بدلتا ہوا سعودی عرب
سعودی عرب کے ایک معروف مذہبی عالم نے مرد و خواتین کی مخلوط محفلوں اور ان کے مختلف امور کے حوالے سے رابطوں کے خلاف بیان دیا ہے۔
گزشتہ روز نماز جمعہ سے قبل مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے اپنے خطبے کے دوران واضح طور پر کہا کہ حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت یا اسلامی قانون کی رو سے مرد و خواتین کے میل جول یا ان کے مختلف امور کے سلسلے میں روابط پر پابندی کو یقینی بنائیں۔سعودی مفتی کا کہنا تھا کہ مرد و زن کا آزادانہ میل جول خواتین کی عصمت کے لیے خطرہ ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب حکومت سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو مشاورتی کونسل میں نمائندگی کا حق دینے جارہی ہے۔
شیخ عبدالعزیز نے ایک ہفتہ قبل ہی ایک سو پچاس اراکین پر مشتمل شوریٰ کونسل میں خواتین کو نمائندگی دینے کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔
ساتھ ہی انہوں نے اگلے بلدیاتی الیکشن میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ ووٹ ڈالنے کا حق دیے جانے کی حمایت تو کی لیکن خواتین کو لیڈیز گارمنٹس اسٹورز پر ملازمت کی اجازت کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔
یاد رہے کہ یہ شوریٰ کونسل سعودی عرب کا سب سے بڑامشاورتی ادارہ ہے۔
سال دوہزار گیارہ میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے خواتین کو ووٹ کا حق دینے کا اعلان کیا تھا اور یہ بھی خوش خبری دی تھی کہ 2015ء میں ہونے والے اگلے بلدیاتی انتخابات میں خواتین بطور امیدوار حصہ لے سکیں گی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچیس ستمبر 2011ء کو شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی نئی شوریٰ کونسل کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کو کونسل کی رکنیت کا حق دینے کا بھی اعلان کیا تھا ۔
شاہ عبداللہ کے الفاظ تھے: ''ہم خواتین کو معاشرے میں دیوار سے لگانے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم نے سینئر علماء اور اعلیٰ سطح کے دیگر افراد سے مشاورت کے بعد شریعت کے مطابق خواتین کو معاشرے میں حاصل تمام کردار دینے کا فیصلہ کیا ہے اور شوریٰ کونسل کی نئی مدت سے خواتین کو بھی اس کی رکنیت دی جائے گی''۔
اس موقع پر انہوں نے مزید کہا تھا کہ خواتین امیدوار کے طور پر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکیں گی اور انہیں ووٹ کا بھی حق حاصل ہو گا۔
واضح رہے کہ اب تک سعودی عرب میں صرف بلدیاتی اداروں کے نمائندوں ہی کا انتخاب کیا جاتا ہے اور دوسرے اداروں کے ارکان کی نامزدگی شاہ کی جانب سے ہوتی ہے۔
شوریٰ کونسل میں خواتین کو نمائندگی کا حق دینے کا فیصلہ شاہ عبداللہ کی وسیع تر اصلاحات کا حصہ ہے، جس کے تحت خواتین کو معاشرتی زندگی میں ایک فعال رکن بنانے کی جانب قدم بڑھایا جارہاہے۔ 2009ء میں سعودی عرب کی پہلی مخلوط یونیورسٹی کا قیام اس ضمن میں نہایت جرأت مندانہ اقدام تھا، جدہ کے شمالی قصبے میں قائم اس یونیورسٹی میں طلباء وطالبات ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
گو کہ اس یونیورسٹی میں مقامی طلباء کی تعداد محض پندرہ فیصد ہے اور باقی اسٹوڈنٹس کا تعلق اکسٹھ مختلف ممالک سے ہے لیکن سعودی عرب کے اصلاحات پسند باشندوں کا کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی سے قدامت پرست معاشرے میں بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔
اس کے علاوہ سعودی حکومت کا ایک بڑا اور انقلابی اقدام اولمپکس گیمز میں دو سعودی خواتین ایتھیلیٹ کی شرکت تھی، اس سے قبل اولمپکس کھیلوں میں شرکت کرنے والے سعودی کھلاڑیوں کے دستے میں صرف مرد ہوتے تھے، گزشتہ سال جون میں لندن اولمپکس میں سعودی دستے میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔
جبکہ دوسرا اہم اقدام یہ تھا کہ خواتین کو ایسے گارمنٹس اسٹورز پر جہاں صرف خواتین کے ملبوسات فروخت کیے جاتے ہوں، ملازمت کی اجازت دی گئی ۔
شاہ عبداللہ کی اصلاحات کی وجہ سے سعودی عرب تبدیل ہورہا ہے، گوکہ اس تبدیلی کی رفتار بہت سُست ہے اور بیرونی دنیا کو ابھی اس کا احساس نہیں ہو پایا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ سعودی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہائی اسکول کی انگریزی کی نصابی کتب میں خواتین کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے چار دسمبر کو یہ خبر دیتے ہوئے واضح کیا کہ 1926ء میں سعودی عرب کے قیام سے آج تک تمام اسکولوں کی نصابی کتب میں خواتین کی تصاویر شامل کرنے پر پابندی عائد رہی ہے۔
تاہم موجودہ تدریسی سال کے دوران اسکولوں میں تقسیم کی جانے والی نصابی کتب میں پہلی مرتبہ خواتین کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
فی الحال صرف انگریزی کتب ہی میں نقاب پوش خواتین کی تصاویر کو شامل کیا گیا ہے اور اسے بھی ایک غنیمت قدم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے نصابی کتب میں خواتین کے صرف خاکے شائع کرنے کی اجازت تھی۔
صرف خواتین کی تصاویر کی نصابی کتب میں شمولیت ہی پہلی بڑی تبدیلی نہیں ہے بلکہ کتاب کے مختلف اسباق میں لڑکیوں اور پیشہ ورانہ زندگی میں ان کے تعلیمی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
لیکن سعودی عرب کا قدامت پسند طبقہ شاہ عبداللہ کی اصلاحات سے خوش نظر نہیں آتا ہے اور وہ گاہے بگاہے ان اصلاحات پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ابھی ایک ماہ قبل ایک معروف مذہبی عالم کمال صبحی نے ایک رپورٹ شوریٰ کونسل کو پیش کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ اگر خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تو پھر یہ ملک میں نسوانیت کے خاتمے کا سبب بن جائے گی۔
مذکورہ رپوٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تو اس سے ملک میں جسم فروشی، فحش حرکات، ہم جنس پرستی اور طلاق کے واقعات میں اضافہ ہو جائے گا۔
بی بی سی کے مطابق سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی ایک خاتون نے کمال صبحی کی رپورٹ کو مکمل طور پر 'پاگل پن' قراردیا ہے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ بظاہر خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا مقصد انہیں غیر مردوں سے دور رکھنا ہے، لیکن یہ پابندی اس وقت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے جب انہیں روزانہ ایک نامحرم مرد ڈرائیور سے رابطے میں رہنا پڑتا ہے۔
سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے مسئلے نے خصوصی طور پر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرلی ہے۔
اصلاحات پسند شاہ عبداللہ نے اس حوالےسے تجاویز طلب کی تھیں، لیکن بہت سے قدامت پرست مذہبی رہنماؤں کی جانب سے ناراضگی کے اظہار پر بات آگے نہ بڑھ سکی۔
درحقیقت یہی لوگ ہیں جو سعودی حکمرانوں کو قوت و طاقت فراہم کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی شاہ عبداللہ کا عزم اس حوالے سے بلند نظر آتا ہے اور وہ اصلاحات کے عمل کو ہرممکن طریقے سے آگے بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔
ان کے اس عزم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال مئی میں اپنے ایک ایسے مشیر کو برطرف کردیا تھا جو انتہائی سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں ۔
سعودی عرب کی کابینہ میں شامل شیخ عبدالمحسن بن ناصر العبیکان نامی مشیر نے حکومت کی جانب سے صنفی تفریق کے معاملے میں رعایت دینے کے اقدامات کی مخالفت کی تھی۔ شیخ عبدالمحسن العبیکان نے سعودی حکومت کےمنصوبوں پر سخت الفاظ میں تنقید کی تھی جس کے بعد انہیں مشیر کے عہدے سے ہٹا دیا گيا ۔
سعودی عرب میں ایک عرصے سے انسانی حقوق کے کارکنان، خواتین کو معاشرے میں زیادہ حقوق دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ مردوں کی اجازت کے بغیر سفر، ملازمت اور میڈیکل آپریشنز پر پابندی عائد ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں خواتین کو علاج معالجے کے حوالے سے بھی بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے کہ ان کے سرپرست مرد ایمرجنسی کی صورت میں بھی مرد ڈاکٹروں سے علاج یا معائنہ کروانے سے انکار کردیتے ہیں۔
چنانچہ اب خواتین کے لیے ایسے ہاسپٹلز کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس میں تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہو۔
ریاض کی امام ترکی مسجد میں کل جمعہ کے خطبے کے دوران الشیخ عبدالعزیز نے خواتین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ممکنہ حد تک نامحرم مردوں سے دور رہیں، ان کا کہنا تھا :'اس پابندی کے ذریعے ہمارا عظیم مذہب خواتین کی عفت و عصمت کو شر و فساد سے محفوظ بناتا ہے'۔
سعودی عرب کے مذہبی عالم اسلام کی نہایت سخت اور محدود تشریح کرتے آئے ہیں، جس سے جدید دنیا کے غیر مسلموں پر یہ تاثر پڑتا رہا ہے کہ شاید اسلام دورجدید کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا۔
اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش پہلی مرتبہ سعودی عرب میں شروع کی گئی ہے، یہ درست ہے کہ اصلاحات کی رفتار بہت سُست ہے لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ سعودی معاشرہ میں تبدیلی کو بیرونی دنیا میں بھی محسوس کیا جاسکے گا۔
اِسے شاہ عبداللہ کی اصلاحات کا اثر ہی کہنا چاہیئے کہ سعودی عرب میں ایک مذہبی عالم نے تفسیر قرآن میں آیات کے شان نزول پر غور کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ موسیقی، مردوں اور عورتوں کے میل جول پر پابندی کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے معروف مذہبی عالم الحمیدی العبیسان نے موسیقی، اختلاط مرد و زن اور خاتون کے چہرے کو نقاب سے ڈھانپنے کے متعلق اپنے خیالات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ موسیقی اور مرد وعورت کے مخلوط ماحول میں کام کرنے کو حرام اور خاتون کے چہرے پر نقاب اوڑھنے کو لازمی قرار دیا جاسکے۔
العربیہ نیوز چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی عالم دین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس موسیقی کو حرام قرار دینے سے متعلق کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
سعودی عرب میں قدامت پرست نظریات پر سختی سے کاربند مذہبی پیشواؤں کے ساتھ ساتھ اصلاح پسند اور روشن خیال مذہبی رہنماؤں کی آوازیں بھی اب سنائی دے رہی ہیں، جو خوش آئند پیش رفت ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں