• KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • KHI: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • LHR: Zuhr 5:00am Asr 5:00am
  • ISB: Zuhr 5:00am Asr 5:00am

اندھیرے میں گولہ باری

شائع January 16, 2013

LoC-reut-670
فائل فوٹو --.

ہندوستانی اور پاکستانی فوجوں نے لائین آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنے پر ایک دوسرے پر شدید نکتہ چینی کی ہے-

پاکستان کا کہنا ہے کہ ہندوستانی سپاہی اتوار کے دن اسکے علاقے میں زبردستی داخل ہو گئے اور اسکے ایک سپاہی کو حاجی پیر سیکٹر میں شہید کر دیا- ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی سپاہی نے مینڈھر سیکٹر میں لائین آف کنٹرول پار کرنے کے بعد کچھ دیرتک گولہ باری کی جس کے نتیجے میں اسکے دو سپاہی ہلاک ہوئے جن میں سے ایک کا سر اڑادیاگیا- ہندوستانی فوج کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے ایک دہائی کے سمجھوتے کے بعد معمول کے مطابق جو خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں وہ ان میں سے ایک "شدید اہم" قسم کی خلاف ورزی ہے-

ہندوستانی فوج کے بیان کے مطابق پاکستانیوں نے ہندوستانی سپاہیوں کو جہاں سے گھات لگا کر نشانہ بنایا وہ علاقہ "ایک جنگل ہے جو گہرے کہر اور دھند" میں ڈوبا ہوا تھا- ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات کو ایک زیادہ دبیز کہر اور دھند نے لپیٹ رکھا ہے، گوکہ ضروری نہیں کہ اس کے بنانے میں خود انکا ہاتھ ہو-

میرے خیال میں تینوں سپاہیوں کی ان افسوسناک اموات کی وجوہات کو ----- جن میں سے ایک پاکستانی اور دو ہندوستانی تھے ----- نئی دہلی اور اسلام آباد میں نہیں بلکہ کابل اور واشنگٹن ڈی.سی میں تلاش کیا جانا چاہئے-

صدرکرزئی واشنگٹن جانے کی تیاریاں کررہے تھے جبکہ ہندوستان کی جانب سے مبینہ طور پرخلاف ورزی کی گئی- کہا جاتا ہے کہ جس وقت پاکستانی سپاہیوں نے لائین آف کنٹرول کوعبور کیا اس وقت وہ جہاز پر بیٹھ چکے تھے- دو یا تین اس قسم کے سانحات جن کا تعلق افغانستان یا امریکہ سے ہو، یہاں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں- ایک تو ہندوستان کا بجا طور پر خوف جسے پاکستانی سرزمین پر موجود کشمیری شدّت پسند ہوا دیتے ہیں اور جو یہ پیش بینی کرتے رہتے ہیں کہ متنازعہ علاقے کے ہندوستانی حصّے میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ایسے وقت کیا جاتا ہے جبکہ افغان جنگ بندی کے علاقے سے جہادی جنگجوؤں کو کوئی نیا مشن سونپا جاتا ہے-

منگل کے دن، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستانیوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کشمیری شدّت پسند صلاح الدین نے جنھیں اسلام آباد کی پشت پناہی حاصل ہے، مسئلہ کشمیر کی قرارداد کو ایک نئی شکل دینے کا منصوبہ بنایا تھا- صلاح الدین نے حریت کانفرنس کی اعتدال پسند قیادت پر نکتہ چینی کی تھی اور یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سید علی شاہ گیلانی کی حمایت کر رہے ہیں جو ان کے مقابلے میں زیا دہ شدّت پسند ہیں-

جس طرح ہندوستا ن چاہتا ہے کہ عالمی سطح پر اس خطرے کا نوٹس لیا جائے اسی طرح پاکستان بھی اپنے عالمی مصالحت کاروں کو تنازعہ کشمیر کی یاد دلانا چاہتا ہے جو زیر التوا ہے اور مستقل پک رہا ہے-

یہ استدلال پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے واقعات تو کبھی بھی رونما ہوسکتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسی ہفتے ہوا- کیوں؟ اس حقیقت کے علاوہ کہ افغانستان اور امریکہ کے صدر اس ہفتے اپنی ذمہ داریوں کے خدوخال متعین کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اب سے دو سال بعد امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا ارادہ کر چکا ہے نیز واشنگٹن آجکل اوباما کی صدارت کے دوسرے دور کیلئے ایک نئی ٹیم بنانے میں بھی مصروف ہے-

پاکستان امریکہ کی دوستی میں سبقت لیجانے میں کامیاب ہوا ہے اگرچہ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا- گوکہ بظاہر شدید تنقید اور باہمی بد اعتمادی کے بعد یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو نظر آتی ہے- کہا جاتا ہے کہ اس کا سہرا واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان کے سر ہے-

عین اسی وقت ہندوستان کے لئے امریکی لابی اسٹس اور امریکہ میں ہندوستان کے لابی اسٹس کے ذہنوں میں بعض مسائل توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے اوران کی جانب سے جو شدید الزام تراشیاں ہو رہی تھیں وہ اس بات کے زیراثرتھیں کہ اوباما اپنی نئی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں اور خاص طور پر یہ بات کہ یہ ٹیم ہندوستان اور پاکستان کے تعلق سے کیا رویہ اختیار کریگی- دونوں ہی فریقین کا یہ خیال تھا کہ یقینا افغانستان اس نئی ٹیم کے سامنے بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا-

ایشلے ٹیلس جو مئی 2002 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان فوجی سردمہری کے دوران امریکی سفیر رابرٹ بلیک ول کے اسٹریٹجک ایڈوائزر تھے، اس ہفتے نئی دہلی کو مشورہ دیا کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے-

انہوں نے زور دیکر یہ بات کہی کہ "سیکنڈ جنریشن کی اصلاحات" وسیع پیمانے پر کی جائیں جو سبسیڈیز کو کم کرنے کے اقدامات ، لیبر قوانین میں تبدیلی لانے اور مینوفیکچرنگ پالیسی سمیت دیگر اقدامات پر مبنی ہوں-" صرف فری مارکیٹ پرعزم صمیم کے ساتھ عمل درآمد کرکے ہی ہندوستانی حکومت متفقہ طور پر ایسے اقدامات کر سکتی ہے جو معیشت کو مزید آزادانہ طور پر چلانے کیلئے ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں ریاستی قوت مستحکم ہو سکتی ہے"- یہ بات ٹیلس نے اپنی رپورٹ "اپورچنٹیز انباونڈ: سسٹیننگ دی ٹرانسفرمیشن ان یو ایس-انڈین ریلیشنز" میں کہی جو کارنیگی کی جانب سے پیر کے دن شایع ہوئی-

ٹیلس کے ذہن میں یہ بات واضح تھی کہ ان اقدامات کو روبہ عمل لانے کیلئے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا- انہوں نے ہندوستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شیام سرن کا حوالہ دیا جنہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ معاشی اصلاحات پر دوٹوک عمل کیا جائے نہ کہ "در پردہ اصلاحات" کا یا "بحران کے وقت اصلاحات" کرنے کا سہارا لیا جائے- (بعض ھندوستانی یہ استدلال پیش کرینگے کہ اس صورت میں حکومت کو چاہئے کہ کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلا لے تاکہ دہلی میں اور دیگر علاقوں میں بے قابو ہجوم سے نمٹا جاسکے بجائے اسکے کہ امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے قیام کیلئے ٹیلس کا نسخہ آزمایا جائے)

وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دوسرے دور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا یا گیا- "اگرچہ وزیر اعظم اپنے نجی خیالات پر مضبوتی سے قائم ہیں، انکی پارٹی کا غیر ذمہ دارانہ رویہ، حزب اختلاف کی مصلحت پسندی اور ریاست کی جانب سے پیش کئے جانے والے حل کو آسانی سے قبول کرلینے کی عادت آج بھی ہندوستانی سیاست میں جاری و ساری ہے جس کے نتیجے میں دور رس اصلاحات پر عمل درآمد کرنا کارے دارد بن جاتا ہے"، ٹیلس کا کہنا تھا-

انڈین اکسپریس کے ایک کالم نگار نے جو بعض امریکی حلقوں میں پائے جانے والے خوف سے پریشان تھے کہ ہندوستان کے ساتھ اتحاد کی کہانی واشنگٹن میں غیر ضروری مراعات کے ساتھ فروخت کی گئی ہے، اپنے فطری اتحادی کے ساتھ نئی دہلی کی کم توجہی پر نکتہ چینی کی-

"واشنگٹن میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا ہندوستان سنجیدہ تعلقات قائم کرنے کا خواہشمند ہے"، ہندوستانی لابی اسٹ-کالم نگار نے خبردارکرتے ہوئے کہا- انہوں نے یہ بھی کہا کہ اوباما انتظامیہ میں شامل فیصلہ کن کلیدی کردارادا کرنے والے افراد جنہوں  نے گزشتہ چار برسوں میں ہندوستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بڑھانے میں حصّہ لیا تھا اب رخصت ہونے والے ہیں-

"سکریٹری آف اسٹیٹ ہلیری کلنٹن جو ہندوستان کے ساتھ اوباما انتظامیہ کے تعلقات کو استوار کرنے میں سرگرمی کے ساتھ حصّہ لے رہی تھیں اب جلد ہی اپنے عہدہ سے رخصت ہونے والی ہیں- انکی جگہ سینیٹر جان کیری لینگے جنھیں بدقسمتی سے بعض (ہندوستانی) تجزیہ نگار ہندوستان کیساتھ قدرے کم گرم جبکہ 'پاکستان کے ساتھ نرم' سمجھتے ہیں"، ہندوستانی تجزیہ نگار نے لکھا ہے-

ایکسپریس کا تجزیہ تھا کہ، "قبل ازوقت اس قسم کے لیبل لگانے سے ہندوستان کی ڈپلومیسی کو تشکیل دینے میں کوئی خاص مدد نہیں ملیگی تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دہلی میں خدشات موجود ہیں کہ امریکہ 2014 تک افغانستان میں اپنے جنگی رول کو ختم کرنے کی تیاریوں کے سلسلے میں پاکستانی فوج اور طالبان کو ضرورت سے زیادہ مراعات کی پیشکش کر سکتا ہے"-

جس وقت کشمیر میں موجود سپاہیوں نے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا اندھیرا اور دھند چھائی ہوئی تھی - تاوقتیکہ اس پیشقدمی کو روکا نہ جائے ، یوں لگتا ہے کہ سارے جنوبی ایشیا کے خطے میں اور شائد اس سے بھی آگے یہ اندھیرا اور گہرا ہوتا جائیگا۔


ترجمہ: سیدہ صالحہ

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 7 اپریل 2025
کارٹون : 6 اپریل 2025