مضبوط کرپشن، کمزور جمہوریت
روزانہ بارہ ارب روپے بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ جانے کے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں لیکن لگتا نہیں ہے کہ یہ جائزہ اعداد و شمار کے حوالے سے مکمل ہے۔
بات صرف بدعنوانی کی نذر روپے کے اعداد و شمار کی ہی نہیں بلکہ اس کا تعلق خاص طور پر کئی دہائیوں سے حکمرانی کرنے والی ہماری سماجی اشرافیہ سے بھی ہے۔
نیب کے چیئرمین کے اعترافات ملک میں گہری جڑیں رکھنے والی بدعنوانی سے متعلق بڑے پیمانے پر معاشرتی تصور کی تصدیق کرتے ہیں اور اس سے پاکستان بدعنوان قوموں کی فہرست میں سب سے اوپر فائز ہوجاتا ہے۔
ملک کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والے مسائل کی فہرست میں سب سے اہم مسئلہ بدعنوانی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف ترقیاتی معاملات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے بلکہ موثر نگرانی (گورنس) اور جمہوریت کو بھی کمزور بناتا ہے۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس نے حکومت اور جمہوری اقدار کے جواز کو ختم کر دیا ہے. یہ اوپر سے نیچے تک پاکستانی معاشرے کو متاثر کرچکا ہے۔
نیب رپورٹ میں بیان کردہ بدعنوانی کے پھیلاؤ کی تفصیلات اور اس کی بیان کی گئی شدت چونکا دینے والی ہیں۔ مزیدِ برآں، جو بات سب سے مایوس کُن ہے، وہ سیاسی قیادت کا یہ ردِ عمل کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس کے باوجود کہ رپورٹ میں بیان کردہ تفصیلات نگرانی کے موثر نظام میں خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہے، بعض وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ نے اسے حکومت کے خلاف سازش قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے خود اپنے ہی منتخب کردہ چیئرمین نیب فصیح بخاری کو فارغ کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ لگتا ہے کہ اتنے دھڑلے سے حکومت کے خلاف منہ کھولنے کے بعد اب وہ زیادہ دیر تک اپنے عہدے پر برقرار نظر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ ایسا ہی ہوگا کہ جیسے پیغام پڑھے بغیر پیغام بَر کو قتل کردیا جائے۔
یہ درست ہے کہ بدعنوانی طویل عرصے سے موجود مسئلہ ہے لیکن جس طرح آج یہ کھلم کھلا اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے، ایسا پہلے کبھی نہ تھا۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر بھی رشوت اور کمیشن کا بازار گرم ہے۔ اب بدعنوانی ہر سطح اور ہر معیار پر قبولیت حاصل کرچکی ہے۔
اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ عہدوں پر براجمان وزیرِاعظم، وزراء اور اعلیٰ حکام کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور کیس میں ملوث ہوئے تو انہین 'راجہ رینٹل' کا لقب دیا گیا۔ رینٹل پاور کیس میں قوم کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
ایک طرف ڈرگ اسکینڈل ہے جس میں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار گیلانی کا بیٹا ملوث ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں گرفتار کیے جاسکتے ہیں۔
وفاقی وزیر مذہبی امور کو حج اسکینڈل میں جیل جانا پڑا جب کہ وزیرِ تجارت اعتراف کرچکے ہی کہ این ایل سی اسکینڈل میں انہوں نے بطور کمیشن بھاری رقم وصول کی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے کہا کہ لی گئی رقم واپس کردی ہے۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب حکومت نے سزا یافتہ افراد کی اہم سرکاری عہدوں پر تعیناتی کی ہیں۔ اعلیٰ اور سینئر حکام کھلے بندوں رشوت طلب کرتے ہیں، حتی کہ وہ عالمی ڈونرز ایجنسیوں سے بھی کمیشن مانگ لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی اداروں کے ایک سینئر اہلکار نے کھلے عام کہا کہ ان کے ادارے کے تحت شروع کیے جانے والے صحت کے ایک امدادی پروگرام کے حوالے سے ایک وزیر نے اُن سے رشوت طلب کی تھی۔
اس طرح کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں کہ پاکستان ترقیاتی و امدادی اداروں کا اعتماد کھوچکا اور عالمی اداروں نے مستقبل میں پاکستان میں ترقیاتی، امدادی اور بحالی کے پروگرام شروع نہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
حکومت کے تحت چلنے والے پیداواری اداروں جیسا کہ پاکستان اسٹیل ملز، ریلوے اور پی آئی اے وغیرہ میں کی جانے والی بدعنونیاں تو بے مثال ہیں۔ بدعنوانی ان اداروں کو دیوالیہ ہونے کے قریب دھکیل رہی ہے۔
اب یہ بات حیرت کا باعث نہیں کہ پاور اور دیگر پبلک سیکٹر کا خسارہ ملک کے دفاعی بجٹ کے قریب تک پہنچ چکا ہے۔
بدعنوانی کے بڑھتے کلچر میں اب وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ کا ٹیکس نہ ادا کرنا بھی شامل ہوچکا ہے۔ متعدد کابینہ وزیر اور ارکانِ اسمبلیوں کی بڑی تعداد سرے سے انکم ٹیکس ہی ادا نہیں کرتی۔
یہ نہایت شرمناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے ستّر فیصد سیاستدان اور مال دار بااثر افراد مبینہ طور پر انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں میں صدر سمیت حکمراں جماعت کے متعدد ارکان شامل ہیں۔
کیا کوئی یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ آیا دنیا کے کسی ملک میں ٹیکس چور عوامی عہدے پر فائز رہنے کا اہل ہوسکتا ہے۔
بلاشبہ یہ سیاستدان ہی نہیں ہیں جو قانون اور اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روندتے ہیں، تاجر اور معاشرے کے دیگر گروہ بھی بدعنوانی کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔
مزیدِ برآں، سیاسی اشرافیہ پالیسیاں بناتی اور حکومت چلاتی ہے، جب ان کا ہی رویہ ایسا ہو تو وہ دوسروں کے لیے کیا مثال بنیں گے مگراسے بہانہ بنا کر ذمہ داروں یا دوسرے ذمہ داروں کو معاف کردیا جائے۔
ٹیکس دینے کا رواج ہی ہم میں نہیں ہے۔ اس وقت ایک سو اسّی ملین آبادی میں ایک ملین سے بھی کم افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جی ڈی پی کے تقابل میں، ٹیکس وصولی کی شرح دنیا کے دیگر ملکوں میں سب سے نچلی سطح پر ہے، جس کا مقابلہ صرف افغانستان سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کو جس بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اس کا گہرا تعلق ٹیکس کی عدم ادائیگی سے ہے جس کے باعث حکومت کا بجٹ اُلٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے۔
جس کی وجہ سے عالمی اعتماد میں کمی، ٹیکس نظام کی کمزو بنیاد، ناہموار شرح پیداوار، تجارت بالخصوص عالمی تجارت میں کمی اور اُن چھوٹے کاروباروں میں بھی گراوٹ جو معیشت کے غیر رسمی شعبے کے حصہ ہیں، جیسے اہم معاملات بحران کی شکل میں ہماری معیشت کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ ان سب کے باوجود بدعنوانی پر سمجھوتہ ہمارا قومی کردار ہے۔
غیر رسمی معیشت میں توسیع، قومی معاشی کھاتے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن یہ بھی حکومت کی بے مہار بدعنوانی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے قانونی طور پر چھوٹے غیر رسمی معیشت کے شعبے میں کام کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔
بدعنوانی کا ایک اہم سبب احتساب کا فقدان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی کو قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک انسدادِ بدعنوانی کے قوانین کا تعلق ہے تو انہیں زیادہ تر لوگوں کو نوازنے یا پھر سبق سکھانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں قائم کیا جانے والا ادارہ قومی احتساب بیورو یا نیب اس کی ایک مثال ہے۔
یہ ادارہ اس وقت ہی اپنی ساکھ کھوچکا تھا جب فوجی حکومت کی پشت پناہی پر قائم حکومت میں شامل ہونے پر آمادہ، زیرِ تفتیش سیاستدانوں کے خلاف اُس نے فائلیں بند کردی تھیں۔
اگرچہ نیب قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکومت کے پورے اقتدار میں اس خلا کو پُر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
جہاں تک ترامیم کے ایک مجوزہ قانونی بِل کی بات ہے تو اسے اپوزیشن جماعتوں نے بے مقصد کہہ کر مسترد کردیا تھا۔
آزاد اور ساکھ کے حامل احتسابی طریقہ کار کے بغیر بدعنوانی کے اوپر موثر قابو پانا ناممکن حد تک مشکل ہے۔
جہاں تک انسدادِ بدعنوانی کے لیے قائم اداروں کی بات ہے تو حکومت ان شرمناک حد تک غیر قانونی استعمال کرتی ہے، جس کے باعث احتساب کا عمل ممل طور پر مفلوج ہوچکا ہے۔
پاکستان جیسے کمزور جمہوری ملک کے لیے شاید سب سے بڑا خطرہ بدعنوانی ہے۔ یہ نہ صرف جمہوری اداروں کو کمزور، اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہے بلکہ اس سے سیاسی عدم استحکام میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
جمہوریت کی بقا کے لیے بدعنوانی کے خاتمے کی جنگ لڑنا نہایت ضروری ہے۔
مضمون نگار صحافی اور مصنف ہیں۔
witter: @hidhussain
ترجمہ: مختار آزاد
تبصرے (1) بند ہیں