ہندو انتہا پسندی اور اسلام پسند
میری چند روز قبل ہندوستان میں ایک دوست سے بات ہورہی تھی۔ یوں ہی برسبیلِ تذکرہ یا دوسرے لفظوں میں اپنی صحافتی تشنگی کو بجھانے کے لیے ہندوستانی وزیرِ داخلہ سشیل کمار شندے کے حال ہی میں ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے دیئے گئے بیان پرتبادلۂ خیال ہونے لگا۔
میَں اس بیان کی پاکستانی میڈیا اور خاص طور پر "ہندوستان سے رشتہ کیا؟ نفرت کا گولی کا" یا "ہندوستان سے دوستی، پاکستان سے غداری" کا نعرہ لگانے والوں کے نقطۂ نظرسے ہٹ کر مزید تفصیل جاننا چاہتا تھا، چناں چہ گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔
میرے دوست کا مؤقف تھا کہ "ہندو انتہا پسندی کے خطرے سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بیان کی 'ٹائمنگ' نہایت اہم ہے۔ ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں اورحکمران جماعت کانگریس ووٹروں کو ہندو انتہا پسندی کے خطرے سے ڈرا کر بی جے پی کے حوالے سے ناپسندیدگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستان میں دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی دہشت گرد کیمپ کی نشاندہی کی جاسکی ہے۔"
اس وقت میں قہقہہ لگائے بغیر نہیں رہ سکا اور کہہ اٹھا: "ہندوستان میں کوئی بم دھماکہ ہوا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں شندے صاحب کے بیان نے خاصی ہلچل مچا دی ہے۔"
جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید، جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن سمیت دائیں بازو کے سیاسی رہنما خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، حتیٰ کہ انہوں نے امریکہ سے یہ مطالبہ تک کر ڈالا ہے کہ "امریکہ ہندوستان میں دہشت گردی کے کیمپوں پرڈرون حملے کرے۔"
یوں یہ صاحبانِ علم و دانش "امن کے پیامبر" بن کر ابھرے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور ان کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے ۔
میرا خیال ہے کہ ان کا مؤقف درست ہے۔ ہر واقعہ کا ایک ہی 'عینک' سے تجزیہ کرنا درست نہیں۔ خاص طور پر جب 'میڈ ان چائنہ' عینکیں خاصی کم قیمت پر مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
'قوم کی بیٹی' نے کتنے ہی مہینے امریکی عقوبت خانے میں گزار دیئے ہیں لیکن اہلِ پاکستان اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ وہ امریکی ظلم و بربریت پر خاموش رہے۔ 'دینی بھائیوں' سے یہ برداشت نہیں ہوسکا اور انہوں نے الجیریا میں گیس فیلڈ پر حملہ کرکے مغربی شہریوں کو یرغمال بنا لیا اور محض اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ کیا امریکی فوجی اہلکاروں پر گولی چلانا اس قدر بڑا جرم تھا کہ اس پر سزا ہی دے دی جاتی؟
ہندو بہت کینہ پرور ہیں۔ انہوں نے اجمل قصاب کو پھانسی دی اور خاموشی سے اس کی تدفین بھی کردی۔ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور الٹا پاکستان پر الزام دھرا۔
ہندوستان کے مسلمان ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گردی سے اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ وہ پاکستان میں آباد ہونا چاہتے ہیں لیکن سرحد پر لگی باڑ ان کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔
دو ہزار دس کے اوآخر میں پاکستانی میڈیا نے ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ہندو انتہا پسندوں کے درمیان روابط کا پردہ چاک کر دیا تھا لیکن امریکی و برطانوی میڈیا کے پروپیگنڈا کے سامنے پاکستان کے انگریزی و اُردو اخبارات نے گھٹنے ٹیک دیئے اور اس خبر کو ‘‘جھوٹ’’ قرار دیتے ہوئے قارئین سے معذرت کرلی۔
لیکن دیکھ لیجئے! میرے خدشات درست ثابت ہوگئے۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ کینیڈا میں سکھ انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگرآپ زیادہ اصرار کرتے ہیں تو اپنا ذریعہ بھی بتا دیتا ہوں۔ اگرچہ یہ صحافتی اصولوں کے خلاف ہے لیکن اب آپ سے کیا چھپانا! گزشتہ برس نومبر میں برطانیہ میں ہندوستانی فوج کے سابق جرنیل کلدیپ سنگھ برار(یہ موصوف اسّی کی دہائی میں گولڈن ٹیمپل پر ہونے والی فوجی لشکرکشی کا حصہ تھے) پر قاتلانہ حملہ ہوا جس پر ہندوستانی حکام نے کینیڈین وزیراعظم سٹیفن ہارپر سے کینیڈا میں مقیم سکھ کمیونٹی میں فروغ پذیرشدت پسند رویوں پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس پر قابو پانے کا مطالبہ کیا۔
بہتر یہ ہے کہ امریکہ اپنے ہمسایہ ملک میں ابھرنے والے اس خطرے سے نپٹنے کے بعد قبائلی علاقوں کا رُخ کرے تاکہ شدت پسند گروہوں کے ارکان کو بھی سکون کی چند ساعتیں نصیب ہوسکیں۔ لیکن کیا معلوم کہ اس امریکی کارروائی میں خالصہ تحریک کے کتنے ہی بے گناہ رہنما مارے جائیں؟
سالِ گزشتہ کے دوران امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات میں معصوم انسانی جانوں کی ہلاکت نے خاصا افسردہ کیا۔ تمام مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس پر اپنے اپنے 'انداز' سے افسوس کا اظہار کیا لیکن اس کے باوجود مسلمان ہی قصور وار ٹھہرائے جاتے ہیں؟ میرا مشورہ ہے کہ امریکہ سب سے پہلے اپنے ملک کو شدت پسندوں سے پاک کرے اور'بیش قیمت' ڈرون حملوں کو معصوم قبائلیوں پر ضائع کرنے سے گریز کرے۔
شام کے صدر بشارالاسد کہتے ہیں کہ 'گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور اب اسی دہشت گردی کو شام میں فروغ دیا جارہا ہے۔' اگرچہ وہ بجا فرماتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ان کی اپنا اقتدار بچانے کی ایک کوشش ہے۔ وہ ایک سیکولر حکمران ہیں اورسب سے اہم یہ کہ ایک اقلیتی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیبیا میں امریکی جارحیت غلط تھی لیکن مصر میں اسلام پسندوں نے عوام میں اپنی مقبولیت کے باعث اقتدار تک رسائی حاصل کی اور سیکولرز کو سی آئی اے کی مدد کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اسی طرح اسّی کی دہائی میں مجاہدین نے تن تنہا سویت یونین کو شکست دی۔ امریکہ پاکستانی فوجی جرنیلوں کو نوازتا رہا اوردوسری جانب مجاہدین نے دنیا کی ایک بڑی طاقت کو نہ صرف افغان سرزمین سے پسپا کیا بلکہ اس کا اتحاد بھی پاش پاش ہوگیا۔ یہ جذبۂ ایمانی ہم وطنوں میں سے ناپید ہوتا جارہا ہے۔ لیکن ہم اپنے اصولی مؤقف پر ہنوز ڈٹے ہوئے ہیں کہ 'امریکہ کا جو یار ہے! غدار ہے،غدار ہے!'
اگر انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے امریکہ سے کچھ امداد مل جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔ ہم عظیم فرانسیسی مصنف اور فلسفی البرٹ کامیو کے ان الفاظ سے متفق ہیں کہ 'قیامِ امن کے لیے جدوجہد سب سے مقدم ہے۔' امریکی امداد کے حصول کا مقصد بھی یہی تھا۔ میڈیا نے خوامخواہ غلط رنگ دے دیا۔
علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں