جی ایم سید کے بعد
کہا جاتا ہے کہ سندھ کا ہر بندہ اندر میں قوم پرست ہے، مگر ووٹ پیپلز پارٹی کو دے گا۔ بلاشبہ سندھ کی سیاست پر قوم پرستی حاوی رہی ہے۔ اس وجہ سے ہی یہ کہاوت بنی ہوگی۔
سندھ کی سیاست اور سوچ کو قوم پرست تحریک کے پس منظر کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔ پچاس کے عشرے میں شروع ہونے والی یہ قومی تحریک کئی نشیب و فراز سے گزری ہے۔ اس تحریک کے بانی بزرگ رہنما جی ایم سید تھے، جنہوں نے قیام پاکستان میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ مگر بعد میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ اور انہوں نے صوبے میں قوم پرست تحریک کی بنیاد ڈالی۔
پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں سندھ کی تحریک ملک کے دوسرے صوبوں بنگال، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ساتھ عوامی لیگ یا نیشنل عوامی پارٹی کے روپ میں اتحاد میں رہی۔ مگر بعد میں صوبوں کی مشترکہ تحریک سے الگ ہوگئی۔ آج کم از کم ایک درجن کے قریب تنظیمیں جی ایم سید کے پیروکار ہونے کی دعویدار ہیں اور قوم پرستی کے نام پرسیاست کرتے ہیں۔
سندھ پاکستان میں سیاسی طور پر زیادہ باشعور صوبہ سمجھ جاتا ہے۔ اور یہاں کی قوم پرست تحریک بھی پرانی ہے۔ ا س تحریک کے دو خدوخال اہم ہیں۔ یعنی مسلسل احتجاج اور جدوجہد کو پرامن رکھنا۔
تحریک کے بانی جی ایم سید کے انتقال کے بعد حالات اور صورتحال میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ ان تبدیلیوں نے سندھ کی قوم پرست تحریک کی حکمت عملی، جدوجہد کے طریقہ کار اور مقا صد پر بھی اثر ڈالا۔
سندھ کی قوم پرست تحریک کی صورتحال خصوصا آج کیا ہے؟ اس موضوع سندھ کے قوم پرست رہنماؤں اور دانشوروں سے گفتگو کا نچوڑ پیش کر رہے ہیں۔ اس گفتگو میں حکمت عملی، قیادت، تنظیم سازی، روزمرہ کی سیاسی معاملات کے حوالے سے کئی نکات سامنے آئے ہیں۔
تجزیہ نگار جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ جی ایم سید کا بڑا کنٹری بیوشن تھا کہ انہوں نے سندھی قوم پرستی کی تشکیل اور بناوٹ دورمیں نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ لہٰذا سید کا حصہ قوم پرستی میں سیاسی سے زیادہ اس سوچ اور نعرے کو مقبول بنانے میں زیادہ ھے۔ انہوں نے قوم پرست ذہنیت پیدا کی اور اس کے نظریاتی فریم ورک کی بنیاد رکھی۔
ان کی زندگی میں ہی قوم پرست تحریک تنظیمی لحاظ سے کم از کم تین گروپوں میں بٹ گئی تھی۔ اور جی ایم سید سب پر ہاتھ رکھتے تھے۔ انہوں نے شعوری ونظریاتی کام تو کیا، مگرسیاسی تحریکوں میں دوسرا پہلوتنظیم، تربیت اور کردار ہوتا ہے وہ نہیں کیا جا سکا۔ اس مقصد کے لیے واضح حکمت عملی ہوتی ہے جس پروہ خود بھی توجہ نہیں دے سکے۔ نتیجے میں سیاسی سوچ بٹ گئی اور عملی طور پر اور سیاسی اثر سامنے نہیں آسکا۔
صورتحال یہ بنی کہ سندھی لوگوں کی سوچ قوم پرستی کی ہے مگر ووٹ پیپلزپارٹی کو کرتے ہیں۔ جامی چانڈیو کے مطابق آج قوم پرست تحریک تنظیم، لیڈرشپ، اور واضح حکمت عملی کے فقدان کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مخصوص سطح سے زیادہ نہیں ابھر سکی ہے۔
ان کا کہنا ہے سید کی سیاست کے تسلسل میں سے کام کرنے والے مختلف گروپ اشو بیسڈ سیاست کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی ایک ہی ڈھنگ اور طریقہ کار سے۔ واضح حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے بھرپور سیاسی پیغام بھی نہیں بن سکا ہے۔ بات صرف سوچ اور تک رہ جاتی ہے۔
خالص نظریاتی سیاست کے حامی جیئے سندھ محاذ کے جنرل سیکریٹری ہاشم کھوسو کا کہنا ہے کہ سید نے قوم پرستی کی بنیادیں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کسوٹی اور معیار بھی مقرر کئے تھے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد کیڈر کی موقع پرستی اور مصلحت پسندی نے قومپرستی کو کمزور رکر دیا۔ایسے لوگ بھی قوم پرستوں کے ساتھ بیٹھنے لگے جو سید کی زندگی میں انکے قریب بھی نہیں جاتے تھے۔ کل تک جماعت اسلامی یا نوشہروفیروز کے جتوئی سید کے مخالف تھے۔ آج یہ لوگ قوم پرستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوم پرست اشوز پر سیاست کرنے لگے ہیں۔ اشوز پرکب تک سیاست چلے گی؟آج قوم پرست ریاست یا ریاستی ڈھانچے کو چیلینج نہیں کر رہی۔
چار عشروں تک جیئے سندھ کی سیاست کرنے والے جیئے سندھ محاذ کے چیئرمین خا لق جونیجو کا کہنا ہے کہ اشو پر لوگوں کو آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے قوم پرست جماعتیںیہی کام کررہی ہیں۔ سندھی قوم پرست تحریک جاگیردار دشمن، مذہبی نعروں سے دور، سیکیولر رہی ہے۔جسکا جھکاؤ ترقی پسند اور بائیں بازو کی طرف ہی رہا ہے، مگر اب پیر وں وڈیروں بھی قوم پرست ہو گئے ہیں لہٰذا قوم پرستی کا رنگ اور ذائقہ ہی بدل گیا ہے۔
پنجاب سے تضاد: سندھی قوم پرستی کا تصور یہ ہے کہ پاکستان میں پنجاب کی بالادستی ہے اور وہ سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا ذمہ دار ہے۔لہٰذا اس کا ٹکراؤ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پنجاب سے بھی ہے۔
خالق جونیجو کا کہنا ہے کہ سندھ کے حقوق پنجاب سے لینے ہیں کیونکہ ریاست پر اس کی بالادستی ہے۔ مگربعض قوم پرست حصے اس پر بھی واضح نہیں ہیں۔جو صوبہ سندھ کے حقوق غصب کئے ہوئے ہے اسی کی نمائندہ جماعت سے اتحادمیں ہیں۔
مگر جیئے سندھ قومی محاذ کے وائیس چیئرمین آصف بالادی کا نقطہ نظر ان سے مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ کچھ قوم پرست گروپوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے، اگر تنہا ہو کر ایک دائرے میں سیاست کرتے ہیں تو تو قومی تحریک کے مخالف یا اس دھارے سے باہر لوگوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ وفاقی سیاست کرنے والوں کو ہمارے خلاف استعمال کریں۔ یہ سلسلہ جوڑنے سے قومی تحریک کو فائدہ ہوا ہے۔
مہاجر تضاد: خالق جونیجو کا کہنا ہے کہ مہاجر تضاد سندھ کے گلے پڑا ہوا ہے۔ جی ایم سید کا یہ تصور تھا کہ جب تحریک زور پکڑے گی تب ان میں سے ایک حصہ قوم پرست تحریک کا ساتھ دے گا۔ دوسرا حصہ ملک چھوڑکرچلا جائے گا، تیسرا حصہ مخالفت کرے گا۔
آج قوم پرست گروپ انتہاپسندی کی دو چوٹیوں پر کھیل رہے ہیں۔ یا تو انہیں مار بھگانے کی بات کی جاتی ہے یا پھر ہر حال میں راضی رکھنے کی۔ اس کا نتیجہ سامنے ہے کہ جیسے ایم کیو ایم کہے ویسے کیا جائے۔ یہ دنوں غیر سیاسی اور غیرسنجیدہ رویے ہیں ۔ اس اشواصل روح یہ ہے کہ وسیع قلبی کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ نسل پرستی کی طرف دھکیلنے سے سب کچھ نسل پرستی میں چلا جاتا ہے۔
آصف بالادی کا کہنا ہے کہ مہاجر سندھ کی ثقافتی اقلیت ہیں۔ ایم کیو ایم کی سیاست نے صورتحال کو خراب کیا ہے۔
خالق جونیجو کا کہا ہے کہ آج سے تیس چالیس سال پہلے سرائیکی اور دیگر چھوٹی قوموں کے قوم پرست سندھ کی قومی تحریک سے سیکھتے تھے۔ مگر اب وہ کہتے ہیں کہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ جب کہ اس کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ملکی، علاقائی اور عالمی صورتحال میں تبدیلیاں آئی ہیں جن کے اثرات قومی تحریک پر بھی پڑے ہیں۔ اب اس تحریک کو نئے بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
مقبول قوم پرست گروپ جیئے سندھ قومی محاذ کے رہنما آصف بالادی کا کہنا ہے کہ قوم پرستی کی اصطلاح بہت عام ہو گئی ہے۔ اور بہت سے گروپ قوم پرست کہلانے لگے ہیں۔ سندھی قوم پرستی کا اصل تصور وطن کا تھا۔یعنی سندھ ہزارہا برس سے وطن ہے اور اپنا الگ تشخص رکھتی ہے۔ اب عام اصطلاح میں یہی ہے کہ پاکستان کے فریم ورک میں حقوق ملیں۔ وطن کا پہلو کم ہو گیا ہے۔
مشترکہ پلیٹ فارم پر بھی نظریاتی اور نفسیاتی مرکز کمزور ہوا ہے۔ بشیر خان قریشی نے کسی حد تک اس خلاء کو پر کیا تھا۔ اور قومی تحریک کو عوامی شکل دی تھی۔ مگر اب قومی تحریک کمزور ہے کوئی بھی قدآور شخصیت نہیں ہے جو مرکزیت پیدا کرسکے۔ سید نے فکری طور پر متاثر کیا۔ مگر فکری اثرات تنظیمی شکل اختیار نہ کر سکے۔اس لیے آج تنظیمی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی نسلی اور فرقہ وارانہ تضادات کو ابھارکر قومی اور جمہوری تضاد کو چھپانے کی کوشش کی گئی ۔ جس سے مجموعی طور پر اور سیاست میں بھی کنفیوزن پیدا ہوا۔
معاشی مفادات کہ وجہ سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ اخلاقی کرادر کا پہلو بھی کافی حد تک کمزور ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گروپ سرگرم ہو گئے ہیں۔ یہ گروہ بندی شخصی اور معاشی مفادات کی وجہ سے ہے۔ بڑی وجہ مختلف پس منظروں سے آنے والا متوسط طبقہ ہے۔ چھوٹے بڑے شہروں کے مڈل کلاس کی نفسیات میں بھی فرق ہے۔ ان کی تربیت بھی نہیں ہو پارہی۔ لہٰذا اکے معاشی مفادات اور لیڈرشپ کے معاملات بھی ہیں۔ اور یہ بھی کہ میں لیڈر ہوں اور ایک مرتبہ لیڈر بننے کے بعد وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔
عالمی طور رپر بھی شعور نے ترقی کی۔ 80 کی دہائی کے بعد اقتصادی مطالبات جس میں پانی اور قدرتی وسائل پرحق ملکیت لے معاملات بھی قوم پرستی اور انسانی حقوق کی تحریک کے مطالبات میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ مڈل کلاس نظریاتی طور پر پختہ نہیں۔ اوربالغ اورپختہ مڈل کلاس نہیں۔
یہ صحیح ہے کہ قوم پرستی میں اشو بیسڈ سیاست نہیں ہوتی مگر جب زندہ رہنے کے وسائل مثلا پانی کا مسئلہ یا کالاباغ ڈیم کا اشو ہو تو قوم پرست یہ کہہ کر چپ نہیں بیٹھ سکتے کہ ہم اشو بیسڈ سیاست نہیں کرتے۔ یا جب جغرافیائی سرحدیں خطرے ہوں جیسے بلدیاتی نظام کے حوالے سے صورتحال بنی تھی۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ واضح حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے قوم پرستی کی اصطلاح مبہم اور غیر واضح ہو گئی ہے۔ جس کو دوسرے لوگ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
پرانے سیاسی کارکن اور تجزیہ نگار ناز سہتو کا کہنا ہے کہ جی ایم سید کے بعدقومی تحریک میں چارتبدیلیاں رونما ہوئی ہیں: مرکزی قیادت کا فقدان، انتخابی سیاست کی کشش کا بڑھنا، اشو بیسڈ سیاست کو قومی تحریک سے منسلک کرنا اور بعض گروپوں کامسلح جدوجہد کو بطور پالیسی اختیار کرنا۔
جی ایم سید کی زندگی میں اس تحریک سے وابستہ لوگ انتخابات کی طرف نہیں جاتے تھے۔ اب قوم پرست تنظیمیں اور فرد بھی انتخابی سیاست کی طرف گئے ہیں۔ یہ بھی سید کے بعد کا مظہر ہے کہ ایک آدھ گروپ نے مسلح جدوجہد کو پالیسی کے حصّہ بنا لیا ہے۔
جیئے سندھ قومی محاذ کے مرحوم چیئرمین بشیر قریشی نے قوم پرست تحریک میں مختلف قسم کا تجربہ کیا۔ انہوں نے اشو بیسڈ سیاست اور نظریاتی سیاست کو ایک ساتھ ملایا۔ اشوز پر قائم ہونے والے اتحادوں میں وہ بطور ممبر شامل نہیں ہوئے تاہم ان کی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ بشیر قریشی عوامی رجحان کو ساتھ لیکر چلتے تھے۔ وہ ایک پروسیس میں بنے تھے۔ بشیر خان کے بعد اب تک کسی نے اتنی ساکھ نہیں بنائی ہے کہ لوگ اس کو مانیٹر کریں۔
آج قومی تحریک کوقیادت نہ ہونے کا چیلینج درپیش ہے.
تبصرے (13) بند ہیں