• KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:48pm
  • LHR: Asr 4:35pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:28pm
  • KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:48pm
  • LHR: Asr 4:35pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:28pm

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ایک جینیئس

شائع January 8, 2013

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی80 ویں  سالگرہ پر لی گئی ایک یادگار تصویر۔ بشکریہ دی لائف اینڈ ورکس آف ایم رضی الدین صدیقی، مصنف ڈاکٹر انور دل۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی80 ویں سالگرہ پر لی گئی ایک یادگار تصویر۔ بشکریہ دی لائف اینڈ ورکس آف ایم رضی الدین صدیقی، مصنف ڈاکٹر انور دل۔

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کی زندگی پر ایک نگاہ دوڑائی جائے تو ان پر تاریخ کے اُن علمائے سائنس کا گمان ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی علوم کے درجہ کمال پر فائز تھے۔ وہ ممتاز ریاضی دان، فلسفی، ادبی شخصیت، ماہرِ تعلیم، اسلامی تمدن کے اسکالر اور کئی زبانوں کے ماہر تھے ۔

محمد رضی الدین صدیقی 7 اپریل 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ ان کا گھرانہ قاضیوں اور منصفوں کا سے تعلق رکھتا تھا ۔ عربی ، فارسی اور دیگر مشرقی علوم پہلے گھر پر، پھر دارالعلوم میں پڑھے۔ پھر انہوں نے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں ہی دی جاتی تھی اور اس کے لئے خاص طور پر اردو میں کتابیں او ر درسی لٹریچر تیار کیا جاتا تھا۔

کالج کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اساتذہ کے درمیان یہ تنازعہ پیدا ہوگیا کہ رضی الدین کس مضمون میں بہتر ہیں۔ سائنس کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ فزکس اور میتھمیٹکس میں بہتر ہے اور اسی لئے ان مضامین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ ادب اور لسانیات کے ٹیچرز کا اصرار تھا کہ وہ عربی اور فارسی میں بھی یکساں قابل ہیں اس لئے ان پر توجہ دی جائے۔ آخر یہ طے ہوا کہ سائنسی علوم کیلئے چونکہ لیبارٹریز کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ کالج میں جاری رکھے جائیں گے ۔ اسطرح کالج ختم ہونے کے بعد بھی ادب کے اساتذہ انہیں پڑھانے کیلئے موجود رہتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے اساتذہ اپنے قابل طلبا کے لئے کتنے فکر مند رہتے تھے ۔ ایک استاد نے انہیں ایک پیپر میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر دئیے تھے۔

رضی الدین انیس سو پچیس میں عثمانیہ سے فارغ ہونے والے پہلے بیچ میں شامل تھے۔ خالص اردو میں تعلیمی پس منظر کے باوجود انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ کیمبر ج میں وہ داخلے کے امتحان میں اول آئے اور انہیں براہِ راست سیکنڈ ائیر میں پڑھنے کی اجازت مل گئی۔  کیمبر ج میں وہ فزکس کے مایہ ناز ماہر اور نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک کے اولین شاگردوں میں شامل رہے۔ ڈیراک کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں شامل ہیں جنہیں 1933 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

کیمبر ج کے دنوں میں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور ان کے قریبی شاگردوں میں شامل ہوئے ۔ ایڈنگٹن وہی سائنسدان ہیں جنہوں نے 1919 کے سورج گرہن کی مدد سے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو ثابت کر دکھایا تھا۔ انہوں نے ایڈنگٹن کی رہنمائی میں علم کے سفر طے کئے۔ اس وقت فزکس بدل رہی تھی ایک طرف کوانٹم مکینکس تھی تو دوسری جانب نظریہ اضافیت نے زمان و مکان کے تصورات بدل کر رکھ دیے تھے ۔

کیمبرج سے ماسٹرز کے بعد وہ ڈاکٹریٹ کیلئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں وہ آئن سٹائن ، میکس پلانک یا ورنر ہائزن برگ کے شاگرد بننے کے خواہشمند تھے ۔ آئن سٹائن تو نہیں لیکن ورنر ہائزن برگ ان کے استاد مقرر ہوئے ۔ رضی الدین اس لحاظ سے خوش نصیب رہے کہ انہوں نے فزکس کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا اور ان لوگوں سے علم حاصل کیا جنہوں نے اس علم کو گویا بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کوانٹم مکینکس اور نظریہ اضافیت کے تصورات نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ رضی الدین نے اس دوران آئن سٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔

ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ نے نہ صرف ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو تعلیم دی بلکہ ان کی زندگی پر بھی گہرا اثر ڈالا ۔

  وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے.

صدیقی نے 1930 میں تھیوری آف نان لینیئر پارشل ڈیفرینشیل اکیویشن کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا ۔ انہوں نے ریاضی میں تھیوری آف آپریٹرز کو ترقی دی جو آج کوانٹم مکینکس میں استعمال کی جاتی ہے ۔

پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے ہی مشورے پر رضی الدین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں فرانس میں انہوں نے نہ صرف تحقیقی مقالے لکھے بلکہ فرانس کے ممتاز جرنلز میں ان کے مضامین شائع ہوئے ۔ 1931 میں وہ حیدرآباد دکن آگئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔

1937 میں انہوں نے کوانٹم مکینکس کے اپنے لیکچرز مرتب کرکے انہیں کتابی صورت دی۔ اس کتاب میں نظریہ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے ۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے محترم استاد ، ورنر ہائزن بر گ کے نام معنون کی تھی۔ اس کوشش کو نہ صرف ہائزن برگ نے بہت سراہا بلکہ اسے طالبعلموں کیلئے ایک مفید کتاب قرار دیا۔

ڈاکٹر پی اے ایم ڈیراک کو جب یہ کتاب بھجوائی گئی تو انہوں نے اسے بہت اچھی کوشش قرار دیا۔

پی اے ایم ڈیراک کا تحریر کردہ تعریفی خط۔ تصویر بشکریہ ڈاکٹر انور دل
پی اے ایم ڈیراک کا تحریر کردہ تعریفی خط۔ تصویر بشکریہ ڈاکٹر انور دل

1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیااور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔

1940 نے انجمن ترقی اردو ، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب ،نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔ یہ کتاب انہوں نے علامہ اقبال کی فرمائش پر تحریر کی تھی جو آئن سٹائن کے کام کو اردومیں پیش کرنے کے خواہشمند تھے لیکن افسوس کہ کتاب منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی علامہ اقبال وفات پاگئے تھے۔

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے ' اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔

ایک عظیم سائنسدان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی ، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ساتھ ہی وہ غالب، اقبال ، حافظ اور شیرازی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔

 ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیااور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔

1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر ہوئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے انہیں آزاد کشمیر یونیورسٹی کی صدارت سنبھالنے کو کہا، وزیرِ تعلیم فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن جائیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ صرف کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے ہیں اور واپس ہندوستان جاکر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہیں گے۔ اس موقع پر اس وقت صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے، جو اس وقت کراچی میں تھے، انہیں خیبر پاس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ جب رضی الدین صدیقی پشاور پہنچے تو انہیں دو کاغذات موصول ہوئے ۔ ایک اس ٹیلی گرام کی نقل تھی جس سردار

قیوم نے ہندوستانی وزیرِ اعظم کو کہا تھا کہ اب ڈاکٹر رضی الدین پاکستان میں رہیں گے اور ان کے اہلِ خانہ کو پاکستان بھجوادیا جائے۔ دوسرے خط میں انہیں نئی قائم شدہ پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کا سربراہ بنانے کے احکامات تھے۔

ڈاکٹر رضی الدین صدیقی سے مشورہ کئے بغیر خان عبدالقیوم خان کی اس جلد بازی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہندوستان میں اُن کی جائیداد اور سب سے بڑھ کر ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا ۔ اس لائبریری کے جانے کا انہیں ہمیشہ افسوس رہا۔

1960 میں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا گیا اور انہوں نے اس کا معیار بلند کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ 1964 میں صدر ایوب خان نے انہیں اسلام آباد میں مجوزہ ایک نئی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا جو آج قائدِ اعظم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کے لئے وہ فرانس ، امریکہ ، برطانیہ اور جرمنی گئے ، وہاں کی جامعات کو قریب سے دیکھا، اہلِ علم سے گفتگو کی تاکہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جاسکے۔ انہوں نے اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رالف ٹیلر اور ورنر ہائزن برگ سے بھی تبادلہ خیال کیا اور یونیورسٹی کیلئے ایک روڈ میپ تشکیل دیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایم آئی ٹی ، کیلٹیک اور رائل سوسائٹی سے بھی رابطے برقرار رکھے۔

انہوں نے اپنے تعلقات اور بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد سے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں اعلیٰ پائے کی فیکلٹیز تعمیر کیں۔ ساتھ ہیں انہوں نے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر بیرونِ ملک مقیم مشہور پاکستانی سائنسدانوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنے علم سے اسے منور کریں۔

افسوس کہ 1971 میں جہاں ملکی یونیورسٹیز میں تبدیلیاں ہوئیں وہیں، قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بھی سیاسی دخل اندازی بڑھی۔ یونیورسٹی میں استاد کیلئے پی ایچ ڈی کی بجائے صرف ماسٹرز کی حد رکھی گئی جس سے اس کے معیار کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس سے یونیورسٹی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگا۔

ڈاکٹر صدیقی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے اور ان کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ وہ غربت ، بیماری اور جہالت کا صرف ایک ہی علاج جانتے تھے اور وہ ہے تعلیم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے.

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج اسلام آباد میں شارعِ دستور پر واقع پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے قیام میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1961 سے 1972 تک اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے نائب صدر بھی رہے جبکہ سر سی وی رامن اس کے صدر تھے۔

  ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے ' اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔

1947 سے 1949 تک و ہ انڈین میتھیمیٹکل سوسائٹی کے صدر رہے اور یونیسکو کی جانب سے سائنس کے کنسلٹنٹ بھی مقرر ہوئے۔ انیس سو پچھتر میں انہیں انٹرنیشنل کانگریس آف میتھمیٹکل سوسائٹی کا جنرل پریذیڈنٹ منتخب کیا گیاجو ایک قابلِ فخر اعزاز ہے۔

1952 میں ڈاکٹر صدیقی کوانٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔

1960 میں انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ انیس سو باسٹھ میں جرمنی میں انہیں گرانڈ کراس آف دی آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔

دو جنوری ، 1998 کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ںعیم اللہ خان Jan 09, 2013 05:01am
ڈان نیوز کی بہت بڑی کاوش ہے ، یقینا ہم لوگ ایسے ستاروں سے نا آشنا ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کی بنیادوں کو اپنی محنت، محبت اور قابیلیت سے سینچا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ ڈان نیوز اسی طرح کے مضامین سے ہماری علمی آبیاری کرے گا اور قوم کےمعماروں کو قوم کے نوجوانوں کے سامنے لاءیں گے جو زمانے کی نفسانفسی میں گم ہو کر رہ گءے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025