• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

جنوبی پنجاب کے مسائل کا حل الگ صوبہ ہی ہے؟

شائع January 25, 2013

bt-cotton-afp 670
جنوبی پنجاب کپاس کی کاشت کا بڑا مرکز ہے.....فائل فوٹو

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن نے نئے صوبے کا نام بہاولپور جنوبی پنجاب رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ جبکہ مجوزہ بل  کو کل بروز چھبیس جنوری، حتمی شکل دے کر پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے گا۔

کل اسلام آباد میں نئے صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کا اجلاس سینیٹر فرحت اللہ بابر کی صدارت میں ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں نئے صوبے کا نام ‘بہاولپور جنوبی پنجاب’ رکھنے پر اتفاق ہوگیا۔ کمیشن نے میانوالی اور بھکر کو بھی نئے صوبے میں شامل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

اجلاس میں، ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے چودہ اراکین پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔ ارکان نے تجویز دی کہ نئے صوبوں کے لیے پانی کے مسئلے پر ارسا حکام سے بریفنگ لی جائے اور کمیشن جھنگ اور ساہیوال کے نمائندوں کا مؤقف بھی سنے۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے رکن اور وفاقی وزیر مملکت برائے پیداوار خواجہ شیراز کا کہنا تھا کہ ہمیں پانی کے وسائل کی تقسیم قبول ہے، نہ ہی ہم بیراجوں کی تقسیم قبول کریں گے۔ محسن لغاری نے تجویز دی کہ نئے صوبے کا دارلحکومت ملتان اور گورنر ہاؤس بہاولپور میں ہونا چاہیے۔ قیوم جتوئی نے نئے صوبے کا نام بہاولپور رکھنے کی تجویز دی جسے کمیشن نے مسترد کردیا۔

پارلیمانی کمیشن کے اجلاس کے بعد کمیشن کے رکن کامل علی آغا نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میانوالی اور بھکر کو نئے صوبے میں شامل کرنے سے متعلق مسلم لیگ قاف کا مطالبہ بھی مان لیا گیا ہے۔

کمیشن کے چیئرمین فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کے لئے آئین میں سات سے آٹھ ترامیم کی تجویز ہے۔ اس حوالے سے آئینی ترمیم بل جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

پیپلزپارٹی کے وہاڑی سےقومی اسمبلی کے رکن محمود حیات خان ٹوچی نے پارلیمانی کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں اردواور پنجابی بولنے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد مقیم ہے۔

بدھ کے روز جب وفاقی وزیر برائے قانون فاروق ایچ نائیک سے رابطہ کیا گیا تھا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی وزارت نے جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل کے سلسلے میں ایک ترمیمی بل کا ڈرافٹ مذکورہ کمیشن کے حوالے کردیا ہے۔

pakistani-poor-children-looking-for-food-thrown-by-traders670
جنوبی پنجاب میں غربت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کمیشن کی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہےاور اس کی جانب سےپہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے کہ وہ  اس کمیشن کی سفارشات کو قبول نہیں کریں گے۔ پارٹی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمانی عمل کو برباد کردینا چاہتی ہے جو نئے صوبے کی تشکیل کے ضروری ہے۔ 'نئے صوبے کی تشکیل اگلے الیکشن کے حوالے سے صرف سیاسی مفاد  حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے'۔

کمیشن کے ایک رکن متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی پارٹیاں اتحاد اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے لوگوں کی مشکلات کو پیش نظر رکھیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر گیلانی نے پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے کمیشن کی کارروائی کے بائیکاٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر پنجاب اسمبلی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو نیا صوبہ ایک مہینے میں بن سکتا ہے۔کمیشن اپنا کام کررہا ہے اور لوگ ازخود یہ فیصلہ کرلیں گے کہ کس نے کیا کردار ادا کیا ۔’

جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کی تحریک نئی نہیں ہے۔ سرائیکستان کے نام سے یہ تحریک ترقی پسند فکر کے حامل رہنما تاج محمد خان لنگاہ نے برسوں پہلے شروع کی تھی۔ انہیں نئے صوبوں کےقیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کے لیے بنائی گئی ماہرین کی ایک کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

گزشتہ سال چوبیس دسمبر کو ماہرین کی اس کمیٹی نے بریفنگ کے دوران کمیشن کو جنوبی صوبے کے قیام کی  تجویز پیش کی تھی۔ اس کمیٹی  میں تاج محمد لنگاہ کے علاوہ خیر محمد بدھ اور رفعت الرحمان رحمانی شامل ہیں۔

