عوام کی ذمہ داری
سی این جی سلنڈر سے ہونے والے دھماکے ایسی شے نہیں کہ جس میں عوام مظلوم ہونے کا کردار ادا کریں اور ساری ذمے داری حکومت پر ڈال دی جائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے دھماکوں کے ذمے دار خود عوام ہیں۔ اتوار کو کراچی میں ہونے والے اسی طرح کے ایک دھماکے میں دو انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
یہ دھماکے زیادہ تر ہماری لالچ، حفاظتی اصولوں اور معیارات کی نظر اندازی اور انسانی جانوں کی حُرمت سے لاتعلقی کا نتیجہ ہیں۔ اس ضمن میں عوامی آگاہی میں اضافے کی مہم کا بھی فقدان ہے۔
تواتر سے ہونے والے یہ دھماکے سی این جی کِٹس کے نقائص کے حوالے سے عوام کے لیے کسی خطرے کے انتباہ سے کم نہیں ہیں۔
سی این جی اسٹیشنز پر نمایاں طور پر یہ ہدایت نامہ موجود ہوتا ہے کہ ایسی گاڑی کو گیس فراہم نہیں کی جائے گی، جس کا ڈرائیور سلنڈر کے درست ہونے کا تصدیق نامہ پیش نہیں کرسکتا ہو۔
اب تک حکومتی یا مٰڈیا کی سطح پر بھی ایسی آگاہی کا فقدان ہے کہ جس میں گاڑی مالکان کو اُن کے سی این جی سلنڈر کے معائنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہو۔
دوسری طرف نجی شعبہ ہے، جن میں سے کچھ تو اس کام کے مجاز ہیں باقی اس پیچیدہ معاملے کے ماہر ہیں۔
ہائیڈرو کاربن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے تحت ہر پانچ سال بعد نہ صرف سی این جی کٹس کا معائنہ لازم ہے بلکہ اس مقصد کے لیے اُس کے مخصوص انسپکشن سینٹرز بھی موجود ہیں۔
صرف پانچ سو روپے کے عیوض پوری کٹس کا معائنہ زیادہ مہنگا سودا نہیں۔ معائنے کی لازمی ضرورت کو نظرانداز کرنا نہ صرف مجرمانہ فعل ہے بلکہ اس ہدایت کو نظر انداز کرنے کا مطلب اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف بھی ہے۔
یقینی طور پر حکومت کو چاہیے کہ وہ ادارے کو مزید انسپکشن سینٹر کھولنے اور ان کا دائرہ کار بڑھانے کی ہدایت کرے۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ایسی تمام گاڑیوں میں جن میں سی این جی کِٹس نصب یا ان میں بہتری کرائی گئی ہو، کا تفصیلی معائنہ کرایا جائے اور اس ضمن میں غفلت کے مرتکب صارفین کو سزا دینے کے لیے موثر راستہ تلاش کیا جائے۔
اس کے ساتھ ہی یہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد نظر رکھیں اور ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں جو سی این جی سلنڈر کے معائنے کی درکار ضرورت کے قانون پرعمل سے غفلت کے مرتکب ہوئے ہوں۔
لوگوں کو راہ دکھائی جائے تاکہ وہ اپنے خود ساختہ غیر حقیقی حفاظتی زون سے باہر نکلیں اور اپنی گاڑیوں کی سی این جی کِٹس کا معائنہ کرائیں۔ اب بھی وقت باقی ہے، اب بھی بہت ساری قیمتی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