ساحل بھی، منظر بھی
is blog ko Abro Sahab ki awaaz mein sunne ke liye play ka button click karen | اس بلاگ کو ابڑو صاحب کی آواز میں سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/74250959" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
جیسے مُلا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے، ویسے ہی کراچی والوں کی دوڑ سی ویو تک ہوتی ہے۔ گرمی زیادہ پڑجائے، کبھی بُھولے سے بارش ہوجائے، آندھی ہو کہ طوفان، چھٹی ہو یا بن بلائی ھڑتال یا پھر نیا سال، سب کا رخ ساحل کی طرف ہی رہتا ہے۔ بچے بوڑھے، جوان یا نئےنئے جوان، سبھی اسی طرف چل پڑتے ہیں۔ سمندر ہے کہ کراچی کی طرح سب کے لیے بانہیں پھیلائے بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے ہاں نا کوئی تفریق ہے نا تعصب، سب کو ایسے ہی گلے لگاتا ہے جیسے اپنا کراچی!
شہر کے شور کے مارے ہوں یا افراتفری کے، یا پھر بھرے پُرے مجمعے میں بھی خود کو تنہا پاتے ہوں۔ یہیں کہیں کسی بینچ پر بیٹھے دکھائی دینگے۔ سمندر ہے کے سب کا ایک جیسا سواگت کرتا ہے۔ سب کو اپنے جی میں جگہ دیتا ہے۔ کسی کے آنسو پونچھ رہا ہوتا ہے توکسی کی ڈھارس بندھا رہا ہوتا ہے۔ کسی کو لوری سناکر سُلا رہا ہوتا ہے تو کسی کے رستے زخموں پر ملم رکھ رہا ہوتا ہے۔ تپتی دوپہر ہو، ٹھنڈی شام ہو کہ ڈھلتی رات، لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
شہر بھلے ہی کسی کے سوگ میں بند پڑا ہو اور گولیوں کی گونج میں لرز رہا ہو۔ لیکن سمندر اپنی موج میں مست گنگناتا اور گاتا رہتا ہے اور اپنے پاس آنے والوں کو لُبھاتا رہتا ہے۔ کوئی شادی شدہ جوڑا جو شہر کی گنجان آبادی سے نکل کر اپنے ایک کمرے کے مکان، جس میں سارا خاندان ایک ساتھ رہ رہا ہوتا ہے اورانہیں ایک دوسرے کے قریب آنے تو کیا آنکھ ملانے میں بھی دن لگ جاتے ہیں۔ وہ بھی یہیں کہیں سمندر کنارے آکر ایک دوسرے سے آنکھ ملا رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے کچھ میٹھے بول، بول رہے ہوتے ہیں۔
ایک بینچ پر کوئی نیا نیا عاشق، اپنی نئی نئی محبوبہ سے چاند توڑ لانے کی جھوٹی قسمیں کھا رہا ہوتا ہے تو دوسری بینچ پر ایک عمر رسیدہ جوڑا پوری جوانی لٹا کر اپنے بچوں کا مستقبل سنوار کے اور اسے اس ملک سے دور کسی اور ملک میں بھجواکر زندگی کے آخری دن بغیر کسی بات چیت کے ایک دوسرے کے ساتھ بِتا رہا ہوتا ہے۔
بہت سےایسے بھی ہوتے ہیں کہ پورے پورے خاندان یا پورے پورے محلے سمیت ساحل پر آدھمکتے ہیں۔ایک طرف گاڑی میں بڑی آواز سے ڈیک پر کوئی بے ہنگم گانا بج رہا ہوتا ہے تو دوسری جانب دسترخواں پر ضیافت کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ نا ہی انہیں سمندر کی مست موجوں اور مدھر آوازوں سے محظوظ ہونے کاطریقہ آتا ہے۔ نا ہی اس کے آنگن میں بیٹھ کر کھانے کا سلیقہ۔ وہ شہر کا شور بھی اپنے ساتھ ہی لے آتے ہیں اور جاتے جاتے فضا کو شور سے اور کنارے کو کچرے سے آلودہ کر کے چل پڑتے ہیں۔
کبھی سیر و تفریح کے لیے آنے والے بچوں اور خواتین کے لیے سجے سجائے اونٹ اور گھوڑے سواری کے لیے دستیاب ہوتے تھے۔ اب پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئی سواری آگئی ہے۔ یہ ایک تو تین پہیوں والی موٹرسائیکل کی سی ہے تو دوسری ڈسکو گاڑی جو بچوں اور اہلِ خانہ کو ساحل کی سیر کراتی رہتی ہے اور اپنی دلخراش آواز اور اڑتی دھول سے سمندر کی فضا اور منظر کو اور بھی آلودہ کرتی رہتی ہے۔ البتہ رات کو اس کی جلتی بجھتی روشنیاں ذرا منظر میں رنگ بھی بھر دیتی ہیں۔ لیکن شور روشنیوں پر ہمیشہ حاوی ہی رہتا ہے۔
یہ انعام اللہ ہیں ڈسکو گاڑی کے ماہر ڈرائیور۔ سواریاں دو چار ہیں تو خود ڈرائیو کرتا ہے اور اگر زیادہ ہیں تو ڈرائیونگ سیٹ ان ہی میں سے کسی بڑے کو دے کر خود کنڈکٹر بن جاتا ہے۔ کیماڑی سے آتا ہے، پٹھان بچہ ہے،عمر صرف گیارہ سال، میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ بچہ دو سال سے یہ گاڑی چلا رہا ہے اور ایک چکر کے سو روپے لیتا ہے۔ دن میں کتنے چکر کرتا ہوگا یہ آپ خود اندازہ لگالیں۔ دن میں کتنا کمالیتے ہو کا جواب وہ دینا نہیں چاہتا۔ لیکن اگر حساب لگائیں تو آپ سے ہم سے زیادہ کما رہا ہے۔ اس بےروزگاری کے زمانے میں جب ہمارے گریجوئیٹ بھی ڈگریاں لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اورسرکاری نوکری کےآسرے میں پانچ پانچ سال تک گذار دیتے ہیں اور ادھر یہ ہے کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا اور کمانا شروع کردیا ہے۔