پاکستان سرائیکی پارٹی کے سربراہ تاج محمد لنگا نے کمیشن کو اہم دستاویزات بھی پیش کی تھیں۔ جب جنوبی پنجاب میں مذہبی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھیں اور متواتر دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے تھے تو تاج محمد لنگاہ نے ان واقعات کو سرائیکی صوبہ تحریک کی آواز کو دبانے کی ایک کوشش قرار دیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ‘جنوبی پنجاب میں جو اچانک دہشت گردی کے حوالے سے بات کی جارہی  ہے، اس کی اصل وجہ سرائیکی صوبے کے لیے جاری تحریک ہے۔ہماری جمہوری پر امن تحریک کو دبانے کے لیے یہ شوشا چھوڑا گیا ہے کہ یہاں دہشت گردی کا خطرہ ہے، یہاں فوجی آپریشن ہونا چاہئیے۔ میرے خیال میں  اس کے پیچھے پنجاب کی حکومت کا ہاتھ ہے۔’

لیکن تاج محمد لنگاہ کی بات پر پوری طرح یقین کرنا اس لیے مشکل ہے کہ جنوبی پنجاب میں شدت پسند گروہ اپنی جڑیں کافی عرصہ پہلے سے مضبوط کرچکے ہیں اور ان کا دائرہ اثر مسلسل پھیلتا بھی جارہا ہے۔

madrassa1-670
ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں بارہ ہزار رجسٹرڈ مدارس میں سے سات ہزار سے زائد مدارس جنوبی پنجاب میں کام کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔فوٹو اے ایف پی

معروف عسکری تجزیہ نگارعائشہ صدیقہ نے ڈان میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں تحریر کیا تھا: ‘پنجاب میں ایک مختلف قسم کی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی پائی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کا قصہ بھی ایک طرح سے سوات جیسا ہی ہے، جہاں سلفیت آہستہ آہستہ مضبوط ہورہی ہے اور عسکریت پسندی جڑ پکڑ رہی ہے۔ اگرچہ تبدیلی کا عمل  1947ء سے پہلے سے جاری ہے لیکن 1980ء کا عشرہ وہ زمانہ ہے جب واضح طور پر انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسندی  اس علاقے میں متعارف کرائے گئے۔’

عائشہ صدیقہ کے مطابق ‘ضیاءالحق نے دینی مدارس کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جو اس علاقے کے روایتی مدرسوں ( جو بالعموم خانقاہوں سے منسلک تھے) کے برعکس سلفی عقائد کے تھے۔ بعد کے سالوں میں جنوبی پنجاب کشمیر کی آزادی کے لیے مجاہدین کی بھرتی کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ تبلیغی جماعت اور کٹر عقائد والے مدارس کے زور پکڑنے کے بعد میں عسکریت پسند گروپوں کے لیے راہ ہموار ہوتی گئی۔’

وہ مزید بیان کرتی ہیں کہ‘اس خطے کے اندر عسکریت پسندی کے فروغ میں ریاستی مدد بھی شامل حال رہی ہے اور یوں اس کو پنپنے میں خاصی مدد ملتی رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور عسکریت پسند گروہوں میں بالعموم ایک رابطہ یا مفاہمت قائم رہی ہے کیونکہ بیشتر سیاستدان عسکریت پسندوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔  1993ء کے الیکشن کے بعد سپاہ صحابہ پاکستان اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت یا 2008ء کے الیکشن کے دوران مسلم لیگ نون  اور سپاہ صحابہ کےمابین ڈیل، بڑی سیاسی جماعتوں اور عسکریت پسندوں کے تعلقات کی مثالیں ہیں۔ جبکہ آج کل جنوبی پنجاب میں سپاہ صحابہ مسلم لیگ نون  کی حمایت کررہی ہے۔’

تاج محمد لنگاہ کی طرح جنوبی پنجاب میں شدت پسندی اور عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی خبروں کو رد کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خطہ صوفی بزرگوں کا مرکز رہا ہےچنانچہ اس خطے میں شدت پسندی جنم نہیں لے سکتی۔

اس خیال کی حمایت کرنے والوں میں، دانشور اور مفکر ہی نہیں بہت سی حکومتی شخصیات بھی شامل ہیں۔ عائشہ صدیقہ اس ضمن میں کہتی ہیں کہ ‘یہ خیال ایک حد تک تو درست ہو سکتا ہے تاہم زمینی حقائق اس سے سوفیصد مطابقت نہیں رکھتے۔’

