گمنام ہیرو

نیل فالکنر کا کہنا ہے: 'انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں۔ انہیں حالات حسبِ منشا نہیں ملتے۔ ان کے اقدامات اپنی عمر کے مطابق ملنے والے معاشی، سماجی اورسیاسی ڈھانچے کے تابع حالات کے تحت ہوتے ہیں، لیکن ان رکاوٹوں کے باوجود، جس کا سبب بھی وہ خود ہوتے ہیں، انسان کے سامنے مختلف مواقع اور اُن کا انتخاب موجود رہتا ہے۔'
تاہم ہر شخص ان مواقعوں کی طرف نہیں دیکھتا جو کہ وہ تشکیل دے سکتا ہے۔ بہت کم ہوتے ہیں جو مواقعوں اور انتخاب کا استعمال جانتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ بیٹھ کر یہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ معاشرہ ان کی بھلائی کا کوئی قدم اٹھائے۔
آپ اسے مقدر کہیں، نصیب یا پھر جو چاہے نام دے لیں، ایسے لوگ زیادہ تر خود کو ان کا مارا ہوا سمجھتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسے لوگ خود اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں، جو خود ہی کم ہمت ہوتے ہیں اور ایسی راہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں انہیں زیادہ مزاحمت نہ کرنی پڑے۔
مگر وہ لوگ جو تہیہ کرلیتے ہیں کہ اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاکر ہی رہیں گے، دوسروں کے لیے غیر معمولی مثال بن جاتے ہیں۔ یہ تاریخ نہیں بناتے اور نہ ہی معاشرہ کا رخ بدل پاتے ہیں مگر اپنی زندگیوں میں مثبت بہتری ضرور لے آتے ہیں۔
انفرادی سطح پر ایسے لوگوں کی لائی ہوئی تبدیلیوں سے نہ صرف ان کی، بلکہ پورے خاندان اور آنے والی نسلوں کی زندگی کا بھی چلن بدل جاتا ہے۔ یہ وہ ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا مگر ان کی لائی ہوئی تبدیلی اور عزم و حوصلے کی داد دینی چاہیے۔
عزم و ہمت کی ایسی ہی ایک مثال عبدالجبار ہے۔
عام طور پر سادہ شلوار قمیص، سر پر کپڑے سے بنی ٹوپی پہنے، چہرے پر سفید بنا ترشی داڑھی ۔۔۔ جب وہ گذرتے ہیں تو لوگ احترام کرتے ہوئے راستا دیتے ہیں۔ اگرچہ اردو مادری زبان نہیں مگر پھر بھی نہایت شائستہ اور مہذب لہجے میں، اردو میں گفتگو کرتے ہیں حالانکہ وہ گھر میں ہند کو بولتے ہیں۔
ان کے متعلق جو کچھ سنا وہ حیرت انگیز تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم دونوں اپنے اپنے راستوں پر چل پڑیں، میں ان کے بارے میں بہت کچھ جاننے کی جستجو رکھتی تھی۔
عبدالجبار روزنامہ ڈان کے ادارتی شعبے میں چپراسی تھے۔ جس دن وہ ملنے کے لیے آئے، وہ گذشتہ برس کے دسمبر کی اکتیس تاریخ تھی۔
انہوں نے ایبٹ آباد کے نواح میں واقع اپنے علاقے کو واپس لوٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ وہی شہر ہے جسے اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ ہونے کی وجہ سے شہرت ملی اور وہ بڑے عرصے تک خبروں کا موضوع بنا رہا۔
اُن کی اسلام سے جو مفاہمانہ اُنسیت تھی، اس سے میں ہمیشہ متاثر رہی۔ جب میںنے ان کو جانا تو فوراً ہی یہ پالیا تھا کہ ان کی شخصیت میں بظاہر رجعت پسندی جھلکتی تھی مگرحقیقت میں وہ ایسے نہیں تھے۔
وہ مذہبی اعتقاد کے تنوع کو تسلیم کرتے تھے اور وہ ان کے لیے ایک معمول کی بات تھی۔ جب کبھی مذہب کے اوپر کوئی بات ہوتی تو وہ آزاد خیال کی صورت حقیقت کو تسلیم کرتے اور اعتراف کرتے کہ دنیا میں ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس عقیدے پہ چاہے کاربند رہے۔
وہ رجعت پسند نہیں تھے اور عام طور پر بہت سارے دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی نسبت مذہب کے تصور پر زیادہ روشن خیال تھے۔
کبھی نماز جمعہ کے موقع پر خطیب اگر کوئی غیر حقیقی رائے کا اظہار کرتا تو وہ اپنی گفتگو میں اس سے لاتعلقی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔
تو یہ ہے وہ جو میں نے عبدالجبار کی شخصیت میں دریافت کیا۔ وہ ایسی خاموش اکثریت میں شامل تھے جو دماغ کے ساتھ ساتھ سوچنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
