!یہ غیرت ہے پاگل
1992 کے صدارتی الیکشن میں بل کلنٹن کےایک سیاسی مشیر نے ایک نعرہ متعارف کروایا تھا ‘یہ معیشت ہے پاگل’ جس نے بل کلنٹن کو صدر کے منصب پر بہنچا دیا۔ اس نعرے نے امریکہ میں معاشی مندے کے دور میں عوام کو امریکہ کے اصلی بحران کی نشاندہی کی۔
پاکستان میں سیاستدان، معیشت دان اور لبرل فاشسٹ بھی اس نعرے کو بے دریغ استمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا بنیادی مسلہ 50 پرسنٹ سے زیادہ لوگوں کا غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنا ہے۔
جاگیردار کو معیشت کے لفظ سے نفرت ہے۔ وہ تاجر اور دکاندار کو نیچ سمجھتا ہے کہ ان کا کام ایک ایک دھیلے اور پیسے کے پیچھے بھاگنا ہے۔ وہ پیسہ پیسہ اکٹھا کرکے لاکھوں روپے بناتے ہیں لیکن وہ ایک ایک دمڑی کے لیے لڑتے ہیں اور کنجوس ہوتے ہیں۔ وہ آرٹ کی سرپرستی شوق میں نہیں بلکہ منافع دیکھ کر کرتے ہیں کہ یہ ان کا دھندا ہے۔
جاگیردار کو اس کا لقب، جائیداد اور پیسے نسب سے ملتے ہیں اور وہ بنیے کی طرح دھیلے دھیلے کا کاروبار نہیں کرتا۔ ھندوستان کے مسلمان حکمران جاگیردار اورجنگجو تھے جو مال غنیمت یا جاگیر پر پلتے تھے اور تجارت جیسا بزدلانہ پیشہ ہندو بنیے کے لیے چھوڑ رکھا تھا۔
ہم جیسی غیرتمند اور مارشل قوم بجا طور پر تجارت اور معیشت جیسے لفظوں سے نفرت کرتی ہے جو ہمیں دھوتی بند بنیے کی یاد دلاتے ہیں۔ ہمارے نیے سیاستدان، مذھبی رہنما اور جنگجو عالم دین نے ہمارے اصل مرض کی صحیح تشخیص کی ہے۔ ہمارا اصل مرض یہ ہے کہ ہم غیرت کی لکیر کے نیچے رہ رہے ہیں۔ یہ غیرت ہے پاگل!
پوری دنیا کی ٓنکھیں ہماری غیرت کے جاگنے کے انتظار میں رہتی ہیں۔ ہم ہندوستان میں ایک ہزار سال سے غیرتمند زندگی گزار رہے تھے، لیکن ہمارے اندر کے میر جحفروں اور میر صادقوں کی غداری کے وجہ سے بے غیرت اور بزدل انگریزوں نے ہماری غیرت ہم سے چھین لی۔ آج ہمیں ایک غیرت مند لیڈر کی ضرورت ہے جو دوبارہ ہماری غیرت کو پورے ہندوستان پر بحال کردے اور وہ نہیں ہوسکتا تو کم از کم پاکستان پر تو ہو ہی جائے.
ہمارے بزدل اور بے غیرت حکمرانوں نے ہماری قومی غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے اور پوری دنیا میں کشکول لے کر بھکاریوں کی طرح پھر رہے ہیں۔ ہمارا ملک وسائل سے مالامال ہے۔ ہمارے پاس اربوں ٹنوں کے حساب سے سونا، پیتل، پٹرول اور گیس کے ذخائر ہیں لیکن کچھ چھٹانک غیرت کی کمی ہے۔
ایک دفعہ ہم اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا سیکھ لیں تو سب ٹھیک ہو جایے گا۔ یاد نہیں کیسے ہمارے طالب بھائیوں نے افغانستان میں علم، جاپانی روٹیوں اور عیسائی ریڈ کراس کی دوائیوں کو مار بھگایا تھا اور اپنے وسایل پر جینا سیکھ لیا تھا۔
ہمیں اپنے صومالیہ کے الشہاب کے بھائیوں سے بھی سیکھنا چاہیے جنہوں نے سموسے جیسے غیر اسلامی پکوانوں پر پابندی لگائی ہے اور بھیک مانگنے کے بجاۓ کھلے سمندر میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے ساتھ دھوم مچا دی ہے۔ وہ کفار کے بڑے بڑے جہازوں سے اپنے لیے زر مبادلہ اکٹھا کر تے ہیں اور ایک غیرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ میں ایسی قوموں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اپنے لیے مشعل راہ سمجھتا ہوں۔
ہم پانی، بجلی، خوراک، ادویات، انصاف، جمہوریت، چھت، سڑکوں، ہسپتالوں اور سکولوں کے بغیر گزارہ کر سکتے ہیں مگر غیرت کے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے اندر سوئی ہوی غیرت کو جگایے۔
انگلش میڈیم سکولوں نے ہماری غیرت کو سلا دیا ہے اور غلامانہ ذہن پیدا کیے ہیں جو سامراج کے گماشتے بن جاتے ہیں۔ ہمیں مدارس کی روشنی سے قوم کے بچے اور بچیوں کے ڈہن منور کرنا ہوں گے جیسے حضرت ضیا الحق نے کیا تھا۔
ہمیں خان خانان، خادم اعلی اور مولانا پٹرولیم جیسے مجاہدیں کی ضرورت ہے جو قومی غیرت کو جگانے کے لیے امریکی ڈکٹیشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بیس اوورز کے ایک میچ میں امریکی، ہندوستانی اور اسرائیلی ٹیموں کو شکست دے سکتے ہیں اگر ہم غیرت مند کھلاڑیوں کا درست انتخاب کریں۔ خان خانان ایک ہی بال میں پیپسی کا ڈھکن کھول کران سب کی وکٹیں اڑا دے گا۔
قاضی بوشہرہ بہت اچھے سلی بیک ورڈ پواینٹ کے فیلڈر ہیں۔ فوجی حکمت عملی کے ماہر نپولین حمید بن پھول فرایڈین سلپس پر، آفندی پاشا انڈر کور کی پوزیشن پر کھڑَے ہونگے۔ مولانا پٹرولیم وکٹ کیپر ہونگے جنہوں نے آج تک پٹرولیم پرمٹ کا کوئی کیچ نہیں چھوڑا۔ انگلستان کا وہ غیرت مند جوڑا جس نے اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کیا، اوپننگ کرے گا۔ عدلیہ کی بحالی کے ذمہ دار ان پر پھول برسایں گے۔
شیر گرلز کے لیڈر گواہ آفریدی، علی قیامت اور ماریہ باربی کیو ہونگے جو پچ پر نوکیلے جوتوں کے ساتھ ناچیں گے اور بال کو چبائیں گے۔ امریکی سامراج، ہندو اور اسرائیلی ہمارے باونسرز کے اگے ڈھیر ہوجاییں گے اور ہم غیرت اور جرگے کے انصاف کا ورلڈ کپ جیت کر دکھاییں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں