• KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:12pm
  • LHR: Maghrib 6:30pm Isha 7:54pm
  • ISB: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm
  • KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:12pm
  • LHR: Maghrib 6:30pm Isha 7:54pm
  • ISB: Maghrib 6:37pm Isha 8:04pm

مسئلہ فلسطین: اسلامی یا اصولی؟

شائع December 2, 2012

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

غزہ کی پٹی کے نہتے باشندوں کو ختم کرنے کے لیے حملوں نے سب کے معیارات کی قلعی کھول دی ہے، وہ بھی جو ان کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں اور وہ بھی جو سمجھتے ہیں کہ اپنے اقدام میں اسرائیل درست ہے۔

ہم یہ سب کچھ ماضی میں بھی سُن اور دیکھ چکے ہیں اور شاید مستقبل میں بھی یہی ہوگا۔ جو حقیقت ہے وہ صرف یہ کہ ایسا کوئی نہیں کہ جو دنیا کے سب سے بڑے اذیت خانہ میں قید کیے لاکھوں فلسطینیوں کو اس جہنم سے نجات دلاسکے۔

غیر معمولی طور پر، پاکستان کے لاکھوں ترقی پسند باشندے، چاہے وہ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر، انہیں نہتے فلسطینیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی اور ان کی سرزمین پر قبضے کے خلاف آواز اٹھانے میں دقت پیش آتی ہے۔

یہ کم از کم اس جارحیت کے خلاف احتجاج کے لیے کھڑا ہونے پر بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں یا پھر شاید انہیں فلسطینیوں کی تاریخی در بدری پر آواز بلند کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہوگی۔

روایتی قسم کے پاکستانی ترقی پسندوں کا نکتہ نظر ہے کہ ہمیں اپنی سرحدوں سے باہر کے معاملات پر آواز اٹھانے کے بجائے اپنا زیادہ وقت داخلی معاملات کو بہتر بنانے کی کوششوں پر صرف کرنا چاہیے۔

ان کی رائے ہے کہ ہم ان کے حق میں دلیلیں دینے سے بہت دور ہیں، جب کہ خود ہمارے ہاں عسکریت اور فرقہ واریت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے، جس پر بولنے کی ضرورت ہے۔

اور جہاں تک مظلوم قوم پر ڈھائے گئے جبر کے حوالے سے ہماری ریاست کے ردِ عمل کا تعلق ہے، تو ان کا جواب بہت سادہ ہے۔ فلسطین کو بھول جاؤ اور بلوچستان پر زیادہ توجہ دو۔

میں بھی ہر اس شخص کی طرح اضطرابی کیفیت کا شکار ہوں، جو پاکستان کے ترقی پسندوں کے نظریات اور سیاست سے پریشان ہے۔

میں صرف اُن ترقی پسندوں سے متفق ہوں، جو چاہتے ہیں کہ ریاست اپنے نو آبادیاتی دور کے مزاج میں تبدیلی لائے۔ قوموں کو کچلنا بند کرے جیسا کہ بلوچستان میں ہورہا ہے اور، ریاست کی طرف سے اسلامائزیشن کا وہ عمل بند کردے جو ہمارے معاشرے کو عدم برداشت سے دوچار کرکے ہڑپ کرتا جارہا ہے۔

ویسے مجھے یقین نہیں کہ وہ جو خود اپنے ملک کے اندر مسائل کا انبار کھڑا کرکے قوموں کو دبارہے ہیں وہ کس طرح دوسروں کے خلاف ایسا کرنے پر آواز اٹھا سکتے ہیں۔

کس منہ سے یہ صیہونی ریاست سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم سے باز آجائے۔ یقیناً اس معاملے پر کوئی اصولی اختلاف نہیں کرسکتا۔

تو پھر جدید دنیا کے ممالک میں سب سے طویل عرصے سے ظلم کا شکار قوم کے حق میں آواز نہ بلند کرنے یا اپنی خاموشی کے لیے ہم کیا وضاحت پیش کریں گے؟

مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہمارے ترقی پسند اسلام پسندوں سے اپنے سیاسی نظریات کی شراکت کرتے ہوئے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔

ان کی دلیل کچھ اس طرح کی ہوتی ہے: غزہ حماس کے زیرِ انتظام ہے اور اگر ہم ان کی کسی بھی شکل میں حمایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب حماس کو مضبوط بنانا ہے۔

اتنی تو سمجھ سب کو ہے کہ وہ اس طرح کی دلیل کی حقیقت سمجھ سکیں۔

خود ساختہ 'دہشتگردی کے خلاف جنگ' سے جو سب سے اہم بات ظاہر ہوتی ہے وہ بادشاہت مخالف رویہ ہے، جیسا نظام یہ مذہبی شدت پسند قائم  کرنا چاہتے ہیں۔

میں پچھلی بار بھی یہ لکھ چکا ہوں کہ ترقی پسندوں کی اکثریت بڑھتے مذہبی پن کو پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔

اس استدلال کے مطابق یہ سیاسی طور پرغلط ہے کہ اُن مغربی حکومتوں کی پالیسیوں کی مذمت کی جائے جو وہ ہمارے درمیان موجود 'دہشت گردی' کے اجتماعی خطرے کو ختم کرنے کے لیے متفقہ طور پر اختیار کرتی ہیں۔

بنیادی طور پر نظر تو یہی آتا ہے کہ ہمارے اور اُن کے درمیان گہرا بنیادی فرق ہے۔

ہمارے ہاں مذہب کو شدت پسندی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جب کہ وہاں بات اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کی ہے۔ ہماری اور اس خطے کی صورتِ حال میں یہ بنیادی فرق ہے۔

ہمارے روشن خیال اعتدال پسندوں کا یہ واضح طور پر یقین ہے کہ ہم اپنے طور پر فلسطینی موقف کی حمایت کا دعوی اس لیے نہیں کرسکتے کہ اس ملک میں مذہبی حقوق کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح کا ہے۔

عسکریت پسند یہاں اپنی نوع کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں اور وہاں بھی شدت پسندوں کے خلاف حملے ہورہے ہیں۔

وہ جو پاکستان کے اندر نسلی قومی گروہوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف پُر زور آواز اٹھاتے ہیں، وہ بھی اس معاملے پر آواز بُلند کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کہ جس پر مذہب کے حق کی اجارہ داری قائم کی جاچکی ہے۔

یہ بات تو بہت پہلے ہی طے کردی گئی تھی کہ فلسطین ایک 'مذہبی معاملہ' ہے۔

اس پس منظر میں جہاں ریاست کے اسلامی نظریاتی دعووں کو ملک کے اندر نسلی گروہوں کے حقوق کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہیں پر جب فلسطینیوں کی بات ہو تو یہ باورکرلیا جاتا ہے کہ اس بارے میں بات کرنا ملک کی وحدانیت کے خلاف ہے۔

تحریر کے بین السطور پڑھنے سے کچھ اور بھی واضح ہوتا ہے۔

قوم پرستوں کا یقین ہے کہ  صیہونی تجاوز یا مغرب کے پھیلاؤ پر احتجاج کرنا بے وقوفی پر مبنی حکمت عملی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نسل پرستوں کو اپنے حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے لازماً عالمی برادری کی حمایت درکار ہے، جو اس طرح کے احتجاج سے وہ کھو سکتے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ سرد جنگ کے خاتمے، بالخصوص سن دو ہزار ایک کے بعد سے فلسطینی مسئلے کے حوالے سے ترقی پسندوں کی سوچ میں قدرے اختلاف موجود ہے۔

یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ترقی پسند متعدد سیاسی معاملات پر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے نظر آتے تھے۔ حتیٰ کہ ماحول اور صنفی برابری جیسے معاملات پر بھی یہ سامنے کھڑے نظر آتے تھے، مگر اب شاید وہ کور نگاہی کا شکار ہوچکے ہیں کہ سامنے کھڑا اہم مسئلہ بھی انہیں نظرنہیں آتا۔

