب کی اس مشترکہ دنیا میں مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنے کے نتائج تباہ کن ہوں گے، تاہم وہ ہر طرح کی کوششوں کی باوجود مسلم لیگی راہنماؤں کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ خوف اور نفرت سے ابھرے ہوئے جذبات نے ہمارے راستے کا تعین کر دیا اور خالص و منفرد ہونے کا ہمارا احساس بالآخر غالب آگیا۔
عقیدہ اور عقائد کا استعمال دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ وسطی صدیوں کے سبھی حکمران طبقوں کی طرح ہمارے برصغیر کے مسلم حکمران بھی نہایت دنیا دار لوگ تھے،لیکن وہ اسلام کا اظہار دینی قیادت کی بھرپور حمایت حاصل کرنے کے لئے کرتے تھے۔ ہمارے دینی راہنما بھی دنیا داری میں پیچھے نہیں رہے۔ سادہ دل عوام پر حکمرانی کے لئے ان دونوں ظاہردار طبقوں نے تاریخ کے ہر دور میں مل کر مذہب کا استعمال کیا ہے اور ایسا صرف برصغیر کی مسلم بادشاہتوں میں ہی نہیں ہوا بلکہ یہ دنیا کی ہر قدیم تہذیب میں ہوا ہے۔ مثلا یہ مصر میں فرعون اور جادوگر کی شکل میں متحد تھے، ہندوستان میں کھشتری اور برہمن کی صورت میں، مسیحی یورپ میں بادشاہ اور پادری اور عرب سلطنت میں خلفا اور علماء فقہ کے اتحاد میں۔
برصغیر میں بھی مسلم بادشاہوں اور دینی راہنماؤں کا یہ اتحاد خوب کامیاب رہا۔ شاہ ولی اللہ نے ایک زبردست اقتدار پسند دینی راہنماء کی حیثیت سے احمد شاہ ابدالی کو حملہ کرنے کی دعوت دی۔ اقتدار میں شمولیت کے اسی فارمولا کے تحت جب ایک قبائلی سردار اور ایک مقدس دینی شخصیت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تو آج کی سلطنت سعود وجود میں آئی۔ تقریبا ایسے ہی ایک سمجھوتے سے پاکستان بنا جس میں قائداعظم کا مقام ایک شاندار وکیل سے زیادہ نہ تھا جن کا کام ملک بننے کے جلد بعد ختم ہو گیا۔
آزادی قوموں کے لئے ایک جشن کی طرح آتی ہے ،لیکن انیس سو سینتالیس میں برصغیر کی آزادی بچھڑنے اور خون بہانے کی اذیتوں میں لپٹی ہوئی آئی۔ پھر ہندوستان نے اپنے بہت سے مسائل کو حل کر لیا کیونکہ اس کے راہنماؤں نے مذہبی طبقہ کی بجائے جمہوریت پر انحصار کیا، ہندوستانی فوج نے اپنے لئے ماتحت اور معاون کا مقام قبول کیا اور ملک و قوم کے دفاع کا بنیادی کام سیاست اور سفارت کے سپرد ہو گیا ۔
اس کے برعکس پاکستان میں وسطی صدیوں کے نظریات غالب ہو گئے۔ ہمارے عوام کو مجاہد اور مولانا سے عشق و عقیدت کرنا سکھایا گیا تھا چنانچہ علماء اور مذہبی جماعتوں نے پاکستان بنتے ہی اپنے لئے فیصلہ کن حیثیت کا مطالبہ کر دیا۔ زرعی رؤسا کے طبقے نے علماء اور افواج کو اپنا بہترین محافظ محسوس کیا سو آج تک زرعی اصلاحات کو اسلام کی مدد سے ملتوی کیا جاتا رہا ہے۔
ان دونوں مالک طبقوں نے ایک دوسرے کو اسلام کے علمبرداروں کے طور پر آگے بڑھایا اور ہندوستان کے کافروں سے جنگ کرنا بنیادی فریضہ قرار پایا۔ مسئلہ کشمیر کو صرف جذبات ابھارنے کے ایک مستقل بہانہ کی حیثیت سے رکھ لیا گیا، اسے کبھی سنجیدہ طور پر سفارت کے جدید اور موثر اوزاروں سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی حالانکہ سب پر واضح تھا کہ ہماری روز بروز بڑھتی ہوئی مذہبی شناخت کے مقابلہ میں جمہوری اور آزاد ہندوستان کو زیادہ بین الاقوامی دوستوں کی حمایت ملتی تھی۔
ہم نے اپنی تنہائی کو بھی قوموں کے حسد پر مبنی قرار دیا۔ ہماری قوم کو صرف ایک تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملی یعنی اسلام کی قوت سے ہندوستان کے خلاف جنگ کرنے کی تعلیم۔ اس تعلیم نے ہمارے جی ایچ کیو کو مطلق العنان اختیار عطا کر دیا اور اسی نے بالآخر امریکی منصوبوں کی آبیاری کی یعنی اسلام کے سپاہیوں نے کمال وفاداری سے امریکہ کی عالمی فضیلت کے لئے خدمات سرانجام دیں۔ ساتھ ہی ساتھ بین الاقوامی مجاہدین کے لئے پاکستان کے سب دروازے کھول دئیے گئے ۔
وہ فوج جو سیاسی کردار اپنانے کا فیصلہ کر لے ،ایک مستعد دفاعی قوت نہیں رہ سکتی۔ ہماری فوج نے بتدریج کشمیر اور افغانستان میں اپنے فوجی مقاصد کے لئے کچھ موقع پرستوں کو ٹھیکے دئیے اور ان لوگوں کو اسلامی جذبات کی مدد سے ہمارے لئے اپنے عزیز و اقارب سے بڑھ کر محبوب بنا دیا گیا۔ جنرل ضیاء نے ان پرتشدد گروہوں کو جرائم اور منشیات کے ذریعے مال بنانے کی اجازت دی۔ اسی عمل کے دوران شائد ان لوگوں کو ایسے بین الاقوامی خریدار مل گئے ہوں گے جو انہیں پاکستان سے کہیں زیادہ اجرت دے سکتے تھے۔
ممکن ہے کہ پاک افغانیہ کو ایک ملک بنا کر اس پر حکمرانی کے خواب نے ان عناصر کو مزید اکسایا ہو اور ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ مملکت کے یہ دشمن سرحدوں پر بیٹھے ہوئے چند اشخاص نہیں، انہیں ہمارے خوشحال درمیانہ طبقات کی وسیع تائید حاصل ہے۔ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے کمال بےبصیرتی کے ساتھ وہ ذہنیت پیدا کی جو جدید ریاست کے کسی بھی نظام کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ اس ذہنیت کی نظر صرف مولانا اور مجاہد کی تعظیم جائز ہے۔ ہماری دفاعی صفوں کو یقیناً بڑی حوصلہ شکن جدوجہد کا سامنا ہے۔
جاری ہے ….
پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.
تبصرے (1) بند ہیں