مشرف کے دور میں جب ساحل کی بِکری شروع ہوئی تو ساحل کے اس حصے پربھی بیچنے والوں کی نظر تھی، اس سے آگے تو بہت کچھ بک گیا لیکن اس حصے کو جسے سی ویو کہتے ہیں اس کو بچانے کے لیے ہمارے ایکٹوسٹ، آرٹسٹ، ادیب، دانشور اور سول سوسائٹی کے دوستوں نے بہت جلوس نکالے اورمظاہرے کیے اور اس حصے کو آخر بچا ہی لیا کہ یہی جگہ ہے کہ جہاں شہر کے عام لوگوں کو سستی تفریح مل جاتی ہے۔ باقی پیسے والوں کے لیے تو بہت جگہیں ہیں۔ غریب بےچارہ تو گھر میں اپنی دلہن سےبھی مل نہیں سکتا، اس کے لیے بھی اسے ساحل کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر بال بچے دار بھی ہے تو موٹر سائیکل پر پورے اہلِ خانہ سمیت آپ کو سمندر کی طرف جاتا دکھائی دے گا۔
سی ویو پر ڈی ایچ اے والوں نے پیزا ہٹ اور ایسے اور مہنگے آؤٹ لیٹ کھولنے کی کوشش تو کی لیکن کامیابی شاید نہیں ہوئی کہ یہاں آنے والوں کی اتنی ہی اوقات ہے۔ اب پورا ساحل چھابڑی والوں اور ٹھیلوں سے سج گیا ہے۔ شام سے رات تک لوگ کھاتے پیتے رہتے ہیں اور آجکل کی زبان میں انجوائے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن صبح کوساحل اور ہی منظر پیش کرتا ہے۔ صفائی نصف ایمان کے ماننے والے اپنا نصف ایمان تو کچرے کی صورت میں ساحل پر چھوڑکر چلتے بنتے ہیں۔ باقی کا جو نصف ایمان ہے وہ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے کہ نہیں، یہ تو ان کا خدا ہی جانتا ہے۔
سمندر جتنا وسیع اور گہرا ہے اس کا دل اس بھی زیادہ بڑا ہے، اس لیے کبھی کچھ بھی نہیں کہتا۔ کبھی کبھی شہر کے نوجوان اور اسکولوں کالجوں کے بچے آکر صفائی کرتے ہیں یا پھر نارنجی لباس میں ملبوس ڈی ایچ اے کے ملازم اوپر اوپر سے جھاڑو بھی پھیر دیتے ہیں۔
جب رات کی کوکھ سے دن نکلنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں، پو پھٹتی ہے اور سھہائی ہوتی ہے، رات کی اندھیری چادر کے پیچھےسے صبح کا تارہ جھانکتا ہے تو ہمارے سمندر سے ملنے کا وقت ہوتا ہے۔ نا سمندر کو بولنے کی عادت ہے نا ہمیں۔ اس لیے دونوں خاموش بیٹھ کر ایک دوسرے کو تکتے رہتے ہیں۔ ہم ان کی موجوں کی مدھر دھنوں میں گم ہو جاتے ہیں اور وہ ہمارے اندر کے سمندر کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سن رہے ہوتے ہیں۔ پھرساتھ میں جب پرندے بھی چہچہاتے اور گاتے ہیں توہم بھی بینچ پر بیٹھے بیٹھے محوِ رقص ہوجاتے ہیں۔
دھیرے دھیرے سویرا اندھیرے پر غالب آتا جاتا ہےاور رات کو جو آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ چائے والا، پاپڑ لے لو، کیک پیس، بھٹے، چپس اور ایسی انگنت آوازیں سب اردگرد کی بینچوں پر تھکی ہاری سو رہی ہوتی ہیں۔ سارا دن اور آدھی رات تک یہ چیزیں بیچنے والے جو ملک کے ہر کونے سے کراچی روزی روٹی کی تلاش میں آئے ہوتے ہیں۔ سمندر انہیں بھی پال رہا ہے۔ سب رات کو یہیں سوتے ہیں اور دن کو پھر روزی روٹی کے لیے آوازیں لگانا شروع کردیتے ہیں۔ سب سے پہلے سائیکل پر سوار مچھیرے آنا شروع ہوتے ہیں۔ پھر نارنجی لباس میں ملبوس صفائی والے اور پھر سی ویو کے اصل باسی مارننگ واک کے لیے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
پھر سائیکل پر سوار چائے اور ناشتے والا جس کے پاس بسکٹ اور بن بھی ہوتے ہیں۔ اور اکثر ایک صاحب جیسے ہی واک پر آتے ہیں تو ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ صفائی والے، باقی چیزیں بیچنے والے جن کی آنکھ کھل چکی ہوتی ہے ایک دم جوش میں اسے سلام مارنا شروع کرتے ہیں اور پھر چائے والے کو آرڈر ملتا جاتا ہے کہ ان سب کو چائے بھی پلاؤ تو ناشتہ بھی کرواؤ۔ ایسے میں سورج بھی سی ویو اپارٹمینٹس کی اوٹ سے جھانکنا شروع کرتا ہے اور ہم پھر نیا دن گذارنے کے لیے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں جہاں خون میں لت پت اخبار کل کی خبریں لیے ہمارے دروازے پر پڑا انتظار کر رہا ہوتا ہے ۔
وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