شام تباہی کے دھانے پر
اقوامِ متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کے باوجود شام مزید تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے حولہ کے علاقے میں شامی حکومت کی جانب سے ایک سو افراد کے قتلِ عام کی شدید مذمت کی ہے جس میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ تین سو افراد زخمی بھی ہوئے۔
رپورٹس کے مطابق، شامی افواج نے شہرکو بمباری کا نشانہ بنایا اوربعد میں حکومتی وفادارعسکریت پسندوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ شام میں اقوامِ متحدہ کے نگراں مشن نےان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ پیرکے روز حامہ کے علاقے میں تشدد کے نئے واقعات کی بھی اطلاعات ہیں۔
اگرچہ دمشق نے حولہ میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن ایسے بیانات پریقین مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ شام کی صورتحال بیحد پیچیدہ ہے جہاں مختلف گروہ حزبِ اختلاف بنارہے ہیں اور بعض عسکریت پسندوں کا تعلق القاعدہ سے بھی بتایا جارہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی سب سے بڑی ذمے داری صرر بشارالاسد کی ہے جن کی اکثرعلاقوں پراب بھی حکومت قائم ہے۔ جب تک صدر اسد اپنے رویے میں نرمی لائیں گے ڈر ہے کہ اس وقت تک ملک خانہ جنگی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہوگا۔
بشارالاسد اقوم متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ نمائیندے، کوفی عنان کے امن منصوبے کو ماننے سے انکار کرچکے ہیں اورعوام الناس پر تابڑ توڑ حملوں سے ظاہر ہے کہ شامی قیادت کو بین الاقوامی برادری کی تشویش اور انسانی حقوق سے کوئی غرض نہیں۔
معمرقذافی کےبرخلاف، شامی صدر کو بہت سے آپشن دئیے گئے ہیں۔ تاہم حزبِ اختلاف سے ان کے سمجھوتہ نہ کرنے اورسویلینز کو لگاتار نشانہ بنانے کے عمل نے اس بحران کے حل کو بے حد مشکل بنادیا ہے۔
اب اگرشام میں خانہ جنگی چھڑتی ہے تو تنازعے کی آگ کو اس حد تک ہوا دینے کی ذمےداری اسد پر ہی عائد ہوگی۔
شام کی حکومت ہو، حزبِ اختلاف ہو یا بین الاقوامی برادری ، انہیں یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ بہت امکان ہے کہ شام کی یہ اندرونی خانہ جنگی ایک علاقائی تنازعے میں تبدیل ہوجائے۔ لبنان میں پہلے ہی شامی بحران سے جڑے فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوچکے ہیں۔
کوفی عنان صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے اب تک دمشق میں ہیں اور اسد کو یہ موقع نہں گنوانا چاہئیے۔ ان پر یہ مشکل ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عنان منصوبے پر عمل کرتے ہوئے اپنی افواج کو بمباری روکنے کا حکم دیں تاکہ تنازعے کا ایک پُر امن حل تلاش کیا جاسکے۔