جال سے عشقِ ممنوع تک
گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان میں چھوٹی اسکرین کے فنکار تلملائے ہوئے ہیں۔ ان کی بے چینی کسی طور پر کم نہیں ہو رہی اور اس کی وجہ ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے ڈرامے "عشقِ ممنوع" کی غیر متوقع مقبولیت ہے۔
یہ ڈرامہ ایک غیر معروف ٹی وی چینل پر چند ماہ تک نشر ہوتا رہا اورجلد ہی ناظرین ہندوستانی ڈراموں کے سحر سے آزاد ہوگئے۔ دو بڑے ٹی وی چینلوں نے کاروباری مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ترکی سے مزید ڈرامے درآمد کیے اور یوں اس وقت تین مختلف چینلوں پر پرائم ٹائم میں یہ ڈرامے نشر ہورہے ہیں اور ناظرین کی خاطر خواہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
'عشقِ ممنوع' اس حد تک کامیاب ہوا کہ لاہور کے ایک مقامی تھیٹر میں اس نام سے کئی ہفتوں تک ایک ڈرامہ سٹیج کیا جاتا رہا۔
نجی پروڈکشن ہائوسز کے مالکان خوف زدہ ہیں کہ اگر پاکستانی ٹی وی چینلوں پر غیر ملکی ڈرامے نشر کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو اس سے مقامی ڈرامہ انڈسٹری تباہ ہوجائے گی۔ ان کا احتجاج پچاس کی دہائی کے اوائل میں ہونے والے جال ایجی ٹیشن سے مختلف نہیں ہے جس کے شرکا یہ تصور کرتے تھے کہ پاکستانی سینماؤں میں انڈین فلموں کی ریلیز سے لالی وڈ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا یہ احتجاج کامیاب رہا اور بالآخر حکومت نے پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی ریلیز پر پابندی عائد کر دی۔
دہلی اور ممبئی کے دورے زیادہ مہنگے نہیں پڑتے تھے کیوں کہ ایک ٹکٹ میں دو مزے ہوجاتے تھے۔ دہلی یا ممبئی کی سیاحت لطف دوبالا کردیتی اور ایئرکنڈیشنڈ سینماؤں میں حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم دیکھ کر اس کی نقل بنانا نسبتاً آسان ہوتا۔ یوں بہت سے 'جھنجھٹوں' سے جان چھوٹ جاتی۔ چناں چہ پاکستانی فلمی صنعت کے بہت سے بڑے نام محض 'فوٹو کاپیئر' کا کام سرانجام دیتے رہے۔
ستّر کی دہائی کے اوائل میں وی سی آر کی غیرقانونی درآمد نے پاکستانی فلمی صنعت کو ایک بار پھر بحران سے دوچار کر دیا اور بالآخر 1983ء میں وی سی آر درآمد کرنے کی قانونی طور پر اجازت دے دی گئی۔ گلی محلوں میں ویڈیو شاپس کھل گئیں۔ سینماؤں کا روایتی 'چارم' دم توڑنے لگا۔ جبر کے اس دور میں وی سی آر تفریح کا اہم ترین ذریعہ بن گیا۔
یہ اس عہد کی رُوداد ہے جب دنیا بھرکی فلمی صنعتوں میں 'اینگری ینگ مین' کا کردار ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن چکا تھا۔ سلطان راہی اسی دور میں 'دریافت' ہوئے۔ وہ 'کرنسی نوٹ' کا درجہ اختیار کرگئے، یا یوں کہہ لیجئے کہ فلم کی کامیابی کے لیے لازم ہوگئے۔
ضیاء الحق کی 'ڈوپٹہ پالیسی' اور سلطان راہی کا گنڈاسا عوام کی فرسٹریشن میں اضافے کی وجہ بنا۔ یوں لوگوں کا وی سی آر پر انحصار بڑھتا چلا گیا۔ ہر دوسرے گھر سے ہندوستانی فلموں کے مکالموں کی گونج سنائی دیتی۔
پاکستانی فلم سازاپنی خامیوں کی اصلاح کرنے کے بجائے یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہندوستانی فلموں کی ریلیز سے پاکستانی کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ عہدِ حاضر کے ٹی وی فنکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی کچھ ایسا ہی استدلال پیش کر رہے ہیں جو اپنے ڈراموں کا معیار بہتر بنانے کے بجائے تنقید کرنے میں پیش پیش ہیں۔
پہلے ہندوستانی چینلوں پر پابندی لگوائی گئی جو کیبل آپریٹرز کی ہٹ دھرمی کے باعث زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ بعدازاں ہندوستانی ڈراموں کی نقالی شروع کر دی گئی اور سوپ سیریل بنائے جانے لگے لیکن یہ تجربہ بھی ناکام رہا۔ ممکن ہے کہ وہ یہ گمان کرتے ہوں کہ 'اصل سے بہتر نقل' کا فارمولہ ماضی کی طرح کارگر رہے گا۔
ڈائجسٹوں میں کہانیاں لکھ کر لڑکیوں کو خوابوں کے دیس کی سیر کروانے والی خواتین افسانہ نگار اپنی محدود تخلیقی دنیا میں مقید رہیں۔ انہوں نے ڈراموں کے سکرپٹ لکھے جن میں رومان، مذہب اور مزاح کا تڑکہ بھی لگایا لیکن زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اورتب اس خلا کو ترکی، سپین اور دوسرے ملکوں سے درآمد کیے جانے والے ڈراموں نے پورا کیا۔
'عشقِ ممنوع' نے ناظرین کو ایک ایسی دنیا کی سیر کروائی جو حقیقت سے قریب تر ہوتے ہوئے بھی خوابوں کے دیس کی کہانی تھی۔ پرتعیش محل، شاندار ملبوسات، بیش قیمت زیورات، گھریلو سازشیں، کاروباری چپقلش، رومان، ہیرو اور ولن ۔۔۔ یہ ہر اعتبار سے ایک روایتی ڈرامے کے اجزا ہیں لیکن 'عشقِ ممنوع' کی پروڈکشن کا معیار نہ صرف شاندار تھا بلکہ کہانی کا ہر کردار ایک دوسرے سے کچھ یوں مربوط تھا کہ پورے ڈرامے میں کہیں پر بناوٹی پن کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری سے وابستہ اربابِ اختیار نے اس ڈرامے میں ان خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے جو شاید اس میں موجود نہیں ہیں۔ کچھ فنکاروں نے یہ دعویٰ تک کر ڈالا کہ یہ پاکستان پر ثقافتی حملہ ہے۔ بہت سوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ دنیا میں کہیں بھی پرائم ٹائم پر بیرونِ ممالک کے پروگرام نشر نہیں کیے جاتے اور ایسے کتنے ہی احمقانہ جواز پیش کیے گئے۔ یہ بہت بہتر ہوا کہ 'ہندوؤں کی ثقافتی یلغار' کے روایتی نعروں سے جان چھوٹ گئی کیوں کہ اب 'خلافتِ عثمانیہ' کے مرکز سے یہ ڈرامے درآمد کیے جا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصہ تک ہالی وڈ فلمیں اور بچوں کے کارٹون پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ پاکستانی سینماؤں میں ہالی وڈ فلموں کی نمائش ہوتی لیکن فلم بینوں کا محدود طبقہ ہی ان سے لطف اندوز ہوتا تھا، چناں چہ اعتراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن اب ایک ٹھوس جواز ہے اور وہ ان ڈراموں کی ہر خاص و عام میں مقبولیت ہے۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری سے منسلک ہر شخص پریشان ہے لیکن یہ غور کرنے پر کوئی تیار نہیں کہ آخر کیوں کر ناظرین ان ڈراموں کی جانب متوجہ ہورہے ہیں؟ اس کا جواب سادہ سا ہے کہ وہ کچھ نیا دیکھنا چاہتے ہیں جو پاکستانی ڈرامہ پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
پاکستانی فلم انڈسٹری کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ آرٹ کو کمرشلزم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ہندوستان کی علاقائی فلم انڈسٹری میں ستیہ جیت رے، ادور گوپال کرشنن، اپرنا سین اور بہت سے دوسرے ہدایت کاروں نے شاہکار تخلیق کیے ہیں لیکن ہم اپنی قومی زبان میں بھی عالمی سطح کی کوئی ایک فلم نہیں بنا سکے۔ پی ٹی وی کے ڈراموں نے ایک معیار ضرور قائم کیا لیکن ان پربھی مصنوعی پن خاصی حد تک حاوی رہا۔ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ بلے باز سنچری مکمل کرلے لیکن ضروری نہیں کہ میدان میں فیلڈنگ بھی کھڑی کی جائے۔
میں بے مثل برطانوی شاعر ٹی ایس ایلیٹ کے ان الفاظ سے مشروط پر اتفاق کرتا ہوں کہ: 'ٹیلی ویژن تفریح کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے باعث لاکھوں لوگ ایک ہی وقت میں ایک ہی لطیفہ سن سکتے ہیں اور اس پر خوش ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی تنہائی ختم نہیں ہوتی۔'
میرا خیال ہے کہ ایک بہترین ڈرامے میں لوگوں کو جھنجھوڑنے کی خوبی ہوتی ہے۔ وہ ان کی تنہائی کے لمحات میں، سوچوں کے تسلسل میں اور خوابوں کے ویران جزیرے پر دستک دیتا ہے اور شاید ترکی کے تخلیق کار اس حقیقت کا زیادہ بہتر طور پر ادراک کرچکے ہیں۔
علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں