پاکستان میں زہرہ سیارے کا مشاہدہ
کراچی: چھ جون کی صبح دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح پاکستان میں جب سورج طلوع ہوا تو اس پر سیاہ تل کی مانند ایک واضح نکتہ سیارہ زہرہ تھا۔ سورج کے سطح پرسست رفتاری سے سفر کرتے ہوئے سیارہ زہرہ یا وینس کو کئی گھنٹے لگے اور اس منظرکو پاکستان میں ہزاروں افراد نے دیکھا جسے فلکیات کی زبان میں زہرہ کا عبور یا وینس ٹرانزٹ کہا جاتا ہے۔
یہ آسمانی نظارہ اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اب زہرہ کا اگلا عبور ایک سو پانچ سال بعد یا دوہزار ایک سو سترہ میں ہوگا۔
جامعہ کراچی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف پلانیٹری ایسٹروفزکس(آئی ایس پی اے)نے عوام الناس کو یہ مناظر دکھانے کے خصوصی انتظامات کئے تھے۔
اساتذہ، طالبعلموں، شائقین اور ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں نے جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ کے قریب واقع انسٹی ٹیوٹ میں جمع ہوکر اس تاریخی اورانوکھے منظر کو دیکھا۔
انسٹی ٹیوٹ میں دو دوربینیں نصب کی گئی تھیں جون میں سے ایک چھوٹی دوربین عمارت کی چھت پرٹرائی پوڈ پر رکھی تھی جبکہ ایک بڑی دوربین عمارت پر قائم خصوصی گنبد نما رصدگاہ یا ڈوم میں موجود تھی۔ یہ دوربین سن ساٹھ کے عشرے میں جرمنی سے منگوائی گئی تھی۔
اگرچہ کراچی میں بادلوں کی موجودگی اس اہم منظر کے درمیان حائل رہی تاہم، کچھ لمحات کے لئے جب بادل چھٹے تو لوگوں نے زہرہ کا نظارہ کیا۔ اس دوران انسٹی ٹیوٹ کے کے ماہرین اور طالبعلم لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے۔
ایک پی ایچ ڈی طالبعلم نے بتایا کہ طلوعِ آفتاب کیساتھ شروع ہونے والا یہ منظر تقریباً ساڑھے نو بجےتک جاری رہے گا۔
رومی دیومالائی داستانوں میں زہرہ کو محبت کی دیوی کہا جاتا ہے اور اس کی روشنی کی وجہ سے اسے صبح یا شام کا ستارہ بھی کہتے ہیں۔ زہرہ سیارہ نظامِ شمسی کے بقیہ سیاروں کے مقابلے میں اپنے محور پر مخالف سمت میں گردش کرتا ہے اور اسی لئے زہرہ پر سورج ہماری زمین کے لحاظ سے مغرب سے طلوع ہوکر مشرق میں غروب ہوتا ہے۔
سورج اور چاند گرہن کے برخلاف، زہرہ کا عبور فلکیات کا ایک بہت نایاب مظہرہے۔ انسانی تاریخ میں اب تک صرف چھ مرتبہ ہی زہرہ کا عبور نوٹ کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے دوہزارچار میں اسکا مشاہدہ کیا گیا تھا۔
پاکستان میں فلکیات نظر انداز
سورج کے سامنے سے سیارہ زہرہ کا گزرنا ایک ایسا نادر عمل ہے جسے دوبارہ ایک سو پانچ سال بعد ہی دیکھا جاسکے گا۔ پوری دنیا میں اسے دیکھنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے جس میں ہر عمر کے خواتین و حضرات نے بھر پور حصہ لیا۔ ساتھ ہی اس موقع کو فلکیات اور سائنس سے آگہی کے لئے استعمال کیا گیا لیکن پاکستان میں اس طرح کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
دوسری جانب جامعہ کراچی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف پلانیٹری ایسٹروفزکس بھی اسی طرح کا ایک ادارہ جو عدم توجہی اور مالی مشکلات کا شکار ہے۔
یہاں موجود رصدگاہ بھی بدحالی کا منظر پیش کررہی ہیں۔ رصدگاہ سے قیمتی دوچشمی دوربین، پاور کیبلز اور کئی اشیا پہلے ہی غائب ہوچکی ہیں،کیونکہ اس کی دیکھ بھال کے لئے مناسب عملہ بھی موجود نہیں۔
اسی اہم انسٹی ٹیوٹ میں اساتذہ کی تقرری ، تدریس اور دیگر مالی مسائل بھی موجود ہیں جبکہ ادارہ اکثر شدید مالی مشکلات کا شکار رہتا ہے۔