دنیا کا خاتمہ
معدوم مایا تہیذب اورامریکا کے قدیم ترین ہوپی باشندوں کے مرتب کردہ کیلنڈر کے مطابق دنیا کا آخری دن اکیس دسمبر، دو ہزار بارہ ہوسکتا ہے اور اب دنیا کے ختم ہونے میں صرف چند روز ہی باقی بچے ہیں۔
مایا باشندے صدیوں پہلے ختم ہوچکے اور شمالی امریکا میں سفید فام نو آباد کاروں نے ہوپیوں کو مٹاڈالا، اس لیے اب آپ کو ان کی پیشگوئی کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ہرگز ضرورت نہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ تہذیبیں اپنے خاتمے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں تو یہ دنیا کے خاتمے کے بارے میں کس طرح درست ترین پیشگوئی کرنے کے قابل ہوسکتی تھیں۔
اپنی حیرت کو چھوڑیے اور اب اس خاص لمحے کا تصور کر کے لطف لیں۔ جس کے گذر جانے کے بعد، انہیں بھی ہوچکے واقعات کے خانے میں ڈال دیا جائے گا۔
دنیا کے خاتمے کے اس قصے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ چل رہا ہے۔
طالبان نے فیس بُک پر بیروزگاروں کو متوجہ کرتے ہوئے ملازمتوں کا اشتہار دیا ہے، پنجاب میں علاج کے نام پر کھانسی کا زہریلا شربت فروخت ہورہا ہے اور ریموٹ کنٹرول پرندہ آسمان سے بم گرارہا ہے۔
یہ سب کچھ پچھلے انہی چند روز کے دوران ہوا، جب دنیا کے خاتمے کی پیشگوئی پر زور و شور سے باتیں ہورہی ہیں۔
مزیدِ برآں، گلیشیر پگھل رہے ہیں، جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہورہا ہے اور طوفانوں نے بنا آخری رسومات کے سیکڑوں زندگیوں کو اپنی قبر میں سمو لیا ہے۔ یہ انتباہ ابھی پچھلے ہفتے ملا جب سمندری طوفان بوپھا فلپائن کے جزیرے لزون سے ٹکرایا اور پانچ سو ہلاکتوں کا ذمہ ٹھہرا۔
تباہی اور بربادی کا دل یہیں پر ٹھنڈا نہیں ہوا، صرف پانچ دن بعد طوفان ایک بار پھر پلٹا اور ایک اور فلپائنی جزیرے سے ٹکرا کر مزید کئی سو لوگوں کی جانیں لے گیا اور پیچھے چھوڑ گیا ہولناک تباہی کے نشانات سمیت کئی سو زخمی ۔
کیا یہ موسمیاتی تبدیلی ہوگی، جنگ یا پھر صرف افواہ ہے۔۔۔ یومِ خاتمہ کی اس پیشگوئی کو روس میں نہایت سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔
روسی وزیر برائے ہنگامی حالات نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ 'وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ ہوسکتا ہے کہ جس کے بعد دنیا دسمبر اکیس سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔'
وزیرِ موصوف کے ان جذبات کی بازگشت ملک کے چیف فزیشن، روسی آرتھوڈکس چرچ کے ایک اعلیٰ اہکار اور پارلیمنٹ کے چند قانون سازوں کے بیانات کی صورت میں بھی سنائی دی۔
حتیٰ کہ ایک رکنِ پارلیمنٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جو لوگ اکیس دسمبر کو دنیا کے خاتمے کی افواہ پھیلارہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ بائیس دسمبر کو انہیں کٹہرے میں لاکر، اُن پر جرح شروع کردے۔
روس کو یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے شائع اور نشر ہونے والی خبروں سے شہریوں میں خوف و حراس پھیل چکا ہے۔ لوگوں نے تباہی کے دوران خود کو زندہ رکھنے کے لیے مددگار اشیائے ضروریہ مثلاً ماچس وغیرہ کو خرید کر ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے۔
فرانسیسیوں کا عقیدہ ہے کہ اس تباہی کے دوران جو چند خوش قسمت لوگ ملک کے جنوب میں واقع بگاراخ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے، وہ اس عالمی تباہی سے بچ جائیں گے۔
اس عقیدے کے پیشِ نظر فرانسیسی انتظامیہ نے بگاراخ پہاڑ تک پہنچنے والے تمام راستے بند کردیے ہیں کہ مبادا بڑی تعداد میں ہجوم کے وہاں کا رخ کرنے سے کوئی اور مسئلہ نہ اٹھ کھڑا ہوجائے۔
امریکا میں دنیا کے خاتمے کے خوف سے لوگوں نے بنکروں میں پناہ لینے اور خوراک و ہتھیار ذخیرہ کرنا شروع کردیا ہے۔
یہ صورتِ حال کتنی سنجیدہ ہوچکی ہے، اس کے لیے ناسا کا یہ بیان ہی کافی ہے کہ بنکروں میں پناہ نہ لی جائے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں۔
حکومتِ امریکا نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ایک نوٹس شائع کیا ہے، جس میں تقریباً انہی باتوں کو دہراتے ہوئے اپنے شہریوں کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا اکیس دسمبر، سن دو ہزار بارہ کو ختم نہیں ہونے جارہی۔
ایسا نہیں ہے کہ مایا لوگوں نے ایک تاریخ لی اور اسے دنیا کی تباہی کا نام دے دیا۔
ستارہ شناسوں کے مطابق دو ہزار بارہ کے موسمِ سرما کی اس تاریخ کو نظامِ شمسی کے تمام سیارے بشمول زمین اور سورج ایک خطِ مستقیم میں آمنے سامنے ہوں گے۔
سیاروں کی یہ منفرد تنظیم سٹیلائٹ اور نیوی گیشن سسٹم میں خلل ڈالے گی، نیز یہ ارضیاتی تبدیلوں کا بھی سبب بن سکتی ہے، جس کے باعث زلزلے آنے اور آتش فشانوں کے دہانے کھل جانے کا بھی خطرہ ہے۔
بعض دیگر کی دلیل ہے کہ سیاروں کا یہ سیدھا پن زمین کی مقناطیسی نوک پر اثر انداز ہوگا، جس سے کرہ ارض پر قائم بہت سی اشیا ترچھی ہوسکتی ہیں۔
بہت سارے اور لوگوں کی رائے ہے کہ دنیا کے خاتمے کی پیشگوئی سے خوف کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے اس حوالے سے دنیا کے اکیس ممالک میں ایک سروے کیا اور سولہ ہزار افراد کی رائے لی۔ نتائج کے مطابق کم از کم دس فیصد افراد ایسے تھے جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اُس روز یقیناً دنیا تباہ ہوجائے گی۔
ایک اور معتبر ادارے نے بھی اس طرز کا سروے کیا۔ اس کا نتیجہ بھی رائٹرز کے سروے سے ملتا جُلتا تھا۔ ہر سات آدمیوں میں سے صرف ایک کو اس بات پر یقین تھا کہ اکیس دسمبر کو دنیا اپنی زندگی پوری کر کے ختم ہوجائے گی۔
اگر آپ بھی دنیا کے خاتمے کی خبروں سے پریشان ہیں تو پھر آپ کو سائنس کی آغوش میں پناہ مل سکتی ہے۔ ناسا سے منسلک سائنسدان ڈیوڈ موریسن نے یو ٹیوب پر تفصیل سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کیوں یہ خدشہ بے بنیاد ہے۔
پاکستان میں یو ٹیوب پر پابندی ہے اوراس طرح کی خبروں سے پریشان کوئی پاکستانی ناسا سائنسدان کی طرف سے دنیا کے ختم نہ ہونے کی یقین دہانی کو تفصیل سے سمجھ نہیں پائے گا۔
اب اگر ناسا کے اس سائنسدان کی تفصیلی وضاحت اور دنیا کے قائم و دائم رہنے کی یقین دہانی کو تہذیبِ سندھ کی سرزمین کے تناظر میں بیان کریں تو اس کا انداز اور ذائقہ کچھ یوں ہوگا۔
جہاں تک دنیا کے خاتمے کی افواہوں کا تعلق ہے تو وہ ممالک جہاں زندگی خوش حال اور معیارِ زندگی بہتر ہے، جہاں لوگوں کو روزگار میسر ہے، جہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، جہاں لوگ اپنے بچوں کو بنا خوف و خطر کے ویکسین ٹیکے لگواتے اور پولیو کے قطرے پلواتے ہیں، سمجھ لینا چاہیے کہ یہی وہ خطّے ہیں کہ جو دنیا کے امکانی خاتمے کے نزدیک تر ہیں۔
اگرچہ عام طور پر پاکستانی خوف، افواہوں اور سازشوں پر بہت زیادہ دھیان دیتے ہیں مگر دنیا کے خاتمے کا بخار وہاں نہیں ہے۔ خاص طور پر شاید ایک پاکستانی کے لیے بقائے ارض کی بات کوئی خاص نہیں ہے۔
وہ لوگ جو خالصتاً عقیدے کی بنیاد پر حاصل کردہ پاک سرزمین پرآباد ہیں، ان کے لیے زمین کے 'یومِ خاتمہ' کا اتنا ثبوت کافی نہیں کہ جس کے باعث روس، فرانس اور امریکا والے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر ادھ موئے ہوئے جارہے ہیں۔
وہ پاکستانی جو دنیا کے خاتمے کی اطلاعات سے پریشان ہیں، وہ بھی اپنے روز مرہ کے کام کاج کے چکروں میں گھرے دنیا داری میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اپنے جھنجھٹوں میں الجھ کر اس خوف کو دور کرچکے ہیں۔
ویسے اگر دنیا کے خاتمے کی یہ ڈرامائی اطلاع 'تیار برائے پاکستان' ہوتی تو تب بھی ڈرنے کی کوئی بات نہیں تھی۔ کوئی نہ کوئی آپ کو ایسا مل جاتا تو جو تفصیل سے سمجھادیتا کہ ایسا سب کچھ ماضی میں ان کے ساتھ ہوچکا اور یوں آپ کی تسلی ہوجاتی کہ کچھ نہیں بگڑنے والا۔
جہاںتک دنیا کے خاتمے کی بات ہے تو یہ پیشگوئی ہے، اس پر بحث کریں، اس کا تصور کریں اور اس سے خوف زدہ ہوں، آخر کو یہ حضرتِ انسان کا صدیوں سے بحث کے لیے پسندیدہ موضوع رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ لکھنے والے لکھ گئے، کہنے والے کہہ گئے اور پڑھنے والے ثبوت نشانیوں میں دیکھتے ہیں کہ ایک دن ایسا آنے والے ہے جب سب کچھ اچانک۔۔۔ بس ختم ہوجائے گا۔
لیکن دنیا کے آخری لمحات کے بارے میں خوف اور خدشات برقرار ہیں، ہولناک تباہی کا تصور کیا جارہے جو شاید صرف چند روز کی دوری پر ہے۔
ایسا ہے تو پھرآج اور اکیس دسمبر کے درمیان موجود وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع کرنے کو بچا نہیں۔۔۔ اکیس دسمبر،جس پر کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کی آخری تاریخ ثابت ہوگی۔
مضمون نگار ایک وکیل ہیں اور آئین و سیاسی فلسفہ کے موضوعات پڑھاتی ہیں۔
ترجمہ: مختار آزاد
تبصرے (1) بند ہیں