'پہلوانی سے بہتر ہے کچھ اور کر لیں'
لاہور: لاہور شہر کا ایک اکھاڑہ پچھلی کئی دہائیوں سے کشتی کے نامور گھرانے کے پہلوانوں سے آباد رہا۔
لیکن آج یہاں ویرانی ہے اور یہ اجاڑ پن ملک میں اس کھیل کے معدوم ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس اکھاڑے کے ایک کونے پر موجود صدیوں پرانے درخت کے ساتھ بھولو برادران کی قبریں ہیں اور خاکروب ان کے مزار کی صفائی میں مصروف ہیں۔
مٹی کے اس اکھاڑے میں ہر طرف ایک خاموشی سی چھائی ہے۔ تن سازی کا سامان پر گرد جمی ہے جبکہ یہاں موجود ایک چھوٹا سا باغ خستہ حال ہو چکا ہے۔
غربت اور حکومتی سر پرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کھیل اب تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اب تو پاکستانی پہلوانوں کا تابناک ماضی بھی لوگوں کی یادوں سے مٹتا جا رہا ہے۔
ان حالات میں چند ایک ہی مشعل برادر رہ گئے ہیں جو موجودہ نسل کو راہ دکھا رہے ہیں۔
انیس سو چوّن سے انیس سو ستر کے دورمیانی عرصے میں پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں کشتی میں سونے کے اٹھارہ، ایشیئن گیمز میں پانچ اور انیس سو ساٹھ کے اولمپکس میں ایک کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
ماضی کے برعکس، حالیہ عرصے میں 1986 کے ایشیئن گمیز میں سونے کا ایک، جبکہ 2010 کے کامن ویلتھ گیمز میں دو تمغوں کے علاوہ، پاکستان کشتی کے عالمی میدان میں کچھ نہ کر سکا۔
وہ اکھاڑے جو کبھی ہزاروں کا مجمع اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب رہتے تھے ، اب ویران ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں اس کھیل کے نامور بھولو گھرانے کے آخری شہرہ آفاق پہلوان جھارا کے بھائی عابد اسلم بھولو کہتے ہیں کہ وہ کشتی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔
عابد نے کشتی کرنے کے بجائے کاروبار کو ترجیح دی، جس کے بعد اس خاندان کا فن پہلوانی سے ناطہ ختم ہو گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ' تمام شہرت گنوا دینے کے بعد اب ان سنہرے دنوں کا ذکر بہت تکلیف دہ ہے'۔
اس گھرانے کے پہلوان 1850ء سے اس فن کی خدمت کررہے تھے۔
بھولو، اعظم، اسلم ، اکرم اور گوگا، یہ تمام بھائی مینار پاکستان سے سامنے اور داتا دربار کے عقب میں موجود اکھاڑے آباد رکھتے تھے۔
ان سب نے عالمی میدانوں پر بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔
بھولو نے 1953 میں امریکی پہلوان لوئی تھیز اور پھر ہندوستان کے دارا سنگھ کو چیلنج کیا تھا، تاہم دونوں نے ہی مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔
انیس سو سڑسٹھ میں بھولو نے پوری دنیا کو چیلنج کیا کہ انہیں ہرانے والے کو وہ پانچ ہزار پاؤنڈز انعام دیں گے۔
پھر اسی سال بھولو نے انگلو فرنچ ہیوی ویٹ چیمپئن ہیری پیری کو لندن میں چت کر کے ورلڈ ہیوی ویٹ ٹائٹل اپنے نام کیا۔
اسلم اور اعظم نے بھی پچاس کی دہائی میں دنیا کے کئی چیمپئن پہلوانوں کو شکست دی۔
اکرم کو تو 'ڈبل ٹائگر' کا خطاب دیا گیا کیونکہ انہوں نے 1953 میں یوگینڈا کے چیمپئن ادی امین کو چت کیا تھا۔
انیس سو اکیانوے میں اکتیس سال کی عمر میں وفات پانے والے جھارا اس خاندان کا آخری بڑا نام ثابت ہوا۔
ان کے بھائی عابد کاروباری شخصیت ہیں، تعمیراتی شعبہ سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ایک منی ایکسچینج کا دفتر اور درآمد برآمد کا کام بھی کرتے ہیں۔ اور ان سب سے وہ اتنا زیادہ کما لیتے ہیں جتنا پہلوانی کرنے سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے اے ایف پی کو انٹرویو میں بتایا کہ ' اب پہلوانوں کی کوئی قدر نہیں، اس کھیل میں پیسہ نہیں ہے تو کیوں لوگ اس شعبہ میں آئیں گے'۔