مثال کے طور پر اس بات پر اتفاق موجود ہے کہ جبر چاہے پاکستان کے اندر ہو یا اس سے باہر، قابلِ مذمت فعل ہے۔ یہ اس بات کی ضرورت پر زور دیتا ہے کہ لوگوں کو اپنے باہمی اختلافات بھول کر اس نکتے پر متحد ہونا چاہیے۔

سیکولرازم کی جدوجہد ہی وسیع النظری پر مشتمل ریاست اور قوم کی تشکیل میں رہنمائی کرسکتی ہے۔ تمام سمتوں کو، جو صرف دو نہیں ہیں، یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی پوزیشن ہی انہیں موثر بناسکتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اکثر ایک یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ ترقی پسندانہ سرگرمیوں کا حامی ہے۔ اصل میں وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں دوسرے ترقی پسندوں نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ دانشمندانہ دیوالیہ پن کا شکار ہوچکا۔

دریں اثنا، سابق دائیں بازو والوں کی گرفت معاملات پر کمزور پڑچکی ہے اور بس اب وہ اپنے منہ آپ میاں مٹھو رہ گئے ہیں، جس نے انہیں ایک عام پاکستانی سے قدرے دور کردیا ہے۔

مسئلہ فلسطین سوالیہ حد تک 'اسلامی' بنادیا گیا ہے۔ اب ترقی پسندوں کو لازماً فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا کہ وہ اس تنگ نظر دلیل کو تسلیم کریں گے کہ تنازعہ مذہبی حق کا معاملہ ہے یا پھر وہ اصولوں کی بنیاد پر اسے سیکولر تسلیم کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتوں اور منتشر گروہوں کو ساتھ ملا کر اس پر آواز بلند کریں گے۔

وہ لوگ جو دوسرے آپشن کا انتخاب کرتے ہیں، انہیں بنیادی طور تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسلامائزیشن کا جو عمل ہم نے شروع کررکھا ہے، اس کا سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔

مختصراً یہ کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا اس معاشرے اور دنیا کے مستقبل کے لیے، وسیع النظری کے تصور میں لکھے گئے اسکرپٹ میں، ہم اپنا اجتماعی کردار زیادہ بہتر انداز میں ادا کرسکتے ہیں یا نہیں۔ 


مضمون نگار قائدِ اعظم یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔

ترجمہ: مختار آزاد

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

حسین عبداللہ Dec 03, 2012 01:31am
پاکستان میں اسلامائزیشن کی جو سوچ متعارف کرائی گئی وہ سعودی عربیہ کی بادشاہت کی ضرورت کے تحت بنائی گئی سوچ ہے جیسے دنیا اسلام کی اس سوچ کو وہابی اسلام کہتے ہیں جو عبد اللہ ابن وھاب کا پیش کردہ نظریہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سوچ عدم برداشت،مخالفیں کو قتل،اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے مسائل پر زیادہ انحصار کرتی ہے جبکہ ڈئیلاگ اور رواداری کا عنصر بہت ہی کم پایا جاتا ہے اس مثالیں خود سعودی معاشرے سے لیکر افغانستان میں طالبان اور پاکستان میں قبائلی علاقوں سمیت متعدد شہروں میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن ضیاالحق نے اس سوچ کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنالیا اورہم آج تک اس کو سہہ رہے ہیں دانشوروں کو چاہیے کہ وہ خود اسلام کو جانچ کریں نہ کہ اسلام پسندوں کو ،اسلام پسندوں کی سوچ غلط ہوسکتی ہے اسلام نہیں
حسین عبداللہ Dec 03, 2012 01:34am
فلسطین کا مسئلہ سب سے پہلے انسانی ہے کیونکہ نام نہاد تہذیب یافتہ انسانوں نے ایسے اہمیت نہیں دی لہذا اب یہ مسئلہ صرف اسلامی بن کے رہ گیا اگرچہ بحثیت مسلمان فلسطنیوں کی حمایت ہر مسلمان پر فرض ہے

کارٹون

کارٹون : 13 اپریل 2025
کارٹون : 12 اپریل 2025