زندہ رہنے کا المیہ
خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر بشیر بلور کی شہادت نے ٹی وی چینلوں کے حکام کی ایئر ٹائم پورا کرنے کی مشکل آسان کر دی۔
ان کو ایک ایسی خبر مل گئی جس کے ذریعے وہ کئی گھنٹوں تک چند رپورٹروں کی مدد سے ناظرین کو اپنی جانب متوجہ رکھ سکتے تھے۔ اینکر پرسنز کے لیے موضوع کا انتخاب دشوار نہیں رہا۔
اخبارات کے نیوز ایڈیٹرز کو اب اگلے روز کے اخبارات کی شہ سرخی کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے اپنامؤقف واضح کرنے کا موقع مل گیا تو سماجی میڈیا پر’’جنگ‘‘ لڑنے کے عادی نوجوان اس سوال پر بحث کرنے لگے کہ کیا بشیر بلور کو ہیرو قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
یہ دوسری خبروں کی طرح ایک عام سی خبر تھی جو نظروں کے سامنے سے گزری، آپ چونکے، کچھ پریشان ہوئے لیکن سر جھٹک کر پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ کوئی تبدیلی نہیں آئی، کوئی گریٹ ڈیبیٹ شروع نہیں ہوئی۔ گہری خاموشی مایوسی کے تاریک سایوں کی غماز۔
سیاسی جلسوں کے موسم میں بشیر بلور کی بے وقت موت رنگ میں بھنگ ڈالنے کا سبب بنی۔ طاہرالقادری کا ’’تعارفی‘‘ شو فضا پر طاری سوگواری کے باعث دھندلا گیا۔ ممکن ہے کہ یہ موصوف کے جلسے کو ناکام بنانے کی سازش ہو، نہیں! حقیقت یہ ہے کہ اے این پی نے اگلے چند ماہ میں متوقع عام انتخابات میں ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے خود ہی بشیر بلور کو مروا دیا۔
کیا آپ اس سے متفق نہیں ہیں؟ چلیے! اب آپ سے کیا چھپانا، یہ ساری ایجنسیوں کی کارستانی ہے تاکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ کیا اب بھی آپ کی تشفی نہیں ہوئی؟ میرا خیال ہے آپ نرے بدھو ہیں۔
پاکستان میں 7 ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں سرگرم ہیں۔ ملالہ ایم آئی کے لیے کام کرتی ہے اور پولیو کے قطرے پلانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرزسی آئی اے کی ایجنٹ تھیں۔ یہ پولیو کی ویکسینیشن درحقیقت معذوری پیدا کرتی ہے، میں نے خود ایک اخبار میں یہ پڑھا ہے۔ کیا صومالیہ میں دو ہزار بچے پولیو کے قطرے پینے کی وجہ سے معذور نہیں ہوئے؟ کہہ دیجئے جھوٹ ہے۔
اب یہ ماننے سے بھی انکار کر دیجئے کہ صدر زرداری نے ہی بے نظیر بھٹو کو نہیں مروایا تھا۔ تحریکِ طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے ذمہ داری قبول کی تھی تو کیا ہوا۔ آخر صدر زرداری نے اسے بھی ڈرون حملے میں قتل کروا دیا۔ دیکھیں! یوں مجھ پر مسکرا کر آپ حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔
آخر بے نظیر بھٹو کے عہدِ اقتدار میں ہی مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوا تھا۔ بی بی کو ان کے کرموں کا پھل مل گیا۔ قائداعظم کی ایمبولینس راستے میں خراب ہوگئی تھی۔ لیاقت علی خان اس وقت وزیراعظم تھے۔ آخر ان کا انجام بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ بندوق سے نکلی گولی ہی ان کا مقدر بنی۔
رکیے! کیا آپ اس حقیقت کے بھی منکر ہیں کہ بھگت سنگھ نے اپنے ایک عزیز کی موت کا بدلہ لینے کے لیے ہی انقلاب کا ڈرامہ نہیں رچایا تھا۔ اور سرسید احمد خان دراصل انگریزوں کے ایجنٹ نہیں تھے؟ آخر انہوں نے انگریزی نظامِ تعلیم کے فروغ کے لیے کیوں کر کوششیں کیں اور ایک ہزار برس تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمانوں کو ذہنی طور پر کلرک بنا دیا۔
یہ اور اس قسم کے کتنے ہی سازشی نظریات حقیقت کے قریب تر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کنفیوزن دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ جھوٹ کا سیاہ ناگ پھَن پھیلائے کھڑا ہے اور ہم بے بس ہیں۔ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی واپسی کا کوئی راستہ ہے۔ بے نظیر بھٹو، سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور اب بشیر بلور۔ اور وہ ہزاروں بے نام اور بے چہرہ ہم وطن جو لہو میں نہلا دیئے گئے، اب ماضی کے اوراق کا حصہ بن چکے ہیں۔
وہ ایک خبر جو بھلا دی گئی، ایک یاد جو ذہن کے نہاں دریچوں میں کہیں محفوظ ہے۔ 2010 کے سیلاب سے متاثر ہونے والے ایک شخص نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا؛
’’المیہ یہ نہیں ہے کہ میرا گاؤں پانی میں بہہ گیا، المیہ یہ نہیں کہ میرا خاندان مر گیا۔ المیہ یہ ہے کہ میں زندہ ہوں۔‘‘
یہ اس کرب کا اظہار ہے جو اپنوں کو کھو کر زندہ رہنے سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا احساس ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں شہید ہونے والے 40 ہزار شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں سے زیادہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ جب حال ہی کسی المیہ داستان کا منظر پیش کرنے لگے تو روشن مستقبل کی امید کرنا عبث ہے۔ اندھیروں کے قیدی روشنیوں کو گرفت میں نہیں لے سکتے۔
علی ظیف صحافی اور پرجوش کہانی کار ہیں اور قلم کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کی درست طور پر عکاسی کرتے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں