جنوبی پنجاب صوبہ
بہاولپور کی موجودہ بنیاد پر جنوبی پنجاب میں ایک نئے صوبے کے قیام کے تصور نے کچھ آگے کی طرف پیش رفت کی ہے۔
آگے کی طرف اس سفر میں نئے صوبہ کے تصور نے کچھ نئے حامیوں کی حمایت حاصل کی تو بعض کھو بھی دیے۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی میں تبدیلی آئی ہے، نئے صوبائی دارالحکومت کے لیے ملتان کے بجائے بہاولپور پر اتفاق اہم ہے۔
یقینی طور پر، مسلم لیگ ن اور ان کی ساتھی جماعتوں نے اس پیشرفت کو گرم جوشی سے نہیں لیا ہے۔
مسلم لیگ نون نے بھی ایک مرتبہ بہاولپور صوبے کو ملتان کی بنیاد پر قائم 'سرائیکی صوبہ' کے مطالبے کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اب انہوں نے صوبے کی تشکیل کے لیے قائم پارلیمانمی کمیٹی سے دوری اختیار کررکھی ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ ملتان اور بہاولپور صوبہ بنائے جائیں اوراس کمیشن میں اس پر غور ہو۔
مسلم لیگ نون کا کہنا ہے کمیٹی کی سماعتیں غیر قانونی ہیں۔ ساتھ ہی صوبوں کے قیام کی دلیل پر جوابی دلیل ہے کہ اس طرح کی کوشیں کرنے سے قبل ضروری تھا کہ درکار آئینی ترامیم کرلی جاتیں۔
اگرچہ ان تمام نکات کی بنیاد سیاست پر ہے لیکن اگر منصوبہ خام ہے تو پھر ہمارے جذباتی سیاستدانوں کے لیے تو اور زیادہ جارحانہ ہوگا۔ انتخابات سامنے ہیں اور جو ہم دیکھ رہے وہ جماعتوں کے اپنے اپنے 'حلقہ انتخاب' کے لیے ضروری ہیں۔
پیپلز پارٹی نے دوسرے خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس سرزمین کو منتخب کیا۔ ایک بار جب اس نے یہ فیصلہ کیا، تب اس کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے تندی سے آگے بڑھنے پر اسے نقصان اٹھانے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔
جب انہوں نے نئے صوبوں کے قیام کی کوشش شروع کی تو اچھی طرح جانتے کہ پنجاب اسمبلی کی مرضی کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی اور وہاں مسلم لیگ ن اکثریت میں ہے۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مسلم لیگ ن اپنے حامیوں کی بنیاد والے علاقے کی تقسیم کے معاملے پر جانتے بوجھتے نئے صوبہ کے قیام کی بحث پر شامل نہیں ہو گی۔
دونوں جماعتیں ملک گیر سطح پر اپنی پہچان اور وجود رکھنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان کی طرف سے ایک علاقائی مسئلے کو مضبوط اور قابلِ اطمینان بحث کے بغیر حل کرلیا جانا خطرناک عمل ہوسکتا ہے۔
علاوہ ازیں نئے صوبے کے قیام کی سرپرستی کرنے والوں نے، مزید کسی پیچیدگی سے بچنے کے لیے جنوبی پنجاب کے نقشے سے سرائیکی بولی کے بعض اکثریتی علاقے خارج کردیے ہیں۔
عام انتخابات میں حمایت اور لوگوں کے جذبات ابھارنے کے لیے منصوبہ سازوں کو عمل کی جلدی ہے، انہیں علم ہے کہ اگر اس کام کو ادھورا چھوڑا تو پھر بعد میں وہ واپس پلٹ سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک حقیقی خطرہ اور بھی ہے، یہ مطالبہ پورا ہوا تو پھر ملک گیر سطح پر اس طرح کے بٹوارے کے مطالبات سراٹھاسکتے ہیں۔ پھر ایسا کرنا ناگزیر ہوگا، چاہے نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ نسلی بنیاد پر ہو یا انتظامی۔
جنوبی پنجاب صوبہ اس مطالبے میں پہلا ہوسکتا ہے لیکن اس کے بعد قطار مختصر نہیں ہوگی۔ لوگوں کو نچلی سطح (گراس روٹس لیول) پر با اختیار بنانے کے مطالبے کی منزل یہ نہیں ہوسکتی۔
لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے بلدیاتی سطح پر گورنس نظام درکار ہے اور سیاست دانوں کو اس پر اتفاقِ رائے کرلینا چاہیے۔
تبصرے (3) بند ہیں