یوں تو  صوفیانہ افکار میں وحدت نوع انسانی پر زور دیا جاتا ہےاور امن و آشتی کا پرچار کیا جاتا ہے لیکن صوفیانہ تعلیمات غربت، پسماندگی، طوائف الملوکی اور حکمرانوں کے ظلم و ستم جیسے عناصر سے نمٹنے کے لیے کوئی راستہ نہیں دکھاتی، جو شدت پسندانہ افکار  کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ‘صوفیانہ تعلیمات کی ترویج سے مذہبی شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے سامنے کسی حد تک بندھ باندھا جا سکتا ہے۔’

جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام اپنے تمام ظلم وستم کے ساتھ قائم ہے۔ بہت سے جاگیردار گھرانے صدیوں سے یہاں اپنا اقتدار قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کا محض سیاسی اثر و رسوخ ہی نہیں ہے بلکہ کئی ایک گھرانوں میں روحانی سلسلوں کی گدی نشینی بھی چلی آرہی ہے۔

bahawalpur-uch-sharif-670
جنوبی پنجاب میں ایک خاتون صوفی بزرگ بی بی جیوندی کا مزار۔ اس خطے میں صوفیائے کرام نے اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں، صوفیانہ تعلیمات کی ترویج سے یہاں مذہبی شدت پسندی اور عسکریت پسندی کے سامنے کسی حد تک بندھ باندھا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

یہ جاگیردار گھرانے اپنے علاقوں پر ایسا کنٹرول قائم کیے ہوئے ہیں کہ ان کے ووٹ کسی صورت ادھر اُدھر نہیں ہوتے۔ ان گھرانوں کے افراد نے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد بھی مقامی لوگوں حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا ہے۔

عائشہ صدیقہ اس ضمن میں لکھتی ہیں کہ ‘سابق صدر فاروق لغاری کے آبائی ضلع ڈیرہ غازی خان میں پسماندگی کی شرخ خوفناک حدود کو چھو رہی ہے۔ اس علاقے میں چھوٹے زمیندار لغاری قبیلے کے سرداروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمین بھی فروخت نہیں کر سکتے۔ ان حالات میں غریب اور بے اختیار لوگ شدت پسند تنظیموں کا آسان ہدف ہیں جو انہیں رقم کی پیشکش کرتی ہیں۔’

پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کی ایک رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں بارہ ہزارایسے مدارس ہیں جن کا سرکاری ریکارڈ میں اندراج ہوچکا ہے۔ ان میں سے سات ہزار سے زائد رجسٹرڈ مدارس جنوبی پنجاب میں واقع ہیں جبکہ ایسے مدارس جو غیر رجسٹرڈ ہیں اور جن کا سرکاری طور پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہیں، ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔

سینٹرل ایشیاء آن لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق بہاولپور میں عسکریت پسند کی تربیت حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ ‘ہمارا علاقہ اقتصادی لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ ہماری آبادی معاشی اور سیاسی لحاظ سے خاصی پست مقام پر کھڑی ہے اور ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ ’

یہاں کے نوجوانوں کے لیے مذہبی مدرسوں کےعلاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے، جہاں انہیں ناصرف مذہبی تعلیم بلکہ تین وقت کا کھانا اور کپڑا تک فراہم کیا جاتا ہے۔ ان کے ناپختہ ذہنوں میں صحیح اور غلط کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ جب وہ مدرسوں میں کچھ وقت گزار لیتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں ایک خاص ذہن تشکیل پاچکا ہوتا ہے اور ان کے اندر یہ فخریہ طور پر احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں۔

غربت، ناخواندگی، جاگیرداری اور کٹر مذہبی رجحانات کے باعث جنوبی پنجاب طالبان کی بھرتی کے لیے انتہائی موزوں علاقہ بن چکا ہے۔ غربت کی موجودہ سطح ہی اس علاقے کو عسکریت پسندوں کا ممکنہ مرکز بنانے کے لیے کافی ہے۔ غریب والدین اپنے لڑکوں کو خوشی خوشی مدارس کے حوالے کر دیتے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق بہاولپور کے ایک رہائشی مختار کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں میں واقع ایک مدرسے سے میرا بھانجا غائب ہو گیا۔ مختار کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ مذہب کے ایک متشدد نظریہ سے متاثر ہونے کے بعد عسکریت پسندوں کے پاس چلا گیا۔ 'میں اسے تلاش کرنے یا مدرسے کے منتظم طاقتور مولوی سے ٹکر لینے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا'۔

ذرائع نے بتایا کہ جیش محمد کا ہیڈکوارٹر بہاولپور میں ہے اور وہاں اس نے ایک بہت بڑا مدرسہ بھی قائم کر رکھا ہے جہاں بچوں کو انتہاپسندی کا درس مذہب کے نام پر دیا جاتا ہے۔ مدارس جانے والے بیشتر طلباء اس قدر غریب ہوتے ہیں کہ وہ باقاعدہ اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔

عسکریت پسند نوجوانوں کو سہانے خواب دکھاتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں مالی طور پر خاصی مضبوط ہیں اور ان کے نسبتاً بہتر رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ایسے نوجوان یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ وہ بھی غربت کے چنگل سے نکل کر بہتر مقام و مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔

گو کہ بہت سے تجزیہ نگار اس بات کو رد کرتے آئے ہیں کہ شدت پسندی کے فروغ کی اصل وجہ غربت ہی ہے۔ لیکن حقائق ان کے خیال کے برعکس تصویر پیش کرتے رہے ہیں۔

multan 670
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملکی سطح کے دو بڑے سیاستدان جو اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچے، سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور جاوید ہاشمی۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

آج اکیسویں صدی میں جنوبی پنجاب کے بہت سےعلاقوں میں انسان اور جانور ایک گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پنجاب کے اس خطے میں سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے طرح لوگوں کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔

یہ درست  ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بڑے شہروں اور چھوٹی بستیوں کا معیار زندگی ایک جیسا نہیں ہوتا، لیکن یہ بھی کوئی تسلی بخش صورتحال تو نہیں ہے کہ اس تفریق کو یونہی برقرار رکھا جائے کہ ایک طرف تو زندگی کی ساری آسائشیں میسر ہوں اور دوسری جانب ملک کے کروڑوں عوام کو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جائے۔

 پچھلے پندرہ بیس سالوں کے دوران جنوبی پنجاب کے باشندوں کی اکثریت میں یہ احساس شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے کہ پنجاب کے وسائل کا زیادہ تر حصہ لاہور اور اس کے گردونواح پر خرچ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب تعلیمی، ثقافتی، اقتصادی اور شہری سہولتوں کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

دوہزار دو کی مردم شماری کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سرائیکی اضلاع کی آبادی تین کروڑ سے زیادہ تھی۔ تاریخی اور انتظامی اعتبار سے سر ائیکی خطہ ملتان ڈویژن، میانوالی اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع اوربہاولپور ریاست پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کی تشکیل اسی وقت ممکن ہوسکے گی، جبکہ پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے ایک قرارداد کثرت رائے کے ساتھ منظور کرلی جائے۔ جس کا امکان تاحال نظر نہیں آتا کہ مسلم لیگ نون الیکشن سے قبل ایسے کسی عمل کو آگے بڑھنے دے گی، جس کے نتیجے میں بالائی پنجاب میں موجود اس کی حمایت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہوسکے۔

جنوبی پنجاب کے خطے کو اگر الگ صوبہ بنانے کا ارادہ واقعتاً سنجیدگی کا مظہر ہے اور اس کے پس پردہ مسلم لیگ نون کے وہ خدشات نہیں ہیں جس کے تحت وہ یہ محسوس کر رہی ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم کا حصہ ہے۔

 تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خطے کے عوام کا مستقبل غربت کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندی کے عفریت کے حوالے کردیا جائے گا؟

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jan 25, 2013 05:40pm
میں متعصب نہیں ہوں، اور یہ حقیقی وقعہ ہے کہ میں نے اب سے بہت پہلے ملتان کا سفر کیا تھا. ایک سرکاری دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا. ایک نو جوان وہاں کام کر رہا تھا، اس نے بتایا کہ وہ لاہور سے ہے اور یہاں اس لیے آیا ہے کہ مقامی لوگ کام نہیں کرنا چاہتے. سڑک پر ایک مقامی نوجوان ملا جس سے جب بات کی تو اس نے بتایا کہ وہ بی اے پاس ہے لیکن اسے نوکری نہیں ملتی کیوں کہ لاہور سے لوگوں کو لا کر یہاں بٹھایا جاتا ہے. آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مثائل کس ڈھب سے ہیں.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024