پاکستان میں ایک نہیں، بہت سارے عبدالجبار موجود ہیں۔ مجھے پیو سینٹر اور گیلپ جیسے سروے کے نتائج پڑھ کر حیرت ہوتی ہے، جو کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت عدم براشت والوں پر مشتمل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ وہ ان سروے کے سوال و جواب کے لیے کن لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
جب میں عبدالجبار کا تقابل ان جیسے دوسرے لوگوں کے ساتھ کرتی ہوں تو علم ہوتا ہے کہ ان میں اتنی ہمت ہے کہ جن اعلیٰ اخلاقی اقدار اوراصولوں کو انہوں نے اپنی زندگی کے لیے چُنا، اس پر بہادری کے ساتھ عمل بھی کرسکیں۔ یہ اس ہجوم کا حصہ رہے جن کی برداشت اور ذہنی قوت دم توڑ چکی ہو مگر انہوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔
میں ان کی تعلیم کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جو انہوں نے اپنے آبائی علاقے تنولی کے سرکاری اسکول میں حاصل کی تھی۔ تنولی، جہاں وہ سن اُنیّسو چھیالس کو پیدا ہوئے۔
عبدالجبار نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب بہت کم لڑکے یہاں تک تعلیم حاصل کر پاتے تھے۔ انہیں ایک بات کا ہمیشہ افسوس رہا، وہ یہ کہ آگے نہیں پڑھ سکے تھے۔
سن اُنیسو ساٹھ میں وہ اسکول کو خیرباد کہہ کر روزگار کی تلاش میں کراچی آگئے۔ روزگار ہی تعلیم کی تکمیل نہ ہونے کا بنیادی سبب تھا۔ اُن کے والد بوڑھے اور بیمار تھے۔ وہ کام کاج کے قابل نہیں رہے تھے اور ان حالات میں عبدالجبار کے لیے یہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہوچکا تھا۔
اُس وقت اُن کا خاندان سخت مالی دشواریوں سے دوچار تھا۔ بقول عبدالجبار 'یہ سب کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا اور والد کو بتائے بغیر گھر چھوڑ دیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اگر ان سے اجازت مانگوں گا تو ان کا ردِ عمل کیا ہوگا۔'
ابتدا میں تو زندگی دشوار تھی مگر وہ محنت مزدوری کرکے زندگی کی گاڑی دھکیلنے کی کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ ان کی زندگی میں ایک موڑ آیا۔ انہیں روزنامہ ڈان کے ادارتی شعبے میں چپراسی کی ملازمت مل گئی۔
اگرچہ انہوں نے صرف چھ جماعتیں پاس کی تھیں مگر اس کے باوجود تعلیم نے عبدالجبار کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے سوچنے کا رخ بدل گیا تھا۔
ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے چاروں بچوں کو اسکول بھیجا اور اس بات کی ہر ممکن کوشش کی کہ بچے اپنے اسکول کی تعلیم ضرور مکمل کریں۔ جب انہوں نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے کا فیصلہ کیا تو اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوا، جیسا کہ ہوتا ہے۔
ان کے دونوں بیٹوں اور چاروں بیٹیوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ ان کے ایک بیٹے نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا اور آج وہ صحافی ہے۔ عبدالجبار کی مختصر تعلیم نے، اُن کی شخصیت پر جو اثر ڈالا وہ تعلیم کی اہمیت کا اقرار تھا۔ جیسا کہ آج کہا جاتا ہے کہ تعلیم کا اثر زندگی بھر رہتا ہے۔
تعلیم نے انہیں لوگوں کو سمجھنا سکھایا اور جنہیں وہ پسند کرتے تھے، ان سے سیکھا۔ اس عمل نے ان کی سوچ کو تجزیاتی راستے پر استوار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں جتنے ایڈیٹروں کے پاس کام کرتا رہا، اُن سب سے سیکھا۔ عبدالجبار نے ڈان کے آٹھ ایڈیٹروں کے پاس کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان سب کے مشاہدے اور اور سوچ نے، ان کی اپنی سوچ پر اثرات مرتب کیے ہیں۔
اگر ایک اچھے ٹیلنٹ کا شکار جانتا ہو تو دوسرا یہ جان لے کہ ٹیم کے ساتھ کیسے جڑا جائے تب ہی شخصیت سازی ہوتی ہے۔ مجھے ان کی محنت کی عظمت کا ہی نہیں، ان کی انسانی عظمت کا بھی اعتراف ہے۔
ہمارے ارد گرد جو پُرتشدد ماحول ہے، اس کے بارے میں عبدالجبار کا کہنا تھا: 'ہم سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ایک زندگی کو بچایا تو گویا پوری انساننیت کو بچایا اور اگر ایک انسان کی جان لی تو گویا پوری اانسانیت کو قتل کیا۔'
مضمون نگار سن اُنیّسو پچھہتر سے سن دو ہزار آٹھ تک روزنامہ ڈان کی اسسٹنٹ ایڈیٹر رہی ہیں۔
www.zubeidamustafa.com
ترجمہ: مختار آزاد