' پہلے نمبر پر قائم رہنا مشکل ہے۔ اور جب آپ پہلے نمبر پر موجود ہوں اور اس کے باجود آپ کی عزت نہ کی جائے، حکومت حوصلہ افزائی نہ کرے اور آپ کے خاندان کے پاس وسائل بھی نہ ہوں تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ آپ کوئی اور کام کریں تاکہ آمدنی کا ذریعہ بن سکے'۔
کئی صدیوں تک ، برصغیر کی ریاستوں کے حکمران اپنے حریفوں سے مقابلوں کے لیے پہلوان رکھا کرتے تھے۔
یہ حکمران اپنے پہلوانوں کی خوراک کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں تنخواہ بھی دیتے تھے کیونکہ ان کی کامیابی سے ریاست اور حکمران دونوں کی واہ واہ ہوا کرتی تھی۔
لیکن 1947 میں برصغیر ہند کی تقسیم کے بعد، پاکستانی ریاست کے حکمرانوں نے اپنے پہلوانوں کو نظر انداز کر دیا۔
اس فن سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1947 میں پاکستان میں تین سو اکھاڑے موجود تھے جن میں اب صرف تیس ہی بچے ہیں۔
اسی طرح، پہلوانوں کی تعداد سات ہزار سے کم ہو کر محض تین سو رہ گئی ہے۔
اس کھیل میں دلچسپی رکھنے والے وسطی اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کچھ نوجوانوں نے اب بھی چند اکھاڑے آباد کر رکھے ہیں۔
انیس سالہ شہوار طاہر بھی ان میں سے ایک ہیں۔
شہوار نے اپنے جسم پر تیل لگاتے ہوئے بتایا کہ وہ کچھ دوستوں کے ساتھ مشقیں کرتے ہیں، لیکن نوجوان اب پہلوان بننا ہی نہیں چاہتے۔
شہور کے مطابق نوجوان پوچھتے ہیں کہ وہ یہ کھیل کیوں کھلیں، اس میں نہ تو کوئی مستقبل ہے اور نہ پیسہ۔
طاہر ہر روز صبح چار بجے اٹھتے ہیں اور پھر ڈنڈ لگانے اور نماز پڑھنے کے بعد سو جاتے ہیں۔ دوپہر میں اٹھنے کے بعد وہ اکھاڑے میں جا کر دوبارہ ڈنڈ لگاتے ہیں۔
طاہر کی مشقوں میں اکھاڑے کی مٹی کھودنا بھی شامل ہے، جس کے بعد وہ مزید مشقت طلب ورزشیں کرتے ہیں۔
ان تمام مشقوں اور جسم کو توانا رکھنے کے لیے وہ روزانہ روٹی، مرغی، دالیں، پھل اور دو کلو بادام کھاتے ہیں۔
مقابلے سے قبل وہ اپنے وزن کو نوے کلو سے گھٹا کر چوراسی کلو تک لاتے ہیں۔
طاہر کے کوچ، عامر بٹ کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور دہشت گردی سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہیں جس کی وجہ سے لوگ پہلوانی سے دور ہو گئے ہیں۔
'یہ ایک مہنگا کھیل ہے، ہم بہت زیادہ اچھے پہلوان اس لیے تیار نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی خوراک کے لیے روازنہ کم از کم پندرہ سو روپے درکار ہوتے ہیں، جسے ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا'
پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے پاس فنڈز کی کمی ہے، اور نجی کلبوں اور اکھاڑوں کو فنڈز کی فراہمی ایک پیچیدہ عمل ہے۔
فیڈریشن کے سیکریٹری چوہدری محمد اصغر کے مطابق ان حالات میں نجی اکھاڑوں کے لیے اسپانسر شپ کے مطالبے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی سطح پرہونے والے مقابلوں کے لیے پرکشش انعامات کا سلسلہ شروع کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے تاکہ اس سے کھیل میں عوامی دلچسپی بڑھے اور پاکستان عالمی اکھاڑوں میں واپس جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اکھاڑوں کی سرپرستی کی ضرورت کو اب سمجھا جا رہا ہے